دہشت گردی کے خاتمہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا کردار (کتاب)
انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے کردار پر مبنی ڈاکٹر نعیم مشتاق کی اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے لکھا ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے اور اس میں بنیادی طور پر دو اہم موضوعات ’انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا کردار‘ اور ’برصغیر پاک و ہند میں بین المذاہب مناظراتی طرزعمل کے پس منظر میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے طرز تبلیغ کی خصوصیات‘ کو محققانہ انداز میں سپرد قلم کیا گیا ہے۔ یہ کتاب case study کے طور پر تیار کی گئی ہے، جس میں نہایت اختصار سے معلومات قلم بند کی گئی ہیں۔[1]
مصنف نے اپنے مخصوص انداز میں معاصر علماء اور ارباب قلم کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروائی ہے کہ آج کے دور میں وہی اسلوب تحریر و تبلیغ مؤثر ہوگا جو اعتدال و توازن اور بین المذاہب رواداری کے اوصاف سے متصف ہو۔ اساطین علم و ادب اور صاحبان فکرونظر کے لیے ضروری ہے کہ وہ دلیل و برہان اور عقل و منطق کے ذریعے اپنے پیغام کو پختہ کریں اور دوسروں کے دین و مذہب یا معزز و محترم شخصیات پر ہرگز زبان طعن دراز نہ کریں۔
پہلا حصہ
پہلے حصہ میں اَفکار و نظریات کی جنگ اور صراط مستقیم پر بات کرتے ہوئے بنیاد پرستی کی حقیقت واضح کی گئی ہے۔ یہاں مسیحیت اور اسلام کے درمیان مناظرانہ اسلوب میں ناروا رویوں کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین کے لئے مختلف حکیمانہ اسلوب بھی بیان کئے گئے ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی طبقاتی نظام تعلیم کی پیداوار ہے، چنانچہ نصاب تعلیم میں اسلام کو بطور دین امن متعارف کروائے بغیر معاشرے میں امن لانا ناممکن ہے۔
اس حصے میں دہشت گردی کی تعریف کرتے ہوئے ثابت کیا گیا ہے کہ جہاد اور دہشت گردی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاد کا حقیقی مقصد امن کی بحالی ہے، اس لئے پاکستان میں موجودہ قتل و غارت گری اور خودکش حملے کسی طرح بھی جہاد نہیں کہلوا سکتے۔
مصنف تقابل ادیان بالخصوص اسلام اور مسیحیت کے حوالے سے مضبوط گرفت رکھتے۔ انہوں نے انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے مسلمانوں اور مسیحیوں کے جذبہ خیرسگالی کے تحت ایک دوسرے سے برادرانہ تعلقات پر زور دیا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے تحت بنایا گیا مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم ان کی نظر میں جذبۂ خیرسگالی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ مسیحی برادری کا جامع مسجد منہاج القرآن میں اپنی مذہبی رسوم ادا کرنا اور ہر سال اپنے گرجوں میں مسلمانوں کے نبی کی ولادت کے موقع پر محافل میلاد منعقد کرنا، نیز منہاج القرآن کے مرکز پہ ہر سال کرسمس کی تقاریب کا اِنعقاد انتہا پسندی کے خاتمے کے سلسلے میں اہم پیش رفت ہیں۔
توہین آمیز خاکوں کے ایشو پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے نکتہ نظر سے مصنف خاصے متاثر ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے گستاخانہ فلم کے خلاف عالمی ممالک کے سربراہان کو بھیجا گیا مراسلہ[2] ان کی نظر میں ایک متوازن ردعمل تھا۔ مختلف ادیان کے مابین برداشت کے فروغ کیلئے لندن میں منعقد ہونے والی کثیر المذہبی امن برائے انسانیت کانفرنس ان کی نظر میں بین الاقوامی سطح پر امن و محبت کے فروغ اور برداشت کا ماحول پیدا کرنے میں امت مسلمہ کی طرف سے ایک عدیم المثال کوشش تھی۔
بین المسالک رواداری کے فروغ کیلئے اپنے سوا دیگر مسالک پر کفر کے فتوے لگانے کی روش کا خاتمہ اور بین المسالک روابط کا آغاز وحدتِ ملی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے نزدیک اِقامت دین سے مراد اَمن عالم کا قیام ہے، چنانچہ اقامتِ دین کیلئے جہاد کے نام پر امن عالم کو تباہ کرنے والے تمام ہتھکنڈے کلیتاً غیرشرعی اور غیراسلامی ہیں۔ ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا پرامن شرعی طریقہ سیاسی و جمہوری جدوجہد سے عبارت ہے۔
دوسرا حصہ
دوسرے حصہ میں برصغیر پاک و ہند میں جاری بین المذاہب مناظراتی طرزعمل اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے طرزتبلیغ کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ یہاں حضرت شیخ احمد دیدات سے تقابلی موازنہ پیش کرنے کے بعد انہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے اُسلوبِ دعوت کی چار امتیازی خصوصیات بھی پیش کی ہیں، جو یہ ہیں:
- پہلی خصوصیت: تحقیقِ مسائل کا شرعی اُسلوب
- دوسری خصوصیت: اِسلامی ماخذ و منابع پر مضبوط گرفت
- تیسری خصوصیت: جامع و مانع گفت گو
- چوتھی خصوصیت: ضبط و تحمل کا مظاہرہ
حرف آخر
آخر پر مصنف نے شخصیت پرستی اور عقیدت و احترام کے قرآنی معیار پر سیرحاصل گفتگو کی ہے جو قارئین کیلئے نئے عقدے وا کرتی ہے۔
حوالہ جات
بیرونی روابط
مزید دیکھیئے