"نظامت دعوت" کے نسخوں کے درمیان فرق
منہاجین (تبادلۂ خیال | شراکت) م |
اندلسی (تبادلۂ خیال | شراکت) |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
− | + | [[عملِ دعوت اور تحریکِ منہاج القرآن]] | |
− | + | تحریکوں کی زندگی میں دعوت کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ تحریکوں کی ناکامی اور کامیابی کا انحصار بہت حد تک دعوت کی موثریت و غیرموثریت پر ہوتا ہے۔ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عمل دعوت کا فقدان بالاخر تحریکوں کی ناکامی کا باعث بنتا ہے۔ | |
+ | |||
+ | آج کے اس پرفتن دور میں [[تحریک منہاج القرآن]] بھی اسی فریضہ دعوت کو بپا کرنے کےلئے میدان کارزار میں اتری ہے۔ تحریک کے عناصر خمسہ کی روشنی میں عمل دعوت ان چار نکات پر مشتمل ہے۔ | ||
+ | |||
+ | *فکر آخرت اصلاح باطن اور رضائے الہی کا حصول | ||
+ | *ایمان وعقیدہ کا تحفظ اور عشق رسالت کافروغ | ||
+ | *عصر حاضر میں اسلام کی تعبیرنو | ||
+ | *مصطفوی انقلاب اور اقامت دین | ||
+ | |||
+ | [[1981ء]] میں جب تحریک کی دعوت کا آغاز ہوا تو اس وقت سیاسی اعتبار سے ملک میں مارشل لاء کا دور دورہ تھا۔ عوام شخصی آمریت کے زیر تسلط تھی۔ ان حالات میں مذہبی اجارہ داروں نے عوام کو دین سے مزید دور کر دیا تھا۔ دینی دعوت اور اصلاح احوال کا کام کرنے والوں نے قرآن و سنت کے قوی دلائل کی بجائے اپنی دعوت و خطابت کا سارا انحصار ترنم، شاعری اور خوش آوازی پر کر رکھا تھا۔ روحانی حوالے سے وارثان طریقت اور سجادہ نشینان نے تصوف و روحانیت کو کاروبار بنا لیا تھا۔ صوفیاء کی اصل تعلیمات کی بجائے تصوف کا تمام انحصار دم، تعویذ اور جھوٹی سچی کرامات پر تھا۔ نتیجتاً پڑھی لکھی نوجوان نسل ان کاروباری علماء اور مشائخ کے کردار سے متنفر ہو کر دین سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ ان حالات میں قائد تحریک [[شیخ الاسلام]] پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی دعوت کا آغاز سلسلہ دروس قرآن سے کیا جو کہ عام روایتی انداز سے بالکل ہٹ کر تھا۔ آپ کے دروس علمی اعتبار سے قرآن و حدیث کے دلائل سے مزین اور روحانی چاشنی سے بھرپور ہوتے تھے۔ جدید سائنسی حوالے سے دین کی تشریح و تعبیر اور دل میں اتر جانے والے انداز بیان نے پڑھے لکھے احباب کو بالعموم اور نوجوان نسل کو بالخصوص متاثر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت کم عرصہ میں یہ دعوت جنگل میں آگ کی طرح ہر طرف پھیلنے لگی اور جوک در جوک لوگ تحریک میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔ مزید یہ پیغام بانی وسرپرست اعلیٰ [[تحریک منہاج القرآن]] شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات، کتب وکیسٹس، سیمینارز اور کانفرنسز کی شکل میں نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک پوری دنیا میں پھیل گیا۔ | ||
+ | |||
+ | منہاج القرآن انٹرنیشنل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل علماء اور سکالرز نے بھی تحریکی دعوت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک کے اندر اور باہر بڑے بڑے اجتماعات، کانفرنسز اور سیمینارز میں اپنے خطابات اور مقالہ جات کے ذریعے منہاجیئنز نے لاکھوں افراد تک تحریکی فکر کو پہنچا کر انہیں باقاعدہ مشن سے وابستہ کیا۔ | ||
+ | |||
+ | [[نظامتِ دعوت کا باقاعدہ قیام]] | ||
+ | |||
+ | [[1993ء]] میں جب اس سارے کام کو منظم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو باقاعدہ [[نظامت دعوت]] کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پھر شب و روز غوروفکر کے بعد عمل دعوت کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کےلئے مختلف لائحہ عمل اور ورکنگ پلان پر کام ہوا اور مندرجہ ذیل ذرائع دعوت کو خاص اہمیت دی گئی: | ||
+ | |||
+ | 1. خود داعی کی ذات اور کردار کا عملی نمونہ | ||
+ | 2. لوگوں سے ملاقات اور ان کے رسم و رواج و خوشی وغمی کے موقع پر شرکت | ||
+ | 3. مختلف سلسلہ وار محافل کا قیام اور مختلف تقریبات اور سیمینارز کا اہتمام کرنا | ||
+ | 4. لائبریریوں کے قیام، کیبل نیٹ ورک و انٹرنیٹ پروگرام کے ذریعے دعوت کا فروغ | ||
+ | 5. خاص طور پر حضور قائدانقلاب کی کتب وکیسٹس کی اشاعت کو اہمیت دی گئی۔ | ||
+ | |||
+ | |||
+ | تحریک کے بنیادی تنظیمی ڈھانچے میں اس نظامت کا سربراہ [[ناظم دعوت]] کہلاتاہے۔ | ||
{{سانچہ:نظامتیں}} | {{سانچہ:نظامتیں}} | ||
− | |||
− | |||
[[زمرہ:مرکزی سیکرٹریٹ]] | [[زمرہ:مرکزی سیکرٹریٹ]] | ||
[[زمرہ:نظامتیں]] | [[زمرہ:نظامتیں]] | ||
[[زمرہ:دعوت]] | [[زمرہ:دعوت]] |
تجدید بمطابق 16:33، 21 اپريل 2009ء
عملِ دعوت اور تحریکِ منہاج القرآن
تحریکوں کی زندگی میں دعوت کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ تحریکوں کی ناکامی اور کامیابی کا انحصار بہت حد تک دعوت کی موثریت و غیرموثریت پر ہوتا ہے۔ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ عمل دعوت کا فقدان بالاخر تحریکوں کی ناکامی کا باعث بنتا ہے۔
آج کے اس پرفتن دور میں تحریک منہاج القرآن بھی اسی فریضہ دعوت کو بپا کرنے کےلئے میدان کارزار میں اتری ہے۔ تحریک کے عناصر خمسہ کی روشنی میں عمل دعوت ان چار نکات پر مشتمل ہے۔
- فکر آخرت اصلاح باطن اور رضائے الہی کا حصول
- ایمان وعقیدہ کا تحفظ اور عشق رسالت کافروغ
- عصر حاضر میں اسلام کی تعبیرنو
- مصطفوی انقلاب اور اقامت دین
1981ء میں جب تحریک کی دعوت کا آغاز ہوا تو اس وقت سیاسی اعتبار سے ملک میں مارشل لاء کا دور دورہ تھا۔ عوام شخصی آمریت کے زیر تسلط تھی۔ ان حالات میں مذہبی اجارہ داروں نے عوام کو دین سے مزید دور کر دیا تھا۔ دینی دعوت اور اصلاح احوال کا کام کرنے والوں نے قرآن و سنت کے قوی دلائل کی بجائے اپنی دعوت و خطابت کا سارا انحصار ترنم، شاعری اور خوش آوازی پر کر رکھا تھا۔ روحانی حوالے سے وارثان طریقت اور سجادہ نشینان نے تصوف و روحانیت کو کاروبار بنا لیا تھا۔ صوفیاء کی اصل تعلیمات کی بجائے تصوف کا تمام انحصار دم، تعویذ اور جھوٹی سچی کرامات پر تھا۔ نتیجتاً پڑھی لکھی نوجوان نسل ان کاروباری علماء اور مشائخ کے کردار سے متنفر ہو کر دین سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ ان حالات میں قائد تحریک شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی دعوت کا آغاز سلسلہ دروس قرآن سے کیا جو کہ عام روایتی انداز سے بالکل ہٹ کر تھا۔ آپ کے دروس علمی اعتبار سے قرآن و حدیث کے دلائل سے مزین اور روحانی چاشنی سے بھرپور ہوتے تھے۔ جدید سائنسی حوالے سے دین کی تشریح و تعبیر اور دل میں اتر جانے والے انداز بیان نے پڑھے لکھے احباب کو بالعموم اور نوجوان نسل کو بالخصوص متاثر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت کم عرصہ میں یہ دعوت جنگل میں آگ کی طرح ہر طرف پھیلنے لگی اور جوک در جوک لوگ تحریک میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔ مزید یہ پیغام بانی وسرپرست اعلیٰ تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات، کتب وکیسٹس، سیمینارز اور کانفرنسز کی شکل میں نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک پوری دنیا میں پھیل گیا۔
منہاج القرآن انٹرنیشنل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل علماء اور سکالرز نے بھی تحریکی دعوت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک کے اندر اور باہر بڑے بڑے اجتماعات، کانفرنسز اور سیمینارز میں اپنے خطابات اور مقالہ جات کے ذریعے منہاجیئنز نے لاکھوں افراد تک تحریکی فکر کو پہنچا کر انہیں باقاعدہ مشن سے وابستہ کیا۔
1993ء میں جب اس سارے کام کو منظم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو باقاعدہ نظامت دعوت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پھر شب و روز غوروفکر کے بعد عمل دعوت کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کےلئے مختلف لائحہ عمل اور ورکنگ پلان پر کام ہوا اور مندرجہ ذیل ذرائع دعوت کو خاص اہمیت دی گئی:
1. خود داعی کی ذات اور کردار کا عملی نمونہ 2. لوگوں سے ملاقات اور ان کے رسم و رواج و خوشی وغمی کے موقع پر شرکت 3. مختلف سلسلہ وار محافل کا قیام اور مختلف تقریبات اور سیمینارز کا اہتمام کرنا 4. لائبریریوں کے قیام، کیبل نیٹ ورک و انٹرنیٹ پروگرام کے ذریعے دعوت کا فروغ 5. خاص طور پر حضور قائدانقلاب کی کتب وکیسٹس کی اشاعت کو اہمیت دی گئی۔
تحریک کے بنیادی تنظیمی ڈھانچے میں اس نظامت کا سربراہ ناظم دعوت کہلاتاہے۔
تحریک منہاج القرآن کی مرکزی نظامتیں |