شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا 23 دسمبر کا تاریخی خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا 23 دسمبر کوخطاب
فہرست
ابتدائیہ
پاکستان کے غیور ہم وطنو، پاکستان کے اس عظیم معاشرے کے جملہ مشائخ، علماء، تاجر، صنعت کار، زمین دار، کاشت کار، مزدور، محنت کش، کسان، اساتذہ، طلباء، ڈاکٹرز ، انجینئرز ، پروفیشنلز، دانش ور، سیاسی اور سماجی لیڈرز، کارکنان، صحافی حضرات، ملت اسلامیہ اور دیگر غیر اسلامی مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات سیاچن کی چوٹیوں سے لے کر فضاؤں کی بلندیوں تک اور سمندروں کی گہرائیوں تک ارض وطن کی حفاظت کرنے والو، ماؤو، بہنو، بیٹیو، اس دھرتی سےمحبت کرنےو الو، آج استحصالی، ظالمانہ ، جاگیردارانہ، مکارانہ ، سیاست کو مسترد کر کے ریاست بچانے کے لیے مینار پاکستان کے سائے تلےجمع ہونے والو، اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ فوجیو، قوم کو عدل و انصاف دینے والے ججز، قانون دان، سیاست دانو، تمام جماعتوں کے کارکنو اور بلاتفریق و امتیاز آج Millions (ملینز ) کی تعداد میں ریاست بچانے کے عظیم الشان پاکستانی ایجنڈےکو قبول کر کے میری دعوت پہ لبیک کہہ کر آنے والو !
میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آج سے 72 سال قبل مینار پاکستان کے اسی عظیم میدان میں قیام پاکستان کی قرارداد پیش کی گئی تھی۔ 72 سال کے بعد آج اسی مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں تعمیر و تکمیل پاکستان کی قرارداد پیش ہونے والی ہے۔ اس موقع پر چونکہ ہر طبقہ زندگی کے لیڈرز نے نمائندگان نے سیاسی اور سماجی قائدین و کارکنان نے مذہبی رہنماؤں نے، اور خواتین و حضرات نے میری دعوت پر لبیک کہہ کے پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کا فقید المثال اور نادر الوجود اجتماع منعقد کر کے ثابت کر دیا ہے کہ یہ قوم اٹھارہ کروڑ عوام کا نمائندہ اجتماع یہ میری آنکھوں کے سامنے مینار پاکستان کے سائے کے نیچے چھوٹا پاکستان بیٹھا ہے۔چمن سے کشمیر تک اور کراچی سے افغانستان کی سرحدوں تک ملک کےکونے کونے اور خطے خطے سے آئے ہوئے لاکھوں افراد جن کی تعداد ملینز سے تجاوز کر گئی ہے ایسا اجتماع پاکستان کی دھرتی پر فلک نے نہ کبھی دیکھا تھا نہ دیکھے گا۔
کلماتِ تشکر
میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں نے اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے اور پاکستان کےعوام نے اور دینی ، سیاسی ، سماجی جماعتوں اور رہنماؤں اور کارکنان نے جس محبت اور شفقت کے ساتھ آج کے اس Event (ایونٹ) اور اجتماع کو اپنا اجتماع جانا ہے۔میں ان سب کے شکریے کے ساتھ صدبار مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ "بطور خاص MQM (ایم کیو ایم) کے قائد محترم الطاف حسین صاحب نے اپنی پارٹی کے تمام لیڈرز ، تمام ایم این ایز ، تمام ایم پی اے رابطہ کمیٹی کے پچاس لیڈرز پر مشتمل پورا وفد اس اجتماع میں شرکت کے لیے بھیجا ہے" میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خوش آمدید کہتا ہوں اور آج وہ پچاس کے پچاس لیڈرز نمائندگی (سٹیج پر چوں کہ زیاد ہ جگہ نہیں ) ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے ہیں۔ (باقی لیڈرز مہمانان گرامی کے ساتھ بیٹھے ہیں) اس ملک سے جس جاگیردارانہ ، سرمایہ دارانہ، کرپٹ اور استحصالی نظا م کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی آج جس تحریک کا آغاز ہو رہا ہے ۔ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے بھی میری آواز میں برابر آواز ملائی۔ اس پاکستان کے محسن بلکہ محسنِ اعظم ڈاکٹر عبدالقدیر خان (انہوں نے خود ٹیلی فون پر مجھ سے بات کی اور بہت بڑا نمائندہ وفد بھیجا ہے میں ان ) کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ (وہ آج کراچی میں کمیٹڈ تھے ایک ملک گیر انجینئرز کے کنونشن کے لیے پہلے سے مگر اب وہ ملاقات کے لیے اگلے دو دنوں میں لاہور میں تشریف لائیں گے میرے ساتھ انشاء اللہ ) الغرض جتنی بھی دینی اور مذہبی اور سیاسی اور سماجی جماعتوں کے قائدین اور ان کے کارکنان نے شرکت کی ہے میں سب کو Wellcome (ویلکم) کرتا ہوں ۔ یہ ان سب کا اجتماع ہے یہ صرف تحریک منہاج القرآن کا نہیں پورے پاکستان کا اجتماع ہے، یہ اٹھارہ کروڑ عوام کا اجتماع ہے، یہ ہر مذہب، ہر ملت، ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے شخص کا، مردو و عورت کا اجتماع ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ، انٹیلی جنس ایجنسیز کا، پولیس کے تمام شعبہ جات کا، ان کے کمانڈوز کا، ان کی ایلیٹ فورسز کا ، ان کے جملہ سربراہان کا (صمیم قلب سے مبارک باد بھی دیتا ہوں) شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کا حق ادا کر دیا۔ (اور میری ہزارہا دعائیں ان کے لیے ہیں)
اور میں اس ملک کی جملہ سیاسی جماعتیں، خواہ وہ وفاق میں برسراقتدار ہیں ، (کولیشن کی شکل میں ) یا پنجاب میں برسر اقتدار ہیں۔ ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس عظیم ریاستِ پاکستان کے بچانے کے عظیم تاریخی اجتماع میں کوئی ایسی رکاوٹ پیش نہیں کی جس کے لیے کوئی خاطر خواہ ہم شکایت کر سکیں ۔میں سب کو شکریے کے ساتھ مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بشیر احمد بلور کے لیے فاتحہ خوانی
اس موقع پر ( حاضرین محترم!) ایک منٹ کے لیے اپنے نعرے اور Clapping کلیپنگ [تالیاں] بند کر لیں میں اپنے خطاب کو باقاعدہ شروع کرنے سے قبل۔۔۔ ہمارے وطن کے نہایت ہی محترم لیڈر اور ہمارے مہربان عزیز اور بھائی ، محترم بشیر بلو ر شہید جو کہ خیبر پختون خواہ کے صوبے کے سینئر وزیر تھے۔ وہ اس دہشت گردی کی وجہ سے کل ہی شہید ہوئے اور ابھی ان کی نماز جنازہ ادا ہوئی۔میں ان کے پسماندگان کو تعزیت کر چکا ہوں مگر خطاب شروع کرنے سے قبل۔۔۔۔ ان کو محترم اسفند یار ولی صاحب کو ، اے این پی کی پوری قیادت کو اور پورے خیبر پختونخواہ کو میں اپنے جذبات تعزیت اپنی طرف سے، آپ کی طرف سے بھیجتا ہوں اور خطاب کا آغاز ان کے لیے فاتحہ خوانی سے کرتے ہیں۔ اور اس میں ان سارے شہیدوں کو شریک کرتے ہیں جو پچھلے ۲۳ سالوں میں اس مقدس دھرتی پہ دہشت گردی کی وجہ سے لقمہءِ اجل بن گئے۔(اللہ مرحومین کی بخشش فرمائے اور پورے ملک کو امن و سلامتی عطا فرمائے)
خطاب
ڈاکٹر طاہرالقادری کے 3 حلف
حاضرین محترم !
میں اپنے خطاب کی ابتدا ء تین قسموں کے حلف سے کر رہا ہوں۔ یہ ایک اچھوتا ۔ آج خطاب نہیں ہے آج Narrative (نریٹو) ہے، یہ قرارداد ہے ، ہم پاکستان کو ایک نئے دور میں داخل کرنے جا رہے ہیں (میں نے دیکھا ۔ بہت سے احباب نے کہا، لکھا) ہماری سوسائٹی کی بدقسمتی ہے کہ ہمیشہ کسی بھی بات کو جب سوچتے ہیں تو ابتداء سوچ کی بدگمانی سے کرتے ہیں۔ ( کاش!!! ہمارے ہاں Culture (کلچر) مثبت قدروں پر استوار ہو جائے ۔) اگر یہ صورت نہ ہوتی تو مجھے اپنی گفتگو کی ابتداء ان تین حلفوں سے کرنے کی حاجت نہ تھی۔
قائدہ ہے کہ جب آپ اعلی عدلیہ میں کوئی Statement (سٹیٹمنٹ) دیتے ہیں۔ تو اپنی شہادت حلف کے ساتھ دیتے ہیں۔ قرآنی حلف کے ساتھ۔ میں ایک National Statement (نیشنل سٹیٹمنٹ) دے رہا ہوں اور اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ اجتماع کی عدالت قائم ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ قائم ہے۔
آج، جس میں بڑے فیصلے ہوں گے۔
ملک کے مستقبل کو سنوارنے ، اس کی تقدیر کو بدلنے، غریبوں کے چہروں پر خوشیاں لوٹانے اور تاریکی کو روشنی میں بدلنے کے لیے بڑے فیصلے ہوں گے۔
اس لیے اس سٹیٹمنٹ سے قبل میں چاہتا ہوں کہ غلط فہمیاں، بد گمانیاں ختم ہو جائیں۔ اس کے بعد لوگ میرے ایجنڈے کو ، میرے منشور کو ، میری بات کو سنیں، اتفاق کریں یا اختلاف، وہ میرٹ پہ کریں، دلیل کے ساتھ کریں۔ مگر نیت میں شک و شبہ نہ رہے۔
پہلا حلف تو یہ کہ :
23 دسمبر کا ، آج کا اجتماع، جس میں آپ شریک ہیں اور میں نے جس اجتماع کا اعلان کیا اور میں خود حاضر ہوا۔
میں اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر ، اللہ کے حضور قرآن کا حلف دے رہا ہوں اور شفاعت محمدی کا حلف دے رہا ہوں۔(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کہ اس اجتماع کے منعقد کرنے کے پیچھے کوئی ملک دنیا کا ، کوئی ادارہ، کوئی اندرونی اور بیرونی ایجنسی نہ کسی کا کہنا ہے ، نہ کسی کی خواہش ہے، نہ کسی کا ارادہ ہے، نہ کسی کو خبر۔ اللہ کی ذات کو گواہ بنا کر ، میں خود کو یوں سمجھیں ، جیسے تاجدار گنبدِ خضرا کی بارگاہ میں غلام کے طور پر کھڑا قسم کھا رہا ہوں۔اور میرا آج کا پروگرام کسی ملکی ، خارجی اور داخلی ایجنسی کا ایجنڈا نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان کلمہ گو ہے اس کے لیے میرا یہ حلف بحیثیت مسلمان کافی ہے۔
دوسرا حلف:
میں اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر اس کے حضور اس کی مقدس کتاب قرآن مجید کا حلف دے رہا ہوں کہ اس پورے اجتماع کے لیے جس میں آپ کے کروڑوں روپے لگے ہوں گے۔ ان کے جملہ انتظامات، لوگوں کا بسوں اور ٹرینز پر آنا ، اس پروگرام کی دنیا بھر میں تشہیر، اور دیگر مدات میں کیے گئے جتنے اخراجات بھی ہوئے، ان میں دنیا کے کسی ملک کا ، کسی ادارے کا، کسی بیرونی یا اندرونی ایجنسی کا یا کسی کے نمائندے کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی بھی شکل میں ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ یہ مالی قربانی، تمام انتظامات کی سو فیصد، تحریک منہاج القرآن کے کارکنان نے دی ہے اور ان کے ساتھ پاکستان کے عوام ، تاجر، علماء ، عامۃ الناس، جو اس ملک کی تقدیر کو بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں انہوں نے (حسب توفیق ان کارکنان کے ساتھ) معاونت کی ہے۔ اس کے سوا ۔ روئے زمین کی کسی طاقت کا ایک پیسہ اس سارے انتظام میں شامل نہیں ہے۔ اس پر میرا اللہ گواہ ہے۔
تیسرا حلف
اس اجتماع کی غرض و غایت (اللہ کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں) ہرگز ہرگز آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں ہے، نہ جمہوریت کا خاتمہ ہے (ان ساری بدگمانیوں کو ذہنوں کو نکال دیں) اور مسلمان ہوکر مسلمان بھائی کی بات کو میرٹ پر سنیں، دلیل سے قبول کریں، دلیل سے رد کریں۔
اور اس پوری سٹرگل اور آج کے اجتماع اور تحریک کے مقصد میں اللہ رب العزت گواہ ہے نہ اس میں قطعی طور پر کسی فوجی ٹیک اوور کی طرف کوئی ارادہ ہے (اور کسی ملٹری ٹیک اوور کا راستہ ہموار کرنا رب ذوالجلال گواہ ہے ہمارے وہم و گمان میں نہیں اور آرمی نے ٹیک اوور کی کوشش کی تو میں سیاسی لیڈروں سے پہلے اس دھرتی میں اس ٹیک اوور کو روکنے کے لیے آگے بڑھوں گا) اور نہ ہی اس کا مقصد اس ملک میں سیاسی عمل کی بساط کو لپیٹنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد اس ملک کو جمہوریت سے ہٹانا ہے ۔ بلکہ اس اجتماع کا مقصود : سیاست کو غلاظت سےپاک کرنا ہے، سیاست کو اجارہ داریوں سے پاک کرنا ہے، سیاست کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں ، وڈیروں ، اور ظالموں اور جابروں سے، ظلم سے ، استحصال سے اور جبر کے نظام سے ؛ پاک کرنا ہے، سیاست میں اٹھارہ کروڑ عوام کو ان کا حق دلانا ہے، نظام انتخاب اور نظام سیاست کی درستگی ہے، اس ملک سے سیاسی اور معاشی استحصال کا خاتمہ ہے اور ریاست پاکستان جن خطرات میں گھری ہوئی ہے اسے ان خطرات سے نکال کر ، گرداب سے نکال کر ، محفوظ و مامون کرنا اور اس کو بچانا ہے ۔
شرکائے جلسہ کا حلف
آؤ ۔ ملینز کی تعداد میں اس ارض مقدس کے فرزندو، بھائیو اور بیٹیو!
اب میرے ساتھ مل کر تم بھی ایک حلف اٹھاؤ!
آؤ ! ہم سب حلف اٹھائیں۔ دایاں ہاتھ اونچا کر کے۔ کہ
- ہم سب اس ملک پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں، ہم قومی سلامتی کا حلف اٹھاتے ہیں، ہم بلا رنگ و نسل فرقہ واریت کے خاتمے کا حلف اٹھاتے ہیں،
- ہم اس بات کا حلف اٹھاتے ہیں کہ پاکستان سب کے لیے ہے اور پاکستان سب کا ہے، یہ پاکستان ہر غریب کے لیے اتنا ہے جتنا امیر کا ہے، یہ ہر ہاری ، کسان، مزدور، محنت کش کے لیے اتنا ہے جتنا جاگیردار اور سرمایہ دار کا ہے۔
- ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ پاکستان میں امن کا راج ہو،
- ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ پاکستان میں عدل و انصاف کے دور کا آغاز ہو،
- ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ پاکستان میں آئین اور جمہوریت کی اصل حکمرانی ہو،
- ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست اور معیشت میں شفافیت ہو،
- ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم ایک ملک اور ایک قوم کی حیثیت سے مل کر پاکستان کو ایک مضبوط ، ناقابل شکست وحدت بنا دیں گے اور انتہا ء پسندی کو چھوڑ کر دلیل اور برداشت کا کلچر قائم کریں گے۔
- ہم اصولوں کی سیاست کریں گے ، لوٹ کھسوٹ کی نہیں اور ایک ایسی مثبت جدوجہد کریں گے جس کے ذریعے پاکستان اقوام عالم میں سر بلند ہو سکے۔
اگلی بات! میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آج کا اجتماع جسے ایم این ایز MNAs نہیں لائے، جسے ایم پی ایز نہیں لائے، جسے ایل ڈی اے کے ملازم نہیں لائے، تھانیدار ، پٹواری نہیں لائے، پولیس والے نہیں لائے، سکول کالجز ، یونیورسٹیاں ، بند کر کے بچوں کو نہیں لایا گیا، جس پر سرکار کے، ریاستوں کے، حکومتوں کے ، پیسے خرچ نہیں ہوئے، یہ لوگ اپنے گھروں کے زیور بیچ کر آئے ہیں، اپنے سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑیاں بیچ کر آئے ہیں ۔
مجھے علم ہے ( اللہ کی عزت کی قسم ) یہ غریب لوگ ، جن کے پاس کھانے کا لقمہ نہ تھا، انہوں نے بھوک برداشت کی ہے۔ مگر اس وطن سے بھوک کو ختم کرنے کے لیے قربانیاں دے کر آئے ہیں۔ میں پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو سلام کرتا ہوں اور ملینز کی تعداد میں آج اتنے بڑے اجتماع نے میرے سوال کا جواب دے دیا کہ ہم نے سیاست کو بچانا ہے یا ریاست کو ؟ آج کا اجتماع بتا چکا ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام ریاست کو بچانا چاہتے ہیں ، لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی کی سیاست کو نہیں بچانا چاہتے۔
اب میں اس موقع پر اپنی گفتگو اور اپنا ایجنڈا شروع کرنے سے قبل آپ سے دو باتیں پوچھنا چاہتا ہوں:
کیا آج آپ صرف میرے استقبال کے لیے اور میرا خطاب سننے کے لیے آئےہیں یا اس ملک کے استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے آئے ہیں؟جواب دیں۔۔۔۔۔کیا آپ صرف خطاب سن کے جانا چاہتے ہیں ۔یا اس ملک کےاستحصالی نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔پوری قوم ہاتھ اٹھا کر جواب دے۔ بدلنا چاہتے ہیں؟ سنیے! پھر نظام کا بدلنا ۔ ۔۔۔۔۔(زندہ باد۔۔۔۔) سنیے!
If you want change… If you want change. I am also here to bring the change
سنیں! مقدر بدلنے کے لیے، قوموں کی تقدیر بدلنے کے، ریاستوں اور ملکوں کا مسقتبل اور تاریخ بدلنے کے لیے؛ جدوجہد پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔۔۔
یہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔۔۔۔ اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ایک بات ذہن میں رکھ لیں کہ یہ میری جدوجہد جس کا آج سے آغاز ہو رہا ہے یہ اول دن سے آخر دن تک پرامن رہے گی۔ ہاتھ اٹھا کر میرے ساتھ عہد کرو! ہم تشدد کو مسترد کرتے ہیں، ہم Violence (والینس) کو مسترد کرتے ہیں، ہم توڑ پھوڑ کو مسترد کرتے ہیں، میں گوارا نہیں کر سکتا کہ میرے وطن کی ایک کھڑکی کا شیشہ بھی پتھر سے ٹوٹ جائے۔۔۔ اس سے بہتر ہے کہ پتھر سے میرا سر پھو ڑ دو۔۔۔۔۔ میرے وطن کا گھر نہ ٹوٹے۔ Violence (والینس) نہیں ہوگا، تشدد نہیں ہوگا، دہشت گردی نہیں ہوگی، گولی نہیں چلے گی، پتھر نہیں چلے گا، پرامن جدوجہد کے ذریعے نظام کو بدلیں گے۔ اگر آپ نظام بدلنا چاہتے ہیں تو مجھے دو سوالوں کا جواب دیں:(جل شانہ، ہم چوں کہ پڑھ چکے ، میں پڑھ کے آیا تھا عصر کی نماز، ابھی یہاں پڑھ کے داخل ہوا ہوں، آپ پڑھ چکے، گفتگو جاری رکھتے ہیں ، اجازت ہے شریعت میں، اذانیں بعد میں ہوئیں، کلام ہو رہا ہے۔)
دوسوالوں کا جواب دیں: اگر آپ نظام بدلنا چاہتے ہیں۔ تو جو فیصلہ میں کروں گا ، میرا ساتھ دیں گے۔۔۔۔جو فیصلہ کروں گا میرا ساتھ دیں گے۔
بولیے ۔۔۔بیٹھیے۔۔۔۔۔تیزی سے سنتے آئیں۔ تیزی سے جواب دیتے آئیں۔ اگر میں ۔۔۔۔۔ اب سنیں سوچ کر جواب دیں ۔۔۔۔۔۔
اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ استحصالی نظام کے بدلنے تک یہ دس پندرہ لاکھ یا بیس لاکھ افراد کا اجتماع ، دو ملین کا جہاں جہاں تک، یہ حضور داتا گنج بخش سے آگے، ضلع کچہری سے آگے، جی ٹی روڈ کی طرف، راوی روڈ سے آگے، اطراف و اکناف میں اوشن کی طرح پھیلا ہوا اجتماع ملینز کا۔ ۔۔۔۔جی ٹی روڈ مرید کے پر اجتماع ختم ہو رہا ہے۔ اجتماع کا اینڈ مریدکے پر ہے۔ ۔۔۔جی ٹی روڈ تک۔پچیس پچیس میل تک اجتماع ہے۔۔۔۔ جہاں تک ساؤنڈ سسٹم جا رہاہے۔۔۔۔پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، اگر میں آپ سے یہ کہوں ، تمام لوگ، نظام بدلنے تک مینار پاکستان بیٹھے رہیں گے اور یہ ساری دھرتی بلاک رہے گی۔ گھر نہیں جائیں گے ۔۔۔ عمل کریں گے۔۔۔
(دیکھیے کھڑے ہو کر دیکھیے)۔۔۔۔۔۔ بیٹھیے رہیں گے ۔۔؟
بھوک آئے گی، پیاس آئے گی، کھانا پینا بعض اوقات نہیں ملے گا، سردی کی سخت راتیں آئیں گی، بیٹھے رہیں گے ؟ جب تک کہوں؟
بیٹھیے ، بیٹھیے ۔۔۔۔۔ اب میرے اگلے سوال کا جواب دیں۔۔۔۔۔
ایک آپشن اور بھی ہے میرے پاس۔۔۔۔۔ایک آپشن ۔
(میڈیا والے دے رہے ہیں پوری قوم تک یہ آواز)
ایک آپشن میرے پاس اور ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اور میں شکریہ ادا کرتا ہوں پورے پاکستان کے الیکٹرانک ورپرنٹ میڈیا کا اور میں اگر لاکھ بھی شکریہ ادا کروں ۔ اس ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا تو وہ بھی کم ہوگا۔انہوں نے خدا کی قسم آج پاکستان سے وفاداری کا حق ادا کر دیا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا نے ، پرنٹ میڈیا نے ۔ اور اس میری آواز کا ایک ایک لفظ پوری قوم تک سنایا جا رہا ہے اور شرق سے غرب تک پوری دنیا کو سنایا جارہا ہے۔ اللہ برکت دے یہ جمہوریت میں میڈیا کی آزادی کی برکتیں ہیں۔۔۔۔۔اللہ اس کو سلامت رکھے میری سب کے لیے دعائیں ہیں۔
اب سوچ کر جواب دینا، میرا دوسرا سوال ۔ ۔۔۔۔۔نظام کو بدلنے کے لیے اگر میں آپ سے یہ کہوں ۔۔۔۔اپنے خطاب کے اینڈ پر۔۔۔۔
اگر میں یہ کہوں کہ گھر نہیں جائیں گے ۔۔۔۔اسلام آباد کی طرف مارچ ہوگا اور میں سب سے آگے چلوں گا۔
چلو گے !!!
پوچھو!! ذرا دیکھیں، ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ۔۔۔۔۔دیکھیں ۔۔ چلو گے ۔۔۔۔ اسلام آباد تک چلو گے ۔۔۔۔
جو لوگ مریدکے سے لے کر گوجرانوالہ، گجرات، دینہ ، راولپنڈی تک کے لوگ سنیں!!
انہیں ان ملینز لوگوں کے لیے رستے میں کھانا دینا ہوگا، پانی دینا ہوگا، استقبال کرنے ہوں گے ، مارچ پرامن ہوگا، جاپان سے لے کے امریکہ تک دنیا دیکھے گی، کہ ملین کا مارچ ایک پتھر چلائے بغیر جا رہا ہے۔ ۔۔۔۔چلو گے ۔۔۔۔۔یا۔۔۔ پلٹ کر واپس گھر چلے جائیں گے ۔
اچھا ایک ہاتھ نیچے کریں۔ ۔۔۔۔
ایک بات بتائیں:جنہوں نے ۔۔۔۔
جن کے گھر بچے رہ گئے، مشکلات ہیں، چھٹی تھوڑی ہے، جنہوں نے واپس چلے جانا ہے ان کو اجازت ہے، وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ ۔۔۔۔امام عالی مقام امام حسین نے کہا تھا۔۔۔۔۔ کربلا میں ۔۔۔۔ عاشورہ کی رات ۔۔۔۔چراغ بجھا کر ۔۔۔۔کہاتھا۔۔۔۔۔ چراغ بجھا کر ۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبح معرکہ شروع ہونے والا ہے۔۔۔ جو لوگ جانا چاہتے ہیں۔۔۔ ۔ میں چراغ بجھاتا ہوں وہ چلے جائیں ۔ میں قیامت کے دن اپنے نانا کو شکایت نہیں کروں گا۔
جنہوں نے جانا ہے وہ ہاتھ کھڑے کریں، جنہوں نے گھر واپس جانا ہے۔ وہ ہاتھ کھڑے کریں۔۔۔۔۔جنہوں نے گھر واپس جانا ہے ہاتھ کھڑیں کریں۔ ۔۔۔۔۔اور جنہوں نے اسلام آباد کا مارچ ( اگر میں کہوں اینڈ پر) کرنا ہے وہ ہاتھ اٹھائیں۔ ۔۔۔اب انتظار کریں۔۔۔۔ اب میں اپنا کیس سمجھانا چاہتا ہوں۔
اب بیٹھیے ۔۔۔۔۔ کیس سمجھانا چاہتا ہوں اور انتظار کریں کہ گفتگو کے اینڈ پر کیا اعلان ہوتا ہے۔ اب اس اعلان کا انتظار کریں اور اب جو بات اور کیس سمجھانا چاہتا ہوں پوری توجہ کے ساتھ اسے سنیں۔ اور سمجھیں اور اس فیصلے کا اعلان اپنی گفتگو کے اینڈ پر اٹھنے سے پہلے کر دوں گا ۔۔۔ان شاء اللہ۔
بہت جلدInitially (انیشلی) اشارہ اس لیے دے دیا کہ پولیس اور Law and Forcing Agencies (لاء اینڈ فورسنگ ایجنسیز) کو اپنے انتظامات۔۔ اگر اسلام آباد تک کرنے ہوں توWell and Time (ویل اینڈ ٹائم) کر دیں ۔ اور میں پولیس کے افسروں کو بھی سیاسی لیڈروں کی قید سے نجات دلانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
میں ہر ایک کی عزت اور غیرت کو بحال کروانا چاہتا ہوں، ہر غریب کے چہرے پر مسرت کا چراغ جلتا دیکھنا چاہتا ہوں، ہر غریب کے منہ میں لقمہ دیکھنا چاہتا ہوں اور نہیں چاہتا کہ کوئی ماں اپنے بچے کی میت لے کے آئے کہ اسے علاج کے لیے پیسے میسر نہ تھے۔۔۔یہ پاکستان چند ہزار یا چند سو وڈیروں اور لٹیروں کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے نہیں بنایا تھا۔ یہ اٹھارہ کروڑ غریبوں کے لیے بنا تھا۔ ہم ان سے چھین کر پاکستان غریبوں کو دیں گے۔ اس لیے ۔ ۔۔۔۔یہ ایجنڈا اس لیے دے رہا ہوں کہ کسی نے کیا کہا تھا۔
حاکم شہر کی اس بند گلی کے پیچھے
آج ایک شخص کو خون اگلتے دیکھا
تم تو کہتے تھے کہ ہوتے ہیں درندے ظالم
میں نے انسان کو انسان نگلتے دیکھا
ہم اس معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں اب اس معاشرے کو بدلنا ہوگا۔
حاضرین محترم !ہم اس ملک میں (اب میرا Narrative سٹیٹمنٹ شروع ہو گیا ہے۔۔۔۔ اب Decision کا انتظار کریں اور گفتگو سنیں)
ہم اس ملک میں آئینیت کی اور سیاسی (ستھرے سیاسی عمل) کی اورحقیقی جمہوریت کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس ملک میں عدلیہ کی آزادی اس کی خود مختاری اور عدالتی انصاف کی قوت اور اس کے آئینی کردار کی حمایت کرتے ہیں۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ عدل و انصاف کے مضبوط اور اعلی اور وسیع نظام کے بغیر ریاست پرامن طریقے سے نہیں چل سکتی اور عوام کو ترقی بھی نہیں مل سکتی۔ جدید جمہوری دور میں عدلیہ کا نہایت اعلی ، مضبوط مستحکم اور آزاد ہونا ریاست کے بچاؤ کے لیے اشد ضروری ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام پاکستان کی عدلیہ کے ساتھ قانون کی حکمرانی اور عدل کی بالادستی کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان کی سلامتی کے لیے ، پاکستان کی بقا کے لیے ، پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے، اس کی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ، کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔پاکستان سے بڑی اس ملک میں کوئی اور شے نہیں ہے۔ اس ملک کی خاطر اس دھرتی کا بچہ بچہ اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہانے کے لیے تیار ہے۔ ہم پاکستان کو اس خطے کا اہم ترین ملک سمجھتے ہیں۔
ہمیں اپنے نظام کو درست کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے قومی کردار کو مثبت بنا کر مستقبل کی قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔ ہمیں اپنے معاشرے کو بدا منی ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے پاک کرنا ہوگا اور جو لوگ انتہاء پسندی کی راہ پہ غلط فہمی کی وجہ سے چل نکلے ہیں (میں انہیں ایڈریس کر رہا ہوں) جو انتہاء پسندی کی راہ پر چل پڑے اور جنہوں نے گولہ بارود اٹھا لیا۔وہ میری اسی دھرتی کے بیٹے ہیں، ہمارے بھائی ہیں، میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں، کہ اگر اس ملک میں عدل اور انصاف کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں گا، اگر اس ملک میں ناانصافی کے خاتمے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر ا س ملک میں معاشرتی ، قومی، آئینی آزادیوں کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر اس ملک میں حقیقی اسلامی اقدار کی بحالی کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر اس ملک سے ڈرون حملوں کے خاتموں کی بات ہو گی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر غیر ملکی مداخلت کو ختم کرنے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر غیر ملکی آقاؤں کی غلامی سے نجات پانے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔
مگر! ۔۔۔ نہتے ، معصوم ، بے گناہ انسانوں کی جان بچانے کی بات ہوگی تو تم میرے ساتھ ہوگے، مسجد وں، امام بارگاہوں کی حفاظت کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے، اس ملک کو پر امن معاشرہ بنانے کی بات ہو گی تو تم میرا ساتھ دوگے، اس ملک میں خیر ترقی و خوشحالی لانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے، اس ملک کے غریبوں کے حقوق دلانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے، اس ملک کو غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے اور ان کے زنجیر سے آزادی دلانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو میں تمہارا ساتھ دوں گا۔
آؤ! ہم مل کر اس دھرتی کو دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے پاک کر دیں اور اس دھرتی کو ڈرون حملوں سے پاک کردیں۔ کہ کوئی طاقت ہمارے ملک کی سرحدوں میں داخلے کی جرأت نہ کر سکے، دنیا کی کوئی طاقت ہماری سرزمین میں مداخلت کا تصور نہ کرے، یہ ملک بے حساب قدرتی اور افرادی وسائل سے مالا مال ہے۔ مگر اس کی معاشی بربادی کا سبب کرپشن ہے، نااہل لیڈر شپ ہے اور استحصالی کرپٹ الیکٹورل سسٹم ہے، کرپٹ انتخابی اور سیاسی نظام ہے ۔ ۔جسے ہم نے بدلنا ہے۔ اور بدل کر ان شاء اللہ ہم اس ملک کی اکانومی کو معیشت کو Claps (کولیپس) نہیں ہونے دیں گے۔ اس ملک کی Ability (ایبلٹی) اور صلاحیت کو ختم نہیں ہونے دیں گے اور ہم اس ملک کی آزادی کو اپنی ذاتی آزادی سمجھیں گے۔
یہ بھی واضح کردوں بعض لوگوں کو سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے نعرے سے یہ بھی غلط فہمی ہوئی کہ شاید میری جدوجہد سیاست کے خاتمے کے لیے ہے ۔
نہیں ۔ میں سیاست پرBelieve کرتا ہوں۔ ریاست مدینہ کا قیام سیاست محمدی تھی۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ یہود اور مسلمانوں کو ملا کر مدینہ کا Constitution (کانسٹی ٹیوشن) تیار کرنا سیاست محمدی تھی۔ ۔خلافت راشدہ تاریخ اسلام کا سب سے عظیم سیاست کا دور تھا۔
میں ہر قسم کی آمریت کے خلاف ہوں، ہر قسم کی بادشاہت کے خلاف ہوں، فوجی ہو یا سیاسی، خاندانی ہو یا انتخابی، ہر غیر جمہوری آمرانہ طرز حکومت کو اسلام کے خلاف سمجھتا ہوں، ہر قسم کی ڈکٹیٹر شپ کو اور اتھاریٹیرینزم کو میں عقیدے کی بنیاد پر مسترد کرتا ہوں۔ میں اول تا آخر صاف ستھرے سیاسی عمل اور حقیقی جمہوریت اور جمہوری نظام کا قائل ہوں اسی کی بحالی کی جنگ لڑ رہا ہوں ۔
مگر جس سیاست کا میں قائل ہوں یہ وہ سیاست ہے کہ جو ان اصولوں پر قائم ہے۔ہم جس سیاست کو اس مقدس سرزمین پاکستان میں رواج دینا چاہتے ہیں وہ سیاست ان اصولوں پر قائم ہے کہ سیدنا صدیق اکبر کا دور خلافت تھا اور سیدنا فاروق اعظم اس دور کے چیف جسٹس تھے۔ ایک صحابی کو ایک غیر آباد زمین کا قطعہ الاٹ کیا گیا اور آقا علیہ السلام کا فرمان تھا۔ وہ مقررہ وقت میں زمین کو آباد نہ کر سکے۔ درخواست دائر کی گئی۔سیدنا فاروق اعظم چیف جسٹس کے کورٹ میں۔ تو سیدنا فاروق اعظم جو چیف جسٹس آف دی سٹیٹ تھے انہوں نے اس الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا۔ کہ مقررہ ٹائم فریم میں آبادی نہیں ہو سکی۔ (منسوخ کر دیا) وہ صحابی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خلیفہ وقت تھے، خلیفۃ الرسول ، ان کے پاس اپیل لے کر گئے۔ چیف جسٹس کے خلاف ۔خلیفۃ الرسول کے پاس اپیل لے کر گئے۔آپ نے فرمایا:لا اجدد شیئا ردہ عمرجس کیس کو چیف جسٹس نے رد کر دیا ہے خلیفہءِ وقت اس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں اس سیاست کا نظام ملک میں لانا چاہتا ہوں، یہ سیاست چاہتا ہوں۔عہد فاروقی ہے۔ ایک جنگ کے نتیجے میں مال غنیمت میں چادریں آئیں۔ ہر ایک کو ایک چادر ملی۔ اس سے بڑا جبہ اور قمیص نہیں بن سکتا تھا۔ سیدنا فاروق اعظم نے مال غنیمت کی دو چادروں سے جبہ سلوایا۔ اجتماع میں آئے جیسے پارلیمنٹ کا اجتماع ، صحابہ کا اجتماع، عام صحابی کھڑا ہو گیا۔ اس نے ہیڈ آف دی سٹیٹ کا مواخذہ کیا، محاسبہ کیا، اور کہا کہ ہماری ایک چادر سے لمبا قمیص نہیں سلا آپ کا کس طرح سل گیا؟ سیدنا فاروق اعظم کے دفاع میں ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی چادر بھی اپنے بابا کو دے دی تھی۔۔۔میں اس سیاست پر مبنی۔۔۔ ان سیاسی اصولوں پر ہم پاکستان کے معاشرے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
سیدنا علی المرتضی امیرالمومنین ہیں۔ ان کی زرہ ایک یہودی نے چوری کر لی۔ بحیثیت ہیڈ آف دی سٹیٹ اس کو گرفتار کر کے اپنی زرہ اپنی آرمر واپس نہیں لی۔ عدالت میں گئے۔ قاضی شریح جج تھے۔ انہوں نے ایویڈنس مانگی ۔ ان کے پاس گواہی نہیں تھی۔ یا ایک روایت کے مطابق سیدنا حسن کی گواہی تھی۔ جج نے کہا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں۔ مولا علی شیر خدا کا کیس ریجیکٹ ہوگیا۔ یہودی کے حق میں عدالت نے فیصلہ دے دیا۔ جب یہودی باہر نکلا۔ اس نے کلمہ پڑھ کے اسلام قبول کیا اور کہا کہ میں اسلام کا نظام عدل دیکھنا چاہتا تھا۔ زرہ مولا علی آپ ہی کی ہے۔ لے لیں۔ فرمایا: نہیں۔ جو عدالت نے فیصلہ کر دیا۔ پلٹ کے واپس نہیں لوں گا۔ ۔۔۔میں اس ملک میں ان اصولوں پر مبنی نظام سیاست و حکومت دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ یہ فرق ہے ۔ فقط اتنا فرق ہے۔ اگر ہمارا نظام سیاست اور نظام انتخابات ان اصولوں پر قائم ہو جائے تو یہ سیاست ریاست کو بچا سکتی ہے ۔ ۔۔۔مگر جس لوٹ مار، کرپشن، اجارہ داری ، دھن دھونس اور دھاندلی کا نام ہم نے سیاست رکھ رکھا ہے۔ اس سیاست سے ریاست کو نہیں بچایا جا سکتا۔ ریاست کمزوری کے آخری مقام تک جا پہنچی ہے۔
اور میں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں۔۔۔اور پوچھتا ہوں کہ :
کیا سیاست اس عمل کا نام ہے؟کہ اس ملک کے کروڑوں غریب بھوک، غربت اور افلاس کی آگ میں جلیں ۔ اور ان کے خاتمے کا کوئی ایجنڈا پانچ پانچ سال تک سیاسی حکومتیں پارلیمنٹ میں بیٹھیں مگر ان کی غربت اور افلاس کے خاتمے کا ایجنڈا تیار نہ کرسکیں۔کیا یہ سیاست ہے ؟
کیا یہ سیاست ہے کہ خود تو سیاسی لیڈر سینکڑوں کنال پر مشتمل گھروں اور محلات میں رہیں اور اربوں کھربوں روپے ان کے ڈیلی محلات کے خرچےہوں اور کروڑوں غریبوں کو اس ملک میں کھانے کے لیے لقمہ نہ ملے۔، تن ڈھانپنے کے لیے لباس نہ ملے، اور سر چھپانے کے لیے گھر نہ ملے۔ کیا اس کا نام سیاست ہے؟ میں اس کو مسترد کرتا ہوں۔ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں کہ جس میں ملک پاکستان کی ترقی و استحکام کا کوئی منصوبہ ہم نے نہیں دیکھا۔ ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں جس میں ملک کی سالمیت آزادی اور خود مختاری کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ۵ سال تک پارلیمنٹ میں کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں ۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جو پاکستان کا حق ، شاہ رگ کراچی جو امن کا گہوارہ تھا ۔ جہاں ہر روز لاشیں گر رہی ہیں۔ مگر اس شہر کو امن کوئی نہ دے سکے۔ ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم ا س سیاست کو نہیں مانتے جس میں قتل و غارت گری ہو، جس میں اغوا ہو ڈکیتی ہو دہشت گردی ہو اورلوگ خود تاوان دے کر اغوا کاروں سے چھوٹ کر آئیں۔ اور انہیں ملک میں کوئی تحفظ دینے والا نہ ہو۔ ہم اس سیاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جس میں کروڑوں لوگوں کو پانی ، بجلی، اور سوئی گیس کی فراہمی کا بندوبست نہ کیا جا سکے۔ ہم ا س سیاست کو نہیں مانتے۔۔۔ جس میں بھوک کے مارے ہوئے لوگوں کو خود کشیوں اور تن سوزیوں سے روکنے کی گنجاءش نہ ہو۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جس میں لوگ اپنی بیٹیوں کی عزت بیچ کر کھانا حرام کا کھا رہے ہوں۔ یہ سیاست وہ کھیل ہے جو اٹھارہ کروڑ عوام کی غربت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔
ہم کونسی سیاست چاہتے ہیں
اور میں بھی ایک سیاست کو بچانا چاہتا ہوں اس سیاست کو جو ریاست کو بچاتی ہے۔ اور وہ سیاست قائد اعظم کی سیاست ہے۔جو اتحاد کی سیاست ہے ، جو یقین کی سیاست ہے ، جو تنظیم کی سیاست ہے، جو محبت کی سیاست ہے، جو اخوت کی سیاست ہے، جو وحدت کی سیاست ہے
میں اس سیاست کو بچانا چاہتا ہوں۔ جو ملک سے نفرتوں کو ختم کر دے۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بجائے ملک کو ایک اکائی بنا کر رکھ دے۔ ہمیں ضرورت ہے اس وقت کہ ہم اصل مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
میرا ایجنڈا پاکستان سے انتخابات کو ختم کروانا نہیں ۔ کسی کو یہ مغالطہ ہے تو وہ خدا کے لیے نکال دے ۔ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔۔۔۔میرا ایجنڈا انتخابات ختم کروانا نہیں انتخابات کو درست کروانا ہے۔ نظام انتخاب میں اصلاح کروانا ہے۔ تاکہ وہ انتخابات اس ملک کو صحیح قیادت دے سکیں۔ وہ انتخابات لانا ہے جس میں پانچ پانچ کروڑ کے ساتھ پارٹیاں ٹکٹ نہ بیچ سکیں میں ان پارٹیوں کے ہاتھ کاٹنا چاہتا ہوں جو پانچ پانچ کروڑ کے ساتھ ٹکٹ دیں ۔
میں دیکھوں گا! جب عوام کھڑے ہوں گے۔ تو کون سی پارٹی پانچ دس کروڑ کے ساتھ نمائندوں کو ٹکٹ بیچ کر دیتی ہے؟ یہ قوم ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالے گی۔
اس نظام سیاست میں اور نظام انتخاب میں آئینیت اور دستوریت کا فقدان ہو چکا ہے۔ اس کو بحال کرانا چاہتا ہوں۔ کانسٹی ٹیوشنیلٹی نہیں رہی۔ لاء کی انفورسمنٹ نہیں رہی۔ ہم اس کو بحال کرانا چاہتے ہیں۔ اس ملک سے رول آف لاء ختم ہو گیا ہے ہم اس کو بحال کرانا چاہتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں کا نفاذ ختم ہو گیا ہے ہم اس کی بحالی آئین کے مطابق کرانا چاہتے ہیں۔ اس ملک کا طرز حکمرانی کرپشن پر مبنی ہو گیا ہے گورنمنٹ مایوس کن حد تک معطل ہے۔ ہم اسے گڈ گورنمنٹس میں بدلنا چاہتے ہیں۔ ہماری معیشت پگھل رہی ہے۔ سٹیٹ آف اکنامک میلٹ ڈاون تک چلی گئی ہے۔ ہم معیشت کو سنبھالا دینا چاہتے ہیں ہر سطح سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا اس ملک میں کوئی تھانیدار اور کانسٹیبل اس ملک کے غریب سے پیسے مانگے۔ میں پولیس کی تنخواہوں کو دو گنا اور چار گنا بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہتا ہوں کہ غریب کا کام رشوت کے بغیر ہوا کرے۔ میں اس ملک کے لاء اینڈ آرڈر کو بحال دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہم نہ صرف خود غیرمحفوظ ہو گئے بلکہ ہم دہشت گردی کے ایکسپوٹر بن گئے۔ دنیا کو ہم سے تھریٹ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ انڈونیشیا کے پالی بمبر ، پالی بمبر وہ بھی پاکستان سے پکڑا جاتا ہے ۔ انتہاء ہے۔ چار دن پہلے پشاور ایئر بیس پر حملہ کرنے والے غیر ملکی نظر آتے ہیں ٹیٹوز بنے ہوئے ہیں۔ اور آپ کیا سمجھتے ہیں جو کھیل کراچی میں کھیلا جا رہا ہے اس میں غیر ملکی ہاتھ نہیں ہیں؟ جو اس ملک کو توڑنا چاہتے ہیں۔
میرا سوال ہے اس ملک کی سیاسی جماعتوں اور عدالتوں سے اور افواج پاکستان سے اورپارلیمنٹ سے اور میڈیا سے اور اٹھارہ کروڑ عوام سے ۔
اگر حکومتیں منتخب ہو کراپنے ملک کی عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ نہیں دے سکتیں، اگر اپنے ملک کے شہروں کاامن بحال نہیں کر سکتیں، لوگوں کو اغوا ہونے سے نہیں بچا سکتیں۔ انہیں روٹی ، کپڑا ، مکان، علاج، صحت ، تعلیم، روزگار ، مہیا نہیں۔ لاء اینڈ آرڈر مینٹین نہیں کر سکتیں۔ تو یہ حکومتیں اور یہ نظام غیر آئینی بھی ہے، غیر قانونی بھی ہے، غیر اخلاقی بھی ہے۔ ہم ایسے نظام کو ہرگز قبول کرنے کو تیا رنہیں۔
خیبر پختون خواہ وہ خطہ جس کا امن دنیا میں مثالی امن تھا اس کے بالائی سرحدی علاقوں پر حکومت پاکستان کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ کیا جواز ہے آپ کا ، کونسٹی ٹیوشنل اتھارٹی ہے کہ کہو کہ ہماری حکومت آئینی حکومت ہے ۔ بلوچستان کے حالات کو سنبھالنے اور سنوارنے میں حکومت ناکام ہو چکی ہے۔
بیرونی عناصر ۔۔۔۔خود کہہ رہے ہیں ۔ ۔۔ خود کہہ رہے ہیں کہ
بیرونی عناصر خون کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آپ کے اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
اور ایسا بیرونی عناصر کیوں نہیں آئیں گے۔ جب ریاست اندر سے کمزور ہو جائے تو باہر سے دشمن تو مداخلت کرے گا ہی نا۔ دشمن ہماری حفاظت تونہیں کرے گا۔
ہمیں فارن انٹر فیئرنس کا شکوہ کیا ہے؟ ہم کمزور ہیں تو دشمن آئے گا اگر ہم اندر سے طاقت ور ہیں تو کسی کو مداخلت کی جرأت نہیں۔ ایک وقت تھا پوری امت مسلمہ کی واحد نیوکلیر پاور ہم ہیں۔ اس ناتے ہم دنیائے اسلام کا فخر تھے۔پرائڈ آف دا مسلم ورڈ تھے۔ مگر اب اپنوں پرایوں سب کے ہاں ہم Laughing Stock بن گئے ہیں، ہر جگہ ہم اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں۔ دنیا ہمیں کرپٹ اور فیلنگ سٹیٹ کے طور پر دیکھتی ہے۔ ہماری طرز حکمرانی ناکام ہے ، ہماری سیاست ناکام، معیشت ناکام، ملکی استحکام کمزور، تعلیم پسماندہ ، صحت ناکام، سالمیت خطرے میں ، آزادی خطرے میں ، خود مختاری خطرے میں ، عوام کی اخلاقی سماجی حالت تباہ کن ، نظام کے اندر شفافیت، ٹرانسپیرنسی ختم، میرٹ کا نظام ختم ، کسی غریب کے بچے کو ایم بی اے کر لے یا انجینئرنگ اسے رشوت کے بغیر جاب نہیں ملتا۔ انسانی حقوق ختم، امن و سلامتی ختم، لوگوں کی بنیادی ضروریات ختم، جان مال کی حفاظت ختم، مستقبل ہمارا ختم، علم و ہنر مندی کا مستقبل ختم۔۔۔۔۔مجھے بتائیے ایک شعبہ گن کر جس کا پہلو، قابل تعریف ہو حوصلہ افزا ہو ، روبہ ترقی ہو جس میں روشنی کی کرن نظر آئے، عوام مطمئن ہو ہمارا اپنا ضمیر مطمئن ہو۔ ہم ٹوٹلی ، Collapse ہو رہے ہیں۔ سسٹمCollapse ہو چکا ہے۔
ہماری سیاست نام ہے صرف جو ڑ توڑ کا ، گالی گلوچ کا ، اگلا الیکشن جیتنے کا ، سازشی منصوبہ بندی کا، اس کے سوا ہماری کوئی ترجیح قومی سطح پر نہیں رہی۔ اگر سیاسی لیڈر ، حکمران ان کاموں میں مصروف ہیں اور اٹھارہ کروڑ عوام کی مدد کرنے اور ان کو حق پہنچانے کی فرصت ان کے پاس نہیں ۔
تو سن لو۔ میں اب اختتام پر اعلان کرنے والا ہوں۔ کہ اٹھارہ کروڑ عوام اپنا حق لینے کے لیے خود اٹھیں گے ۔۔۔۔۔ خوداٹھیں گے ۔۔۔۔
اور میرا پیغام ہے زندگی بھیک سے نہیں ملتی
زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے
اور لوگو!
اٹھو!! میری دنیا کے غریبوں کےجگا دو
کاخ امراء کے درودیوا ر ہلا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
کبھی کسی نے فکر کیا۔۔۔ جاؤ ! کراچی کی چھوٹی آبادیوں میں ایک ایک چھوٹے گھر میں بتائیے کتنے درجنوں لوگ رہ رہے ہیں ۔جانوروں کی طرح ۔ سندھ میں جا کے دیکھیے! بلوچستان میں جا کے دیکھیے، پنجاب میں ، لاہور کی بڑی شاہراہیں نہ دیکھیں، پنجاب کے اندر جائیے۔ جنوبی پنجاب میں جائیے، پختونخواہ میں جائیے۔۔۔ غربت کی آگ میں لوگ جل رہے ہیں ، عزتیں بیچ رہے ہیں، ایمان بیچ رہے ہیں، زمین بیچ رہے ہیں، ووٹ بیچ رہے ہیں۔ اس حالت میں ہونے والے انتخابات آپ سمجھتے ہیں کہ آزادی رائےہے۔ یہ جمہوریت ہے ۔ یہ انتخاب ہے۔ ہمیں اس کا جائزہ لینا ہےکہ غریب مزدور کو تو مال دار کھا گئے۔ ان کو نظام سے نکال دیا گیا ہے۔وہ خود کو کیسے بچائیں؟ کسی نے کیا کہاتھا:
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
پانچ سال لوٹ مار کا بازا ر گرم رکھا۔ ادارے ٹکراتے ہیں، لاشیں گرتی ہیں، خون بہتا ہے، لوگ جلتے مرتے ہیں کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ۔ جب پانچ سال ختم ہونے کو آتے ہیں تو پھر ایک نیا سیاست کا بازار گرم کرنے کا شور مچتا ہے کہ نہیں اس ٹائم کے اندر پھر الیکشن ہونے چاہیں۔
ایکشن ری پلے نہیں ہوگا۔ ۔۔۔۔استحصال، کرپشن اور دھاندلی کا الیکشن نہیں ہوگا۔ الیکشن ہوگا۔۔۔۔ ضرور ہوگا ۔۔۔مگر عدل و انصاف کا، آزادی رائےکا، استحصال سے پاک کرنے کے بعد۔
اب یہ جو بات میں نے آ پ سے کہی ۔ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ نظام ڈیلیور نہیں کر رہا، کرپشن تیزی سے بڑھ رہی ہے، شفافیت ختم ہے، خود احتسابی نظام میں موجود نہیں، آئین کی پاسداری نہیں، دستوریت کا وجود نہیں ، حکومت کی کارکردگی گرتی جارہی ہےاور پاکستان کرپشن میں 139 نمبر پر چلا گیا ہے اور صرف چار سال کے اندر ۲۲ ڈگری پاکستان کی ریاستی صلاحیت ورلڈ اکنامک فورم کے انڈیکس کے مطابق گر گئی ہے۔۔۔۔۔ ۲۲ درجے گر گئی ہے۔ ۔۔پاکستان کی بقا ءخطرے میں ہے۔ اگر یہ صورت حال رہی۔۔۔۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ فوج مداخلت نہ کرے، ہم بھی فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں۔۔۔ نہیں چاہتا۔۔ ۔۔ فوج کا یہ کام نہیں وہ سرحدوں کی حفاظت کرے۔ مگر فوج کی مداخلت کو روکنا ہے تو ہمیں اپنی حکومت آئین کے مطابق چلانی ہوگی۔اگر فوج کی مداخلت کو روکنا ہے تو ہمیں رول آف لاء لانا ہوگا۔ ہمیں پارلیمنٹ کو صحیح موثر بنانا ہوگا۔ انتخابی نظام کو صاف و شفاف بنانا ہوگا۔حکومت کی کارکردگی کو عمدہ کرنا ہوگا۔جمہوریت کا صحیح کلچر لانا ہوگا۔ عدل و انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا۔ اگر نظام از خود صحیح چلے تو ملک میں فوج کبھی مداخلت کی جرأت نہیں کر سکتی ۔اور آپ کا نظام ٹوٹلی Collapse ہو چکا ہو تو پھر آپ مداخلت کو روک نہیں سکتے۔
خطاب کا فیصلہ کُن حصہ
اس چیز کو سامنے رکھ کر ۔ اب میں آئین کی طرف آرہاہوں اور بڑا اہم حصہ میری گفتگو کا اور فیصلہ کن حصہ ہے:
میں نے کہا :جو پروپوزل اور ایجنڈا اور پلان میں دینےجا رہا ہوں وہ عین آئین پاکستان کے مطابق ہے اور وہ پاکستان کے آئین سے ایک شق بھی اس سے الگ نہیں۔ اب میں پاکستان کے آئین کو ،۔۔۔ پاکستان کا آئین آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ بتانا چاہتا ہوں۔ ۔۔۔انتخابات کی بات ہوتی ہے۔ مگر بتانا چاہتا ہوں کہ آئین پاکستان کس طرح کے انتخابات چاہتا ہے۔ میرا آج کا پورا ایجنڈا پاکستان کے آئین کے مطابق ہے۔ میں خود بھی پابند ہوں ۔ اور آئین پاکستان میرے ہاتھ میں ہے۔
اور اب یہ فیصلہ ہو گا کہ ا س آئین کے خلاف کسی کو چلنے نہیں دیں گے، اب ملک کی قیادت کو اس آئین کے تابع کریں گے، ملک کے نظام انتخاب کو اس آئین کے تابع کریں گے، اس آئین کو حکمران بنائیں گے اور اس آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اٹھا کر سمندر میں ڈبو کر رکھ دیں گے۔
سن لیں آئین کیا چاہتاہے :الیکشن کے لیے آئین کا آرٹیکل 3 تھری: (یاد رکھیں میں آپ کو حافظ بنانا چاہتا ہوں آئین کا) آئین کا آرٹیکل تھری وہ کہتا ہے :
The state shall ensure the elimination of all forms of exploitation
یہ آئین کا، دستور کا آرٹیکل تھری ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے۔۔۔ آپ الیکشن میں جا رہے ہیں اور آئین کہتا ہے کہ ہر قسم کا استحصال آئین کا فرض ہے کہ وہ اسے ختم کرے۔ میں عدالت عظمی سے پوچھتا ہوں، میں افواج پاکستان سے پوچھتا ہوں، میں پاکستان کےچیف الیکشن کمشنر سے پوچھتا ہوں، میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ سے پوچھتا ہوں اور میں عوام پاکستان سے پوچھتا ہوں کہ نئے انتخابات میں جا رہے ہیں، کیا انتخابی عمل میں جو استحصال ہوتا ہے:غریبوں کی غربت کا، تھانے اور کچہری کا، دھن دھونس دھاندلی کا، برادریوں کا سودا ہوتا ہے ۔ یہ جو سارےاستحصال کے طریقے ہیں۔ جھوٹے مقدمے، غنڈہ گردی ، دہشت گردی، جیل، یہ سارے استحصال ہیں۔ کیا آپ نے الیکشن سے پہلے ان کے ختم کرنے کی ضمانت حاصل کر لی ہے؟ بولیے ہے!! ایک طرف نہتا غریب ہاری، مزارع دوسری طرف اس کا جاگیردار، وہ الیکشن استحصال کا الیکشن ہو گا۔ یا آزادی رائے کا۔ آئین کہتا ہے کہ
Every form of exploitation should be eliminated. This is the responsibility of state
میں آئین کے آرٹیکل تھری پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتا ہوں۔
آگے چلیے!! آئین کا آرٹیکل ۹ وہ سیکورٹی آف پرسن دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے: کسی شخص کی نہ جان کو خطرہ ہو گا نہ آزادی کو ہوگا۔ اب مجھے بتائیے !! اس وقت یہ نظام آپ نے بنا لیا ہے کہ الیکشن میں لوگ جائیں اور کمزور مخالف امیدوار اور ان کے سپورٹرز کی جان اور آزادی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا، ہے یہ نظام؟ ان پر مقدمے نہیں ہوں گے ۔الیکشن کمشنر کے پاس ایسی اتھارٹی نہیں ہے لاءمیکنگ کی۔ ۔۔لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو آزاد بنا دیا۔ ایک چیف الیکشن کمشنز دیانت دار شخص مقرر کیا۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے بڑا قابل سرجن متعین کر دیں اور آپریشن تھیٹر میں اس کے پاس آپریشن کا سرے سے سامان ہی کوئی نہ ہو وہ آپریشن کیا کرے گا۔ ہسپتال کا ایم ایس لگا دیں اور عملے میں ردو بدل کا اس کے پاس قانونی اختیار بھی نہ ہو۔ قانون بنانے کا اختیار پارلیمنٹ میں ہے اور چیف الیکشن کمیشن ایمان دار بندہ تنہا بٹھا دیا ہے ۔ بے بس، بے یارومددگار۔ ان کے پاس اپنا عملہ ہی کوئی نہیں۔ وہ کس طرح لوگوں کی جان و مال اور آزادی رائے کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے گا۔ جہاں بھتے بھی چل رہےہیں، تاوان بھی چل رہے ہیں، مقدمے بھی چل رہے ہیں۔ پھر آئین کا آرٹیکل 37 کہتا ہے کہ
Promotion of social justice and eradication of social evils.The State shall- do this
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوںکو معاشرتی انصاف فراہم کرے اور ہر قسم کی جو برائیاں ہیں، جو آزادی رائے پر اثر انداز ہوسکتی ہیں، جو الیکشن میں لوگوں کے فیصلے کو متاثر کر سکتی ہیں۔ ان ساری برائیوں کو ختم کیا جائے ۔ میں سوال کرتا ہوں قومی اداروں سے اور سیاسی جماعتوں سے کیا ان برائیوں کے خاتمے کی سو فیصد ضمانت مہیا کر لی گئی ہے؟ بولیے کیا جواب ہے ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔جب یہ مہیا نہیں کی گئی تو وہ الیکشن کس ایک عبارت سے آئین پاکستان کے مطابق ہوئے۔ ان میں سے ایک شق پر عمل نہیں ہو رہا تو کیا یہ حکومت آئینی ہے۔ صرف ۹۰ دن کے اندر الیکشن ہونا چاہیے۔ آئین کا صرف ایک آرٹیکل یاد ہے سب کو۔۔۔۔ ایک آرٹیکل یاد ہے ۔۔۔۔ اور پچاس آرٹیکل آئین کے اتنے ہی محترم ہیں وہ کسی کو یاد نہیں۔ ان پر عمل درآمد کون کرائے گا؟
سنیے یہی آئین کا آرٹیکل ۳۸ کہتا ہے:
The state shall secure the well-being of the people
کہ لوگوں کی زندگیوں کے معاشی حالات کو بہتر بنائے تاکہ طاقت ور لوگ ان کا استحصال نہ کر سکیں اور وہ بغیر خوف اور ڈر کے اپنی رائے کو آزادانہ استعمال کر سکیں۔کیا یہ ویل بینگ لوگوں کو مہیا کر دی گئی ہے؟
اے اٹھارہ کروڑ عوام! آپ کا بھی پاکستان ہے، میرے معزز میڈیا کے بھائیو! آپ کا بھی پاکستان ہے ، پولیٹیکل پارٹیز کے لیڈرو اور کارکنو! آپ کا بھی پاکستان ہے، ملک کو عدل فراہم کرنے والے ادارو ! آپ کا بھی یہ ملک پاکستان ہے اور پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والو! آپ کا بھی پاکستان ہے ۔میرا سوال سب سے ہے کہ کیا آئین کی آرٹیکل ۳۸ کے تحت یہ ضمانت مہیا کر دی گئی ہے کہ غریب و امیر کے فرق کو اتنا مٹا دیا جائے گا کہ کوئی امیر اور طاقت ور غریب اور کمزور پر اثر انداز نہ ہو سکے اس کی رائے میں ؟ اور آرٹیکل کہتا ہے کہ یہ فرق :
creed or race, by raising their standard of living, by preventing the concentration of wealth and means of production and distribution in the hands of a few to the detriment of general interest and by ensuring equitable adjustment of rights between employers and employees, and landlords and tenants;
زمیندار اور کسانوں کے درمیان توازن قائم کیا جائے ۔ یہ آئین کہتا ہے ۔ مل آنر، سرمایہ دار اور مزدور کی آمدن کے درمیان توازن قائم کیا جائے، اس دھرتی پہ خدا کا نام لے کر بتاؤ! توازن نظر آرہا ہے آپ کو؟ مل اونر کھڑا ہو تو مزدور آزادی رائے سے ووٹ دے سکے، جاگیردار کا بیٹا کھڑا ہو تو ہاری اور کسان آزادی رائے سے ووٹ دے گا؟ مجھے بولیے! کیا اس آئین پر اگر ایک شق پر بھی عمل نہ ہو اور رٹ لگائی جائے ۔ صرف ۹۰ دن تک ۔ تو یہ الیکشن آئینی الیکشن نہیں ہوگا۔
آگے آرٹیکل ۳۸ کلاز (ڈی) وہ یہ کہتا ہے: کہ ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ لوگوں پر دباؤ نہ پڑے ، استحصال نہ ہو، بلیک میل نہ ہوں، انفلونس نہ ہو، ان کی آزادی رائے پر طاقت ور لوگ دباؤ نہ ڈالیں۔
provide basic necessities of life, such as food, clothing. housing, education and medical relief, for all such citizens, irrespective of sex, caste, creed or race, as are permanently or temporarily unable to earn their livelihood on account of infirmity, sickness or unemployment;
کہ ہر شہری کو خوراک روٹی دی جائے، ہر شہری کو میسر ہے؟آئین کہتا ہے آرٹیکل ۳۸: ہر شہری کو لباس مہیا ہو، ہر شہری کو گھر مہیاہو، ہر شہری کے پاس تعلیم ہو اور ہر شہری کے پاس بنیادی علاج کی سہولت ہو اور پھر یہاں تک آئین کہتا ہے کہ اگر وہ بے روزگار ہے، بیمار ہے یا کمزور ، اسے اتنا بہتر کیا جائے تاکہ اس کے نتیجہ میں کوئی اس پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ آئین تو یہ شرط عائد کرتا ہے اگر یہ شرائط پوری کی جائیں تو انتخابات آئینی ہوں گے۔ اگر یہ شرائط پوری نہ کی جائیں تو ہونے والا الیکشن کبھی آئینی نہیں ہوگا اور یہ قوم غیر آئینی الیکشن کو مسترد کر دے گی۔ اور پھر آئین آرٹیکل ۳۸ کلاز (ای ) کہتا ہے:
reduce disparity in the income and earnings of individuals, including persons in the various classes of the service of Pakistan
لوگوں کی آمدنی اور ذرائع اور وسائل میں غیر معمولی فرق کو ختم کیا جائے۔ یہ شرائط ہیں آئین پاکستان کی ۔ کیوں ختم کیا جائے۔ اس لیے کہ اگر بے پناہ غربت ہوگی اور بے پناہ جہالت ہو گی۔ اس صورت میں لوگ آزادانہ ووٹ کا استعمال نہیں کر سکیں گے۔ ان پر اثر انداز ہوں گے۔ طاقت ور لوگ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے ! (ٹھیک ہے) چند مہینوں میں، تھوڑے عرصے میں یہ سارے حالات تو نہیں بدل سکتے۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ تو اس کا جواب ہے۔ لوگ کمزور ہوں۔ خوداگر اپنے گھر کی حفاظت نہ کرسکیں ۔ اگر خود حفاظت نہ کر سکیں ۔ تو کم سے کم لاء اینڈ فورسز ایجنسیز ان کو ڈاکوؤں اور چوروں سے بچا سکتی ہیں۔ اگر لوگ ۔ خود اتنے طاقت ور نہیں بنے ان پاورنہیں تو الیکشن سے پہلے یہ نظام وضع کیا جائے کہ کوئی جاگیردار اور کوئی زمیندار اپنے مزارع کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر اپنے حق میں ووٹ نہ ڈلوا سکے، کوئی سرمایہ دار اور کوئی غنڈہ ، کوئی طاقت ور غریب ، لوگوں کو اور برادریوں کو اپنے حق میں ووٹ نہ ڈلوا سکے۔ پولیس کے ذریعے، فوج کے ذریعے ، لاء اینڈ فورسز ایجنسیز کے ذریعے ۔ جب تک لوگوں کو کامل تحفظ اور ان کی آزادی رائے کے تحفظ کی ضمانت نہ ہو وہ الیکشن غیر آئینی الیکشن ہوگا۔
اس کے لیے Legal Arrangements کرنے ہوں گے اور وہ چند مہینوں کی بات ہے۔ مگر غربت ، تعلیم، بے روزگاری جیسےمسائل سال لیتے ہیں۔ وہ حل سالوں بسال لیتا ہے۔ مگر انہیں تحفظ حکومت کی طرف سے فراہم کرنا تاکہ انہیں تھانا اور کچہری پریشان نہ کرے، انہیں تحصیل دار اور پٹواری پریشان نہ کرے، دھن دھونس دھاندلی پریشان نہ کرے۔ پولیس اور فوج ان کو کامل تحفظ دے ، غیر جانبدارانہ ماحول کی ضمانت ہو، اس کے عمل کے لیے چند مہینے کافی ہیں۔ مگر اس کا کوئی اہتمام نہ ہوا ہے ۔۔۔نہ ہوگا۔ دو پارٹیز صرف اکیلے بیٹھ کر مک مکا کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ آپس میں دھاندلی نہ کر سکیں۔ وہ اپنی دھاندلی کو بچا رہی ہیں۔ مگر اٹھارہ کروڑ عوام کے ساتھ جو دھاندلی ہو رہی ہے اس کو کون بچائے گا۔
پھر پاکستان کا آئین اس کا آرٹیکل ۲۱۸ الیکشن کمیشن کے لیے ۔آرٹیکل ۲۱۸ کلاز (تھری)وہ کہتے ہیں:
It shall be the duty of the Election Commission to organize and conduct the election and to make such arrangements as are necessary to ensure that the election is conducted honestly, justly, fairly and in accordance with law, and that corrupt practices are guarded against.
پانچ شرطیں لگائی ہیں۔ آئین نے الیکشن کے لیے کہ الیکشن کلیتا اس طریقے سے ہو کہ ہر لحاظ سے وہ ایماندارانہ ہو۔ ایمان سے کہیے ہمارے الیکشن ایماندارانہ ہوتے ہیں؟
دوسری شرط:وہ الیکشن سو فیصد منصفانہ ہو، پھر آئین کہتا ہے: اس میں کوئی ناجائز طریقہ استعمال نہ کیا جائے اور آئین کہتا ہے: ساری Corrupt Practices اورطریقے Totally ختم کر دیئے جائیں اور کوئی کرپشن کا امکان باقی نہ رہے ۔ یہ ساری شرائط اگر پوری ہوں تو تب الیکشن آئین پاکستان کے مطابق ہوں گے۔ اور اب تک ان پانچوں شرائط میں سے کسی ایک شرط کے پورا کرنے کی ضمانت فراہم نہیں کی گئی۔ آئین چیخ رہا ہے مگر قانون بنانے والے ۔۔ان کے ہاتھ میں ان کے مفادات ہیں وہ اس طرح کا الیکشن نہیں کروانا چاہتے۔ وہ صرف دھن دھونس دھاندلی سے پرچیاں ڈلوانا چاہتے ہیں، وہ ووٹ خریدنا چاہتے ہیں اور دوبارہ الیکٹ ہو کرجلدی اسمبلیوں میں پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ لوٹ مار کا بازار جلدی دوبارہ گرم کیا جا سکے۔۔۔ہم لوٹ مار کا بازار دوبارہ گرم نہیں ہونے دیں گے۔ اور وہ الیکشن قبول کریں گے۔ جو پاکستان کے آئین کےآرٹیکل ۲۱۸ کے کلاز ۳ کے تحت ہوں۔ میرا مطالبہ صرف آئین پاکستان ہے ہم آئین پر عمل درآمد چاہتےہیں اور جو آئین کے خلاف الیکشن کروانا چاہے گا۔ اٹھارہ کرو ڑ عوام اس کے راستے میں رکاوٹ بن جائیں گے۔
بولو! بنو گے یا نہیں؟۔۔۔اب آگے آئیے ! اس ملک کی طرز حکمرانی ہم ۹۰ دن کی جب بات کرتے ہیں تو آئین یاد آجاتا ہے۔ ۹۰ دن کے اندر الیکشن ہونے چاہیں۔ یہاں آئین یاد آجاتا ہے ۔ اور یہ سارا آئین جو پڑھ کے سنا رہا ہوں۔ یہ شقیں معتبر اور محترم نہیں جو شرائط عائد کی گئی ہیں کہ یہ نہ ہوں تو الیکشن آئینی نہیں ہوگا۔۔۔
عدالتی فیصلہ جات
اب عدلیہ کی طرف آئیے!
سپریم کورٹ نے بلوچستان میں لاء اینڈ آرڈر کیس میں فیصلہ دیا (صرف میں لفظ بول رہا ہوں ، پڑھ رہا ہوں) انہوں نے کہا کہ چوں کہ بلوچستان گورنمنٹ لوگوں کی جان و مال کی حفاظٹ کرنے میں ناکام ہو گئی لہذا :
It had lost its Constitutional authority to government the province
لہذا اس کے پاس آئینی جواز نہیں رہاکہ وہ صوبے پر حکومت کرے۔ یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جج منٹ ہے میں سوال کرتا ہوں کہ اگر ایک صوبے کی گورنمنٹ لوگوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی۔ تو ان کے پاس آئینی جواز نہیں رہا تو اگر سارے ملک کی حکومت چاروں صوبوں میں لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی فراہمی میں ناکام ہو گئی توان کا جواز آئینی طور پہ کیسے باقی رہ گیا؟
اس کے بعد کراچی کرائم کیسز میں بھی سپریم کورٹ نے کہا کہ سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ فیڈرل گورنمنٹ بھی ناکام ہوگئی۔ وفاقی حکومت بھی ناکام ہو گئی، لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں۔ یہ سپریم کورٹ نے کہا ۔ جب سپریم کورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ وفاقی حکومت بھی ناکام ہوگئی۔ اس کی Constitutional Authority نہیں رہی توکیا جواز ہے انہیں آئینی طاقت دینے کا؟
اور پھر اس طرح اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ پاکستان کے جو پریذیڈنٹ ہوں گےوہ کسی جماعت کے ساتھ سیاسی ہمدردی نہیں رکھیں گے ( صدر پاکستان) تو پھر وہ اپنے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سپریم کورٹ نے یہ Judgment آئین کی وضاحت میں کی ہے ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اگر ملکی ادارے ، صدر پاکستان یا آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی اور ملک کے ادارے اگر وہ Politically کسی کو سپورٹ کریں اور کسی کے ساتھ تعاون کریں تو پھر یہ الیکشن Honestہونسٹ ،Fear فیئر اورFree فری نہیں ہوسکتے۔ اور یہ Negate نگیٹ ہو جائے گا Constitutional Mandate آئین کی نفی ہوگی ۔
سپریم کورٹ کے یہ سارے فیصلے۔ میں یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا ان پر عمل درآمد ہوا ہے؟بولیے !! ہاتھ اٹھا کر بولیے! ان پر عمل درآمد ہوا ہے؟ نہیں ہوا۔۔۔۔ جب عمل درآمد نہیں ہوا تو پھر کیا اس ملک میں آئین کی حکمرانی ہے، کیا نظام حکومت آئین کے مطابق چل رہا ہے؟
حکومت کے اپنے ادارے ہیں جوNAB نیب ہے۔ ( حکومت کا اپنا Appointکیا ہوا افسر ) انہوں نے Statement دیا کہ ہر روز پاکستان میں دس ارب سے بارہ ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اور پانچ ہزار ارب روپے کی کرپشن سالانہ ہو رہی ہے۔ یہ (پاکستان کا) حکومت پاکستان کا اپنا مقرر کردہ چیئرمین نیب کا (اکاونٹبلٹی بیورو کا) ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری۔ پانچ ہزار ارب سالانہ کرپشن ہو رہی ہے اور یومیہ دس سے بارہ ارب کرپشن ہورہی ہے پاکستان میں۔یہ سب ایم این ایز نے انہتر ، ستر فیصد ایم این ایز نے ٹیکس نہیں دیا اور قانون یہ ہے کہ انکم اگر ۴۲ ہزاریا اس سے زیادہ ہو ، پانچ لاکھ سالانہ تو انکم ٹیکس دینا لازم ہوتا ہے اور انکم ٹیکس کے جو Laws لاز ہیں۔ Income Tax Act جو Law بتا رہا ہے ۔ Updated to 2009 کہ جو لوگ اپنے انکم چھپائیں بیان نہ کریں اس کو ۲ سال تک کی سزائے قید ہے۔انکم ٹیکس 2011 تک اپ ڈیٹڈ اس کی کلاز ۱۹۲(اے) کہ اس کی سالانہ انکم ۵ لاکھ یا اس سے زیادہ یعنی ماہانہ ۴۲ ہزار اور وہ چھپا لے۔ اس کی ۲ سال تک سزائے قید ہے یا جرمانہ یا دونوں ۔ اب میں سوا ل کرتا ہوں۔ مجھے جواب دیجیے؟ یہ جو Law Maker ہیں۔ یہ Law Makers اور Breakers ۔ یہ قانون بنانے والے خود قانون توڑ رہے ہیں۔ جب یہ ٹیکس جمع نہیں کرائیں گے تو انہیں حق پہنچتا ہے پاکستان کی پارلیمنٹ کا ممبر ہوکر بیٹھنے کا ؟ کیا انہیں حق پہنچتا ہے؟۔۔۔۔۔ ہاتھ اٹھا کر جواب دیں۔ کیا یہ کھلی کرپشن نہیں ہے کیا یہ کھلا جرم نہیں ہے؟ اور سنیے! پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے: آرٹیکل ۶۳ کلاس (ون او)کہتا ہے کہ وہ شخص ایم این اے یا سینٹر بننے کے لیے اہل نہیں ہے ، وہ شخص اہل نہیں ڈس کوالیفائی ہو جائے گا۔کون شخص؟ جو اپنے بجلی کے بل پے نہ کرے، گیس کے بل پے نہ کرے، پانی کے بل پے نہ کرے، یوٹیلٹی کے بل پے نہ کرے۔ دس ہزار روپے سے اگر بڑھ جائیں۔ چھ ماہ تک اگر بل پے نہ کیے ہوں۔۔۔ پانچ دس ہزار۔۔۔ وہ شخص اہل نہیں ہے الیکشن لڑنے کا۔ اب میں قومی اداروں سے سوال کرتا ہوں، اب میں پاکستان کی عدالت عظمی سے سوال کرتا ہوں، اب میں پاکستان کی سرحدوں کے محافظوں سے سوال کرتا ہوں، اب میں پاکستان کے (میڈیا سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بھائیوں سے جن کی آزادی خدا کی قسم ملک کو بچائے ہوئے ہے) میڈیا سے سوال کرتا ہوں۔ اٹھارہ کروڑ عوام سے سوال کرتا ہوں۔
کہ آئین تو یہ کہے کہ بجلی، پانی، گیس کے بل چھ ماہ تک ادا نہ کیا ہو پیپر فائل کرنے سے قبل، وہ ایم این اے کا الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے اور یہاں تم سارے کے سارے پاکستان کا ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔ کہاں اہل ہیں یہ سارے الیکشن لڑنے کے؟جواب دیں!
اور میں سوال کرتا ہوں: کہ اگر میرے ایجنڈے پر عمل کیے بغیر ۔ میرا ایجنڈا میرا نہیں پوری قوم کے ایجنڈے پر عمل کیے بغیر۔ اٹھارہ کروڑ عوام کے ایجنڈے پر عمل کیے بغیر۔ انتخابی نظام کو بدلے بغیر اور پاکستان کے آئین پر عمل کیے بغیر۔ (میں پھر سے کہہ رہا ہوں)پاکستان کا آئین میرے ہاتھ میں ہے۔ اس آئین پر عمل کیے بغیر ۔ یہ آئین کہتا ہے: پانی، گیس ، بجلی کے بل ادا نہ کرنے والا ایم این اے نہیں بن سکتا تو ٹیکس پے نہ کرنے والا کیسے ایم این اے بن سکتا ہے؟۔۔۔اگر آئین پر عمل کرائے بغیر الیکشن کروائے گئے تو یہ آئین کو توڑنا ہوگا۔ آئین کی خلاف ورزی ہوگی اٹھارہ کروڑ عوام اس کو مسترد کر دیں گے اور ہم ایسے لٹیروں کو کبھی پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
آگے چلیے! یہ تو ایک بات کی ۔ ابھی کل کی بات ہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے ۹۱ ایسے ممبر پارلیمنٹ پکڑے۔ ایم این اے اور ایم پی اے۔ ۹۱ ایسے لوگ پکڑے جنہوں نے جعلی ڈگریاں مدرسوں کی اور مختلف اداروں کی بنا کے(جس کو الحمد شریف پڑھنا نہیں آتی تھی وہ دورہ حدیث کی ڈگریاں لے کے ایم این اے بنے) اور شیم ان ڈگریاں لینے والوں پر بھی اور ان کو وہ ڈگریاں دینے والے مدرسوں پر بھی شیم ۔ جو دین بیچتے ہیں۔
اور سنیے! ۹۱ ایم این ایز، سینٹر ایم پی ایز ۔ سپریم کورٹ نے ان کی ڈگریاں جعلی پکڑیں، انہوں نے اقرار کیا۔ سپریم کورٹ نے ان کو برطرف کر دیاDismiss کردیا، Dismiss ہوگئے۔ اس دوران بی اے کی جو شرط تھی ڈگری والی ، وہ پارلیمنٹ نے ختم کردی۔ پارلیمنٹ ہر وہ کام کرتی ہے جو ان کے مفاد میں ہے اور ہر وہ کام نہیں کرتی جو عوام کے مفاد میں ہے ۔ ڈگری ختم ہو گئی تھی۔ جن کو پارلیمنٹ نے بددیانتی اور جھوٹی ، جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر خائن اور بددیانت قرار دے کر نکال دیا۔ وہ تین مہینے کے اندر صرف تین مہینے کے اندر ضمنی الیکشن کر کے پھر حکومت میں آگئے۔ آئے یا نہیں۔ بتائیے۔ کیا آپ اسی مذاق کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ارے بیس لاکھ بیس کروڑ کے نمائندہ بیٹھے ہیں۔ بیس کرو ڑ کے نمائندہ بیٹھے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ایسے خائن ، بددیانت، جھوٹے، عیار، مکار، چور اور لٹیرے، پھر آپ کے لیڈر بن کر اسمبلیوں میں بٹھیں اور قانون توڑنے والے پھر قانون بنائیں۔
میں ایک سوال کرتا ہوں اور سیاسی لوگ اس کا جواب دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بی اے کی شرط پرویز مشرف صاحب نے لگائی تھی جب وہ نکال دیئے گئے تو بی اے کی شرط پارلیمنٹ نے ختم کر دی تھی۔ لہذا اب پابندی نہیں تھی۔ میں مانتا ہوں کہ پابندی نہیں رہی وہ تو ختم ہو گئی۔ کیا خیانت بھی ختم ہو گئی۔ میرا سوال پابندی کے ہونے یا نہ ہونے پر نہیں ہے میرا سوال یہ ہے کہ جو شخص ان پڑھ ہے تعلیم بھی پوری نہیں اور جھوٹی ڈگری لے کر خیانت کر کے ایم این اے بنتا ہے۔ اس خائن اور بددیانت شخص کو پاکستان کا آئین ایم این اے بننے کی اجازت نہیں دیتا۔
اور اگر یہ انقلابی تبدیلیوں کے بغیر الیکشن ہوئے تو ان سیاسی جماعتوں نے پھر انہی کو سیٹیں دینی ہیں وہی گھوڑے تیارہیں ان پر سیٹیں رکھی ہوئی ہیں۔ وہ الیکٹ ہو کے آئیں گے۔ اور اسی طرح اٹھارہ کرو ڑ عوام کی تقدیر کے ساتھ قیامت تک ایک مذاق چلتا رہے گا۔ ارے لاکھوں ملین لوگوں کا سمندر جمع ہے۔ا ٓج فیصلہ کرو کیا خائن ، بددیانت لوگوں سے اس ملک کی جان چھڑانی ہے یا انہی کے ہاتھ میں گروی رکھنا ہے۔ اسی طرح ایک بڑی اہم بات بتانا چاہتا ہوں۔ وہ بڑی توجہ سے سننے والی ہے اور وہ یہ کہ آئین پاکستان میں بڑی Important چیز ہے جو ذہن نشین کرنی ہے۔ آئین پاکستان میں آرٹیکل ۶۲ میں ایک شرط لگائی ہے۔
بڑی اہم بات۔۔۔ توجہ سے سنیں۔ وہ شرط کیا لگائی ہے۔ آرٹیکل ۶۲ پاکستان کا آئین کہتا ہے۔ ایم این اے بننے کی شرط کیا ہے۔اہلیت کی شرائط کیا ہیں۔آئین کا آرٹیکل ۶۲ کلاز (ایف)۔۔۔۔۔کلاز (ایف)وہ کہتا ہے :
he is sagacious, righteous, non-profligate, honest and ameen
پانچ شرطیں اگر پوری نہ ہوں، کوئی شخص پاکستان کی اسمبلی اور سینٹ کا ممبر نہیں بن سکتا۔ یہ آئین ہے پاکستان کا۔ وہ کیا ہے ؟سنیں!
پہلی شرط : وہ دانا اور قابل ہو sagacious کا معنی ہے۔ دانا اور قابل ہو۔ چلو میں چلینج نہیں کرتا کسی کی دانائی اور قابلیت کو۔ کئی ہیں اور کئی نہیں ہیں ۔
دوسری شرط: righteous نیک سیرت ہو۔
ایمان سے کہیے سارے الیکٹ ہونے والے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر آپ کہتے ہیں، شہادت دیتے ہیں یہ نیک سیرت ہیں؟
بولیے۔بولیے۔۔ان میں شرابی نہیں ہیں، ان میں قاتل نہیں ہیں۔ ان میں غنڈے دہشت گرد نہیں ہیں، ان میں ٹیکس چور نہیں ہیں۔ ان میں قوم کا خزانہ لوٹنے والے نہیں ہیں، آئین کہتا ہے : he is righteousنیک سیرت ہو۔
تیسری شرط ہے :وہ فضول خرچ نہ ہو، عیاش اور کرپٹ نہ ہو non-profligate فضول خرچ نہ ہو ، عیاش نہ ہو،
چوتھی شرط: honest ایماندار ہو ۔
پانچویں شرط ہے: امین ہو ، وہ امانت دار ہو ۔
میں اب آپ سے سوال کرتا ہوں ! یہ پانچ شرطیں الیکشن میں کھڑے ہونے کے لیے آئین نے لگائی ہیں کہ اگر یہ پوری نہ کرےتو کوئی امیدوار ایم این اے کا ٹکٹ بھی نہیں لے سکتاContest نہیں کر سکتا۔ایمان سے کہیے! ان خوبیوں والےکسی ایک شخص کو الا ماشاء اللہ کچھ لوگوں کو چھو ڑ کر ۔( میں پھر دہرا رہا ہوں) ان خوبیوں والوں کوٹکٹ ملے گا۔ بولیے!!! ملے گا۔ کیا وہی لٹیرے پلٹ کر۔نظام انتخابات کی تبدیلی کے بغیر اگر ہوئے تو آئین ٹوٹے گا یا نہیں؟ اس کی خلاف ورزی ہوگی۔ وہی پلٹ کر آئیں گے ۔وہی پلٹ کر آئیں گے۔
لہذا میرا مطالبہ فقط یہ ہے الیکشن ہوں مگر آئین کی شرطوں کے مطابق ہوں۔ سن لو! لوگوں کو مغالطہ تھا کہ میں الیکشن ملتوی کروانے آ رہا ہوں، میں الیکشن منسوخ کروانے آرہا ہوں۔ نہیں !! میں الیکشن کو پاکستان کے آئین کے تابع کروانے آیا ہوں، الیکشن ہوں! مگر اس سے پہلے (جتنا وقت لگے) ان سے پہلے آئین کی شرطیں پوری کی جائیں۔ اور شرطوں کو پورا کرنے کے لیے ۔۔۔۔ بھلے آپ ۹۰ دنوں میں کر سکیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور آئین کہتا ہے ۔ اگر ۹۰ دنوں سے زیادہ وقت بھی لگ جائے۔۔۔۔ آئین کہتا ہے اس کو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ خالی ۹۰ دن اس کا نام آئین پاکستان نہیں۔ اور بھی شرائط ہیں۔ میرا مطالبہ الیکشن ملتوی کرانا نہیں ہے۔ الیکشن کو آئین کے مطابق کروانا ہے۔ الیکشن کو غنڈہ گردی سے پاک کروانا ہے۔ الیکشن کو دھاندلی سے پاک کروانا ہے۔ الیکشن کے لٹیروں کو نکلوانا اور نیک سیرت آئین کی شرائط کے مطابق اہل لوگوں کو لانا ہے۔ خواہ ۹۰ دن میں کروا لیں خواہ اس سے زیادہ وقت لگ جائے۔کیوں کہ آئین اجازت دیتا ہے۔ میڈیا والے خاص طور پہ ایک نئی بات کہہ رہا ہوں۔ میں نے ہمیشہ پڑھے ہیں آج تک یہ آرٹیکل جو دے رہا ہوں۔ کسی نے ڈسکس نہیں کیا۔ نہ کسی کالم نے نہ کسی اینکر نے ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے نہ پڑھا اور نہ کانوں سے سنا۔ نئی بات ۔ آج کا تحفہ دے رہا ہوں۔ اپنے ایجنڈے اور تقریر میں کہ اگر بھلے آئین کی ان ساری شرطوں کو پورا کرنے کی خاطر ، آئین پر عمل درآمد کرنے کی خاطر، اگر ۹۰ دن سے کچھ عرصہ زیادہ بھی لگ جائے تو آئین اجازت دیتا ہے۔آپ پوچھیں گے: کہاں؟ نوٹ کر لیجیے میں د و بار پڑھوں گا تاکہ مغالطہ نہ رہے۔ آرٹیکل 254 آئین کا آرٹیکل دو سو چون۔۔۔۔بار بار سنا رہاہوں ۔ ۔۔۔آرٹیکل 254 ۔۔۔ دو سو چون۔لفظ ہیں :
Failure to comply with requirement as to time does not render an act invalid.- When any act or thing is required by the Constitution to be done
آئین کہتا ہے کہ اگر کوئی کام اور کوئی بھی چیز آئین تقاضا کرے کہ اسے اتنی مدت کے اندر اس کام کو ہونا چایے جیسے اسمبلیوں کے خاتمے کے بعد ۹۰ دن میں الیکشن ہوتے ہیں۔ کوئی کام ۔ آئین کہتا ہے:if any act, Any act or thing
آئین اس کا تقاضا کرے کہ مقرر ٹائم اور پیریڈ کے اندر اسے ہونا چاہیے۔
within a particular period and it is not done within that period,
اور کسی وجہ سے وہ اس پیریڈ کے اندر نہ ہو سکے۔تو آئین کے لفظ ہیں کہ the doing of the act or thing shall not be invalid تب بھی وہ ایکٹ خلاف آئین اور خلاف قانون نہیں ہوگا۔ اگر وہ پیریڈ بڑھ بھی جائےآئین کی خاطر ، آئین کی شرائط کو پورا کرنے کی خاطر، انتخابات کو شفاف کرانا، آئین کے مطابق اس قابل کرنا کہ آئین کی شرائط پوری ہوں ۔۔۔ اگر مقرر پیریڈ سے زیادہ عرصہ بھی لگ جائے اور ۹۰ دن سے ٹائم گزر جائے۔
آئین کہتا ہے:
the doing of the act or thing shall not be invalid
وہ ایکٹ غیر قانونی اور غیر آئینی نہیں ہوگا۔ اور or otherwise ineffective by reason ان ایفیکٹو بھی نہیں ہوگا۔ نل اینڈ واوئڈ بھی نہیں ہوگا۔ only that it was not done within that period. اور یہ وجہ قابل قبول نہیں ہوگی کہ یہ مقررہ مدت کے اندر نہیں کرایا گیا۔
آئین کہتا ہے۔ کہ میں نے کہا کہ ۹۰ دن میں ہو اور آئین کا آرٹیکل 254 کہتا ہے کہ میں خود کہہ رہا ہوں : اگر کسی ضروری امر کی انجام دہی کی وجہ سے اس ۹۰ دن کے عرصے میں نہ ہو سکے اور بعد میں کچھ عرصے کے بعد ہوجائے تب بھی وہ کام آئینی اور قانونی ہوگا۔(یہ آئین کا آرٹیکل 254 میں نے پیش کردیااور پہلی بار قوم نے سنا )
میں پاکستان کی اعلی عدالت عظمی سے سوال کرتا ہوں: آئین کے آرٹیکل 254 کو پڑھیں! میں میڈیا سے سوال کرتا ہوں، میں پاکستان کی پولیٹیکل پارٹیز سے سوال کرتا ہوں، پارلیمنٹ سے سوال کرتا ہوں، بولیے! جب آئین خود ایک جگہ ۹۰ دن کا پیریڈ مقرر کرتا ہے دوسری جگہ خود کہتا ہے کہ بوجوہ اگر اس عرصے میں نہ ہوسکے اور بعد میں ہو تو تب بھی وہ ویلڈ ہے۔کانسٹی ٹیوشنل ہے۔ قانونی ہے۔ ان ویلڈ نہیں ہوگا۔ آئین خود بتا رہا ہے۔ تو پھر بولیے ۹۰ دن فقط ۔ اس کی رٹ لگانا ضروری ہے ۔ یا پورے آئین کی شرائط پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ کیا ضروری ہے؟
(تھوڑی دیر صبر سے ذرا سنیے! میری اس بات کو) کیوں کہ بین الاقوامی طور پہ بھی بعض قوتیں غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ شاید میں کوئی ڈیموکریسی کے خلاف بات کر رہا ہوں اور میرا ایجنڈآئین اور جمہوریت کے منافی ہے۔ میں پوری بین الاقوامی برادری کا ذہن بھی کلیئر کرنا چاہتا ہوں۔ (دھیان سے سنیے ذرا)
English partانگریزی خطاب
حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کیاہے؟ حقیقی جمہوریت کن ملکوں میں ہے ؟حقیقی جمہوریت اس نظام کا نام ہے جہاں ایک ایم این اے، ایک ایم پی اے، اگر کرائے کا غلط فارم پر کر کے دے دے۔ تو اس کی سیٹ ختم کر دی جاتی ہے۔ اٹھارہ مہینے جیل جاتا ہے۔ جمہوریت اس نظام کا نام ہے کہ کوئی شخص سٹیشنری، کاپیوں اور پنسلوں کا بل غلط سبمٹ کردے تو سولہ مہینے قید کر دی جاتی ہے اس ممبر پارلیمنٹ کو اس کی سیٹ ختم ہوجاتی ہے۔ جمہوریت اس نظام کانام ہے کہ کوئی شخص اگر ۴۰ پیسے غلط کلیم کر دے تو گورنمنٹ پکڑ کے چالیس پیسے اس سے واپس لیتے ہیں۔ جمہوری ملکوں میں لوگ ان پاور ہیں ، وہاں انسٹی ٹیوشنز ہیں، ان بلٹ سسٹمز ہیں۔ اگر کوئی لندن میں کرپٹ ہو تو انٹرنیٹ پر ہر ایک کی ویب سائٹ پر اس کے سارے کرتوت لکھے ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو پتا ہے کہ میرا الیکٹو ممبر کیا کر رہا ہے۔ پاکستان میں کچھ نہیں ہے۔ لوگ جل جائیں ، لوگ مر جائیں ، خود سوزی کر لیں ، زہر کھا لیں، قتل ہو جائیں، غصے سے باہر نکل آئیں، ٹائر جلائیں، سینہ کوبی کریں، یہاں کوئی شخص احساس نہیں کرتا، کوئی الزام نہیں دیتا(1:53-20)، ان مورل کنڈکٹ پہ کوئی نکالا نہیں جاتا۔ ملینز اور ملینز روپے غرق ہو جاتے ہیں۔
English partانگریزی خطاب
ہم اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں تاکہ اس ملک میں یہ کہنا کہ یہ تبدیلی کرنی ہے تو الیکشنوں کے ذریعے کریں۔ بھئی کون سے الیکشن ، کون سی پارلیمنٹ ، یہاں تو لوٹ مار مچی ہے ۔ کسی کو رائٹ نہیں ہے۔ غریب کو کہ وہ محاسبہ کر سکے اپنے ایم این اے کا۔ ایران میں لوگ اٹھے تھے۔ وہاں ایک شہنشاہ تھا۔ مصر میں لوگ اٹھے تھے۔ وہاں ایک ملٹری ڈکٹیٹر بادشاہ تھا۔ لیبیا میں لوگ اٹھے تھے ایک ڈکٹیٹر اور ایک بادشاہ تھا۔ یہاں تو ہر حلقے میں الا ما شاء اللہ کچھ کو چھوڑ کر (میں بار بار کہتا ہوں کہ میں ہر ایک کو تہمت نہیں دیتا اچھے اور لائق لوگ بھی میری نظر میں ہیں۔ مگر مجارٹی۔ ) یہاں تو ہر شخص بادشاہ ہے، شہنشاہ ہے، غریب لوگوں کی جان کا مالک ہے، ان کی بیٹی اٹھوا لے ، ان کی عزت لوٹ لے، گھر مسمار کر دے۔ یہاں غریب کے طاقتور کے خلاف آزادی سے رائے دینے کا اختیار کب ہے؟
ارے نظام بدلو۔ نظام بدلو۔۔۔ نظام بدلو۔۔۔تب پاکستان کی تقدیر بدلے گی۔۔۔۔۔
اب آخری حصے کی طرف آرہا ہوں۔ اور دل تھام لیں۔ آخری حصے کی طرف ۔ ایسا نظام چاہتا ہوں ۔ اس ملک میں۔
ہم نظام انتخاب کو آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ پارٹی لسٹ سسٹم لانا چاہتے ہیں تاکہ غلط کردار کے لوگوں کے لیے موقع نہ رہے۔ صنعت کاروں ، تاجروں، زمینداروں، کسانوں، قانون دانوں، ڈاکٹرز ، انجینئرز ، صحافی، پروفیسرز ہر ایک کے لیے کوٹا مقرر کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسان بھی خود منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں بیٹھیں۔ مزدور بھی پارلیمنٹ میں بیٹھیں، زمیندار ، تاجر پارلیمنٹ میں بیٹھیں، صحافی قانون دان پارلیمنٹ میں بیٹھیں، میرے قوم کے پڑھے لکھے جوانوں کا جرم کیا ہے؟ یہ کیوں نہ پارلیمنٹ میں جائیں؟
اعلی دماغ کیوں نہ جائے؟ یہ کوٹا سسٹم ہو گا۔ ٹکٹوں کا بیچنا بین کرنا چاہتے ہیں، بڑے بڑے جلسے ، ریلیاں الیکشن میں بین کرنا چاہتے ہیں، سکولوں میں کارنر میٹنگز ہوں گی، پولنگ سٹیشن پر امیدواروں اور ان کے نمائندوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ان کے کیمپ نہیں لگیں گے۔ سرکاری عملہ فوج کی نگرانی میں دیانت داری کے ساتھ آ کر ووٹ بھگتائے گا۔ تھانہ ، کچہری، کا داخلہ ختم ہو جائے گا۔ اور تین مہینے کے لیے پولیس افسران کو دوسرے اضلاع میں ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔ جو لوگ انفلوینس ہوتے ہیں ۔ بندوق دھاندلی اور دھانس کا خاتمہ ہوگا۔ برادریوں کا دباؤ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے یورپ نے قدم اٹھایا ہے۔
اب میں قومی اداروں کو بتانا چاہتا ہوں۔ یورپ نے ان کا جو یورپین کورٹ آف جسٹس ہے۔ اور گڑھ ہے جمہوریت کا گڑھ۔۔۔ انہوں نےا ٹلی کو دیکھا ۔ اٹلی میں کرپشن تھی۔ بڑی اہم بات بتا رہاہوں۔ کرپشن تھی۔ ڈیپوزٹ تھا ان کے بجٹ میں حالات مالی، معاشی سنور نہیں رہے تھے۔ بگاڑ تھا۔ گورنمنٹ اچھی نہیں تھی۔ تو یورپین سنٹرل بینک نے مطالبہ کیا اور یورپ نے ٹریٹی قائم کی۔
Treaty on stability coordination in governments
European Treaty on stability coordination in governments
اس کے آرٹیکل ۸ کے تحت یورپین کورٹ آف جسٹس ، یورپ کی جو عدالت عظمی ہے "کورٹ آف جسٹس "اس نے آرٹیکل ۸ اس ٹریٹی کے تحت آرڈر کر کے منتخب اٹلی کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ برطرف کر دیا ۔ یورپ کی کورٹ آف جسٹس نے۔ اور ایسے لوگوں کو گورنمٹ دی جو ملک کو خسارے سے نکالیں، کرپشن ختم کریں اور Sustainable economic growth پر لے آئیںdeficit ختم کریں ۔ انہوں نے دو سال کا ٹائم دیا۔ مگر وہ ایک سال میں کام ختم کر کے پرسوں وزیر اعظم نے ریزائن کیا۔اور نئے الیکشن کا پروسس شروع ہوا۔ یورپ جمہوریت کا گڑھ ہے اگر وہ اپنے احوال کو درست کرنے کے لیے یہ سٹیپ لے سکتا ہے تو ہم اپنے احوال کو درست کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیوں نہ کریں۔ ہم نے تو آج تک اپنے الیکشن پروسیس میں تبدیلیاں نہیں کیں۔ ریفارمز نہیں کیں ۔
اب میں ان سارے حالات کی روشنی میں کنکلوڈ کر رہا ہوں۔ آخری جملے بڑی دھیان سے سن لیں۔ اب وقت آ رہا ہے میرے اعلان کا۔ہمہ تن گوش ہو جائیں۔ ہمہ تن گوش ہوجائیں۔میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں۔ کہ اگلے انتخابات ۔ سنیے ۔ میرا یہ مطالبہ نہیں ہے۔ کہ الیکشن منسوخ کیے جائیں۔ میرا مطالبہ نہیں ہے کہ ملتوی کیے جائیں۔ مجھے اس سے غرض نہیں۔ مجھے غرض تو آئین پاکستان کے ساتھ ہے۔ بس۔۔۔
میری غرض ہے الیکشن جب بھی ہوں۔ آئین کے مطابق ہوں اور آئین کے دونوں آرٹیکل ہیں۔ آئین کی ساری شرائط پر عمل ہو اور آئین پاکستان کے مطابق نمائندے منتخب کیے جائیں اور آئین پاکستان کے مطابق انتخابی نظام کا ماحول دیا جائے۔ اور آئینے پاکستان کے مطابق ہانسٹ ۔ جسٹ ۔ فری، فیئر اور جینون الیکشنز کی ضمانت مہیا کی جائے۔
مجھے آئین پاکستان سے غرض ہے۔ اس کے تحت سن لیں۔ اگلے انتخابات ۔ اگر نظام انتخاب کو بدلے بغیر اور الیکٹورل نظام کے بغیر اگر اگلے کرا دیئے گئے۔ (آرام سے سن لیں ۔ آخری دو منٹ رہ گئے ہیں) کرا دیئے گئے۔ تو عوام ان غیر آئینی انتخابات کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ انتخابات آئین کے خلاف ہوں گے اگر پھر وہی خائن ، جعلی ڈگریوں والے لوگ، آئین کو پامال کرنے والے لوگ، وہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں ڈالے گئے تو قوم ان الیکشن کو قبول نہیں کرے گی۔قوم ۔۔ فوجی مارشل لاء کے خلاف لڑتی رہی ہے۔ تو قوم سیاسی مارشل لاء کے خلاف بھی لڑے گی۔ ہم چند لوگوں کے انڈر دو پارٹیوں کاآپس کا مک مکا قبول نہیں کریں گے۔ جو بھی کیئر ٹیکر حکومت بنانی ہے وہ دو پارٹیاں بیٹھ کر فیصلہ نہیں کر سکتیں۔ آئین کی بیسویں ترمیم کے مطابق وہ بیٹھیں ۔ ایگریمنٹ کریں۔ مگر آئین یکسر منع نہیں کرتا کہ اور نہ بیٹھیں۔ اس میں پاکستان کی عدلیہ بھی بیٹھے اس میں افواج پاکستان بھی بیٹھیں جنہوں نے عدل فراہم کرنا ہے جنہوں نے امن و امان کی ضمانت فراہم کرنی ہے۔ اور اندر اور باہر پارلیمنٹ کے سارے سٹیک ہولڈر بیٹھیں، اور مل کر ایسے لوگوں کو مقرر کریں جو انتخابات صرف کروائیں ہی نہیں بلکہ پہلے نظام آئین کے مطابق درست کریں۔ اور پھر آئین کے مطابق انتخابات کروائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عوام ایسی سازش کو مسترد کر دے گی اور ایسے الیکشن کو غیر آئینی ڈیکلیئر کیا جائے گا۔ اب سن لیجیے!
میں نے پوری قوم کی آواز میڈیا کو بھی سنا دی، مقتدر حلقوں کو بھی سنا دی، عدلیہ کو بھی سنا دی، اٹھارہ کروڑ عوام کو بھی سنا دی، اور پوری دنیا کی عالمی برادری کو بھی سنا دی کہ ہم الیکشن صرف آئین کے مطابق ان شرائط کے تحت چاہتے ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی کا الیکشن قبول نہیں ہوگا۔ اس نظام کو درست کرنے کے لیے میں (فیصلہ سن لیں)اسلام آباد کو صرف دس جنوری جمعرات تک کی مہلت دیتا ہوں۔ میں ۔ تین ہفتوں کی مہلت دے رہا ہوں۔ سنیں ۔ آج ۲۳ دسمبر ہے دس جنوری تک کی مہلت دے رہا ہوں۔ یہ کوئی سترہ ، اٹھارہ دن بن جاتے ہیں۔ تین ہفتوں کی مہلت دے رہا ہوں۔ ۱۰ جنوری جمعرات کو مہلت ختم ہو جائے گی۔ میں کہہ رہا ہوں مہلت ختم ہوجائے گی۔ مہلت ختم ہوجائےگی ۔ بولو ۔۔۔ مہلت ختم ہوجائے گی۔ اگر ۱۰ جنوری سے پہلے آئین کے مطابق اس سارے نظام کو درست نہ کیا گیا ۔ اور دو پارٹیوں کے مک مکا کو روک کر تمام سٹیک ہولڈرز کوبلا کر کے ۔ سٹیک ہولڈرز ہیں ریاست کے۔ ایک متفقہ طریقے سے اچھے لوگوں کو نہ لایا گیا جو اس جن کے اندر یہ جرأت ہو، طاقت ہو، قابلیت ہو، پولیٹیکل ول ہو، ابیلیٹی ہو، کہ وہ اس نظام کو آئین کے مطابق بنا سکیں اگر نہ لایا گیا ۔تو چودہ جنوری کو ۔ پیر کے دن یہ دو ملین کا اجتماع ہے۔ چار ملین کا اجتماع اسلام آباد میں ہوگا۔ ۱۴ جنوری کو ملک پاکستان کے عوام اسلام آباد پہنچیں گے۔ اور مارچ جمعہ کے دن ۱۰ جنوری کو شروع ہوجائے گا۔ جمعہ کے دن۔
بولیے !!! چلو گے ۔۔۔۔۔
بولیے !! چلو گے ۔۔۔۔۔
یا بے وفائی کرو گے۔ ہر شخص چلے گا۔ ۔۔۔ پیچھے تک ہر شخص چلے گا۔
بھئی زندگی تمہیں بھیک میں کوئی نہیں دے گا۔ اگر بدلنا چاہتے ہیں تو باقی ملکوں میں لوگوں نے جانیں دیں۔ خون بہائے۔ ہم خون خرابا نہیں چاہتے ۔ ہم بدامنی نہیں چاہتے۔ یہ اجتماع بھی پرامن ہے اور ۱۰ جنوری سے ۱۳ جنوری تک ۱۴ جنوری ۔ اسلام آباد کا مارچ بھی پرامن ہوگا۔ پرامن ہوگا اور ۱۴ جنوری کو سن لیں۔ میں اسلام آبادمیں عوام پاکستان کی پارلیمنٹ کا اجلاس بلا لیا ہے۔ عوام پاکستان کا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس ۔ ۱۴ جنوری پیر کے دن ۔ عوام پاکستان لاکھوں، ، ملینز کی تعداد میں اسلام آباد پہنچ کرعوامی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا۔ اور فیصلے پھر اسلام آباد میں ۱۴ جنوری کو ہوں گے۔ مہلت دے دی۔ اس سے پہلےاس ملک کی بہتری اوراٹھارہ کروڑ عوام کی بہتری کا سامان کر لیا جائے۔ اللہ آپ کا ہمارا اور اس ملک و وطن کا سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور جو گھروں میں ٹی وی پر سن رہے ہیں۔ وہ ۱۰ جنوری کو گھروں سے نکل پڑیں۔ آپ کو مزید کسی اعلان کی ضرورت نہیں۔ نکلیں گے؟ یا کہیں گے تھک گئے ہیں۔ یا خرچہ بہت کر بیٹھے ہیں اب پیسے نہیں؟ نکلیں گے؟ نکلیں گے؟ گھروں کو چھوڑیں گے؟ اگر گھر بیچنے پڑ جائیں تب بھی نکلو۔۔۔ تن کے کپڑے بیچنے پڑ جائیں تب بھی نکلو۔ اٹھارہ کرو ڑ غریبوں کا مستقبل سنوارنا ہے۔ اسلام آباد اٹھارہ کروڑ عوام کی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا۔ ۱۴ جنوری اور سارے فیصلے اس پارلیمنٹ میں ہوں گے۔ ان شاء اللہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ