تاثرات : حافظ شفیق الرحمن
وکٹر ہیوگر کہا کرتا تھا کہ والیٹر اور اس کی روح کو سمجھنا 18 ویں صدی کی روح کو سمجھنا ہے، اسی طرح آنے والے دور کا مورخ پاکستان اور عالم اسلام کے حوالے سے اکیسویں صدی کی تاریخ مرتب کرے گا تو یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ ڈاکٹر پروفیسر محمدطاہرالقادری کے فلسفہ انقلاب کو سمجھ لینا اکیسویں صدی کی روح کو سمجھ لینا ہے۔
بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا قیام علامہ اقبال کی خواہش کی عملی تعبیر تھا، قدرت حق سے اگر آج شاعر مشرق زندہ ہو جاتے اور تحریک منہاج القرآن کے زیرانتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کو بچشم خود دیکھتے تو بے ساختہ پکا اٹھتے کہ میرے پیاسے خوابوں کو تعبیر کا دریا مل گیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہمہ جہت شخصیت کا یہ پہلو کہ وہ انقلابی شخصیت ہیں انہیں اپنے معاصرین میں ایک ممتاز و منفرد مقام عطا کرتا ہے، ڈاکٹر صاحب کی نگاہ دور رس عصر حاضر کے ایجاد کردہ اور تخلیق کردہ تمام مسائل و مصائب کا کامل احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ان کی ہر تحریر اور تقریر کے آئینے میں انقلاب کا انعکاس ہمہ وقت جلوہ گر رہتا ہے۔
جس طرح خواجہ حسین نظامی مرحوم نے مولانا ظفر علی خان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ قیامت کے دن اپنی نعمتوں کے باعث بخشے جائیں گے، بالکل اسی طرح آج کے دور میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قیامت کے روز اپنی تقریروں کے باعث بخشے جائیں گے، ان تقریروں کے باعث جن میں وہ اپنے سامعین کے دلوں میں تاجدار کائنات کی یاد کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا پیغام اس دلنشین انداز میں دیتے ہیں کہ ہر آنکھ نم ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورے مجمع پر رحمت کا نزول ہو رہا ہے۔