"اسلام اور جدید سائنس" کے نسخوں کے درمیان فرق

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
 
(2 صارفین 5 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
 
[[تصویر:Islam-aur-science.jpg|left|250px]]
 
[[تصویر:Islam-aur-science.jpg|left|250px]]
یہ دور جدید کی منفرد کتاب ہے جس میں قرآنی آیات میں جابجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق کو بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام ہر دور کا دین ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
 
  
اس کتاب میں ان امور پر تفصیلی بحث کی گئی ہے
+
{{Infobox Book |
* سائنسی شعور کے فروغ میں اسلام کا کیا کردار ہے؟
+
| name        = اسلام اور جدید سائنس
* کس طرح قرآنی تعلیمات میں سائنسی علوم کی ترغیب دی گئی ہے؟
+
|image        =  Islam-aur-science.jpg
* کیا اسلام اور سائنس میں عدم مطابقت ہے؟
+
| author      = [[طاہر القادری|ڈاکٹر طاہر القادری]]
* تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ کیا ہے؟
+
| coauthor      = [[عبدالستار منہاجین]]
 +
| cover_artist =
 +
| country      = پاکستان
 +
| language    = اردو
 +
| series      =
 +
| genre        = مذہب اور سائنس
 +
| ذیلی صنف = اسلام اور سائنس
 +
| موضوعات = قرآن اور سائنسی علوم، مسلمان سائنسدان، مستشرقین کے اعترافات، مکان-زمان (Space-time) کا قرآنی نظریہ، عظیم دھماکے کا نظریہ، اجرام فلکی، نظام شمسی، ارضیات، اشکال قمر، تخلیق کائنات، نظریہ اضافیت، سات آسمان، لامتناہی ابعاد، مراحل تخلیق کائنات، مفروضہ ارتقائے حیات، سیاہ شگاف، تجاذبی انہدام, جنین، حواس خمسہ، اسلام اور طب{{زیر}} جدید، حفظان{{زیر}} صحت، جینیاتی انجینئرنگ
 +
| publisher    =  [[منہاج القرآن پبلیکیشنز]]
 +
| release_date = [[2001ء]]
 +
| media_type  = لطیف اور کثیف جلد
 +
| pages        = 704
 +
| isbn        =
 +
| dewey=
 +
| congress=
 +
| oclc=
 +
| preceded_by  =
 +
| followed_by  = [[تخلیق کائنات (کتاب)|تخلیق کائنات]]
 +
}}
 +
[[طاہرالقادری|ڈاکٹر طاہرالقادری]] کی کتاب '''اسلام اور جدید سائنس''' اپنے موضوع کا جامع احاطہ کرتے ہوئے متعدد سائنسی موضوعات  کو قرآنی تعلیمات کے تقابل کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ <ref>[http://www.minhajbooks.com/urdu/bookid/210/اسلام-اور-جدید-سائنس.html آن لائن مطالعہ: اسلام اور جدید سائنس]</ref> کتاب میں قرآن مجید اور سائنسی کتب کے اقتباسات اور حوالہ جات بھی دیئے گئے ہیں۔ مصنف نے حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ سائنسی علوم کے فروغ میں اسلامی تعلیمات اور مسلمان سائنسدانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔  سائنس اور قرآن میں نہ صرف مطابقت ہے بلکہ قرآن جابجا اپنے قاری کو سائنسی علوم حاصل کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں قرآنی آیات میں جابجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق کو بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام ہر دور کا دین ہے، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
  
اسلام اور جدید سائنس کے موضوع پر کئی کتب ہیں مگر پڑھنے کے بعد کسی نہ کسی حوالے سے تشنگی باقی رہتی ہے مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے اس موضوع پر ایک جامع اور اچھوتی کتاب لکھی جو 21 ابواب اور 143 ذیلی فصول پر مشتمل مذکورہ عنوان پر ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے، شیخ الاسلام کا اعجاز ہے کہ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں یا لب کشائی کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا اسی موضوع پر انہوں نے تخصص کیا ہوا ہے، کتاب کے پہلے حصے میں سائنسی شعور کے فروغ میں اسلام کے کردار پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے جسے پڑھنے سے قاری کی دلچسپی میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے، قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب کے باب میں ان تمام قرآنی آیات کو جمع کر دیاگیا جو کائنات میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ دوسرے باب میں اسلام اور سائنس میں عدم تضاد کو ثابت کرنے کے لئے انتہائی مدلل اور دلچسپ بحث کی گئی۔ پہلے حصے کے تیسرے باب میں قرون وسطی میں سائنسی علوم کے فروغ پر بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ جدید علوم کی ابتدا یا تو مسلمان سائنس دانوں نے کی یا پھر انہوں نے ان علوم کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ اس دور کے مسلمان سائنسدانوں کے ہاتھوں ہونے والا سائنسی ارتقاء، لکھی جانے والی کتب اور ایجادات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے اور اسی سلسلہ میں مستشرقین کے اعتراضات کے حوالہ جات بحث کو دلچسپ اور مدلل بنا دیتے ہیں۔ باب چہارم میں اسلامی سپین میں تہذیب وسائنس کا ارتقاء انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کیاگیا ہے۔ تاریخی حوالہ جات سے بتایا گیا ہے کہ مسلمان سائنس دانوں نے علم الطب، علم الہیئت، علم النباتات، کاغذ سازی، ٹیکسٹائل، گھڑیاں، حرکی توانائی، کیمیکل ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی، سول انجینئر نگ جیسے شعبوں میں کس درجہ ترقی کی۔ مسجد قرطبہ، قصر الزہراء، اور الحمراء کی فن تعمیر پر مدلل بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں جدید مغربی مصنفین کے اعتراضات کو بھی شامل کیاگیا ہے۔
+
کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے اور موضوع کو مزید منظم کرنے کیلئے ہر حصہ میں متعدد ابواب اور فصلیں قائم کی گئی ہیں۔ یوں کل 21 ابواب ہیں، جو مزید 143 فصول میں منقسم ہیں۔
  
حصہ دو م میں قرآنی و سائنسی علوم کے دائرہ کار کو موضوع بحث بنایاگیا ہے۔ ایسے سائنسی حقائق جو آج کے دور میں سال ہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد منظر عام پر آئے ہیں ان کو قرآن نے کس قدر واضح طریقے سے چودہ سو سال پہلے بیان کر دیا۔ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد قرآن کی جامعیت اور حقانیت مزید آشکار ہوتی ہے۔
+
==حصہ اول : سائنسی شعورکے فروغ میں اسلام کاکردار==
 +
پہلا حصہ چار ابواب پر مشتمل ہے:
  
سائنسی طریق کار اور سائنسی علوم کی اقسام بیان کرکے نظام شمسی اور اجرام فلکی پر قدیم و جدید نظریات بیان کرنے کے بعد ان کے متعلقہ قرآنی استدلال و تعلیمات کی قطعیت کو ثابت کر دیاگیا ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات و انکشافات سے موازنہ کرتے ہوئے تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ، سات آسمانوں کی حقیقت، زمان و مکان کا قرآنی نظریہ، ارتقائے کائنات کے چھ مراحل، پھیلتی ہوئی کائنات کا نظریہ سیاہ شگاف (Black hole) کا نظریہ، کائنات کے تجاذبی انہدام اور انعقاد قیامت، کرہ ارض پر ارتقائے حیات انسانی، زندگی کا کیمیائی ارتقاء، انسانی زندگی کا حیاتیاتی ارتقاء، انسانی زندگی کا شعوری ارتقاء اور جنسیاتی سائنس پر مدلل اور جامع بحث کی گئی ہے کہ قاری کے ذہن پر قرآن کی عظمت و حقانیت کی مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے اور قاری کے ایمان میں بے پناہ اضافہ کر دیتی ہے اور وہ بے ساختہ اپنے رب کی کبریائی بیان کئے بغیر رہ نہیں سکتا کیونکہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ تمام سائنسی حقائق و نظریات جو کہ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں منظر عام پر آئے ہیں، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے کیسے بیان کئے جا سکتے ہیں۔ اس کا واحد ذریعہ وحی الہی ہی ہو سکتا ہے۔
+
=== باب اول : قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب===
 +
پہلے باب میں قرآنی تعلیمات میں سائنسی علوم کی ترغیب کا احاطہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں موجود ان آیات کو جمع کر دیا گیا ہے جہاں حصول{{زیر}} علم کی ترغیب کے علاوہ کائنات میں غوروفکر کی ترغیب کا بیان بھی موجود ہے۔  
  
حصہ چہارم کے آخری باب میں اسلام اور جدید طب کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جس میں صحت و صفائی اور حفظ ماتقدم کے اسلامی اصولوں کو بڑی وضاحت و صراحت سے بیان کیاگیا ہے۔ نماز کے طبی فوائد سے روشناس کرایاگیا ہے۔ طب نبوی سے ثابت شدہ مجوزہ اور ممنوعہ غذاؤں کی اہمیت جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ثابت کی گئی ہے۔
+
=== باب دوم : اسلام اور سائنس میں عدمِ مغایرت===
 +
اس باب میں مذہب اور سائنس کے دائرہ کار کا تعین پیش کیا گیا ہے۔ یہاں مذہب اور سائنس میں تضاد کے حوالے سے پائے جانے والے مغالطے کے دو بڑے اسباب کا ذکر بھی موجود ہے۔
  
الغرض مذکورہ بالا سطور اس کتاب کے تعارف کے لئے آٹے میں نمک کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس کتاب کی ابواب و فصول پر مشتمل صرف فہرست پڑھ کر ہی قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ پوری کتاب کے مطالعہ کے بعد قاری اپنی فکری اور شعوری سطح کو پہلے سے کہیں زیادہ بلند محسوس کرتا ہے۔ اس کے ایمان اور عقیدہ کی پختگی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر اللہ رب العزت کی بزرگی و کبریائی آشکار ہوتی ہے اور مطالعہ کے دوران جا بجا اس کی زبان سے بے اختیار سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر جیسے الفاظ کا ورد ہوتا رہتا ہے۔  
+
=== باب سوم : قرون وسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ===
 +
تیسرے باب میں عالم{{زیر}} اسلام میں تہذیب و ثقافت کے فروغ پر سیرحاصل بحث موجود ہے۔ یہاں قرون وسطی میں سائنسی علوم کے فروغ پر بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ جدید علوم کی ابتدا یا تو مسلمان سائنس دانوں نے کی یا پھر انہوں نے ان علوم کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ اس دور کے مسلمان سائنسدانوں کے ہاتھوں ہونے والا سائنسی ارتقاء، لکھی جانے والی کتب اور ایجادات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں  تاریخی حوالہ جات کے ساتھ مختلف علوم پر مسلمان سائنسدانوں کی تحقیقات بھی پیش کی گئی ہیں، ان علوم میں علم{{زیر}} ہیئت و فلکیات (Astronomy)، حساب، الجبراء، جیومیٹری (Math, Algebra, Geometry)، طبیعیات، میکانیات، حرکیات (Physics, Mechanics, Dynamics)، علم{{زیر}} بصریات (Optics)، علم نباتات (Botany)، علم طب (Medical Sciences)، علم ادویہ سازی (Pharmacology)، علم جراحت (Surgery)، علم{{زیر}} امراض{{زیر}} چشم (Ophthalmology)، بیہوش کرنے کا نظام (Anaesthesia)، علم کیمیا (Chemistry)، فنون{{زیر}} لطیفہ (Fine Arts)، علم{{زیر}} فقہ و قانون (Law & Jurisprudence)، علم{{زیر}} تاریخ و عمرانیات (Historiography & Sociology) اور علم{{زیر}} جغرافیہ و مواصلات (Geography & Communication) شامل ہیں۔ اس باب کے آخر میں ’’اسلامی سائنس اور مستشرقین کے اعترافات‘‘ بھی پیش کئے گئے ہیں۔
 +
 
 +
=== باب چہارم : اسلامی سپین میں تہذیب و سائنس کا ارتقاء===
 +
چوتھے باب میں سپین میں مسلمانوں کے 500 سالہ دور میں چندعظیم سائنسدانوں کا ذکر موجود ہے۔ اسلامی سپین کے علمی و فنی ارتقاء کےضمن میں علم الطب، علم الہیئت اور علم النباتات سمیت چند اہم علوم کا ذکر بھی موجود ہے۔ اسلامی سپین کا تہذیبی و ثقافتی ارتقاء کے ضمن میں صنعت و ٹیکنالوجی کا اِرتقاء، کاغذ سازی، ٹیکسٹائل انجینئرنگ،گھڑیاں، حرکی توانائی، کیمیکل ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی، ہوائی جہاز اور سول انجینئرنگ کا ذکر موجود ہے۔ اس باب کے آخر میں اسلامی سپین میں ہونے والی سائنسی ترقی کے حوالے سے غیرمسلم محققین کے اعترافات بھی شامل کئے گئے ہیں۔
 +
 
 +
==حصہ دوم : قرآنی و سائنسی علوم کا دائرہ کار==
 +
دوسرے حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے:
 +
 
 +
=== باب اول : قرآنی علوم کی وسعت===
 +
پہلے باب میں قرآنی و سائنسی علوم کے دائرہ کار کو موضوع بحث بنایاگیا ہے۔ ایسے سائنسی حقائق جو آج کے دور میں سال ہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد منظر عام پر آئے ہیں ان کو قرآن نے کس قدر واضح طریقے سے چودہ سو سال پہلے بیان کر دیا۔ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد قرآن کی جامعیت اور حقانیت مزید آشکار ہوتی ہے۔ یہاں جامعیت{{زیر}} قرآن کی مختلف شہادتیں بھی پیش کی گئی ہیں۔
 +
 
 +
=== باب دوم : سائنسی طریق کار اور تصورِ اقدام و خطاء===
 +
دوسرے باب میں سائنسی طریق کار میں تصور اِقدام و خطاء پر بحث کی گئی ہے۔ اس ضمن میں نظام شمسی پر تحقیقات کا تفصیلی بیان موجود ہے، جہاں بنی نوع انسان کے اولیں نظریہ کے بعد مختلف سائنسدانوں فیثا غورث، بطلیموس، زرقالی، کوپرنیکس، ٹیکو براہی، گیلیلیو، کیپلر، نیوٹن اور آئن سٹائن سمیت دس ایسے نظریات پیش کئے گئے ہیں، جو سائنسی تحقیقات کے ساتھ مختلف ادوار میں بدلتے رہے۔ چنانچہ سائنسی تحقیقات کی بنیاد ہی اقدام و خطاء پر ہے۔
 +
 
 +
=== باب سوم : سائنسی علوم کی اقسام اور ان کا محدود دائرہ کار===
 +
تیسرے باب میں سائنسی علوم کے محدود دائرۂ کار کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں سائنسی علوم کی تینوں اہم اقسام، مادی علوم، حیاتیاتی علوم اور نفسیاتی علوم کے دائرہ کار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس باب مین یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ محدود دائرہ کار کے حامل سائنسی علوم قرآن کی جامعیت کا احاطہ نہیں کر سکتے، جبکہ ان کی بنیاد ہی اقدام وخطاء پر ہے۔
 +
 
 +
==حصہ سوم : اسلام اور کائنات==
 +
تیسرا حصہ دس ابواب پر مشتمل ہے:
 +
 
 +
=== باب اوّل : اجرامِ فلکی کی بابت اسلامی تعلیمات===
 +
پہلے باب میں اجرام فلکی کے ضمن میں ستارے، سیاہ شگاف، دمدار تارے، سورج، گردش{{زیر}} آفتاب، شمسی تقویم، سیارے، زمین، چاند، قمری تقویم اور تسخیر{{زیر}} ماہتاب کو زیربحث لایا گیا ہے۔
 +
 
 +
=== باب دوم : تخلیقِ کائنات کا قرآنی نظریہ===
 +
دوسرے باب  میں عظیم دھماکے کا نظریہ، ابتدائی دھماکے کا قرآنی نظریہ، کائنات میں نئے مادے کا ظہور، عظیم دھماکے کا پیش منظر اور قرآن اور نظریۂ اضافیت پر بحث شامل ہے۔
 +
 
 +
=== باب سوم : قرآنی لفظِ ’’سماء‘‘ کے مفاہیم اور سات آسمانوں کی حقیقت===
 +
تیسرے باب  میں قرآنی لفظ سماء کے مختلف معانی پیش کئے گئے ہیں۔ یہاں سات آسمانوں کی سائنسی تعبیر کے ضمن میں تین وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔
 +
 
 +
=== باب چہارم : مکان ۔ زمان (Space-time) کا قرآنی نظریہ===
 +
چوتھے باب میں روشنی کی رفتار کے عدم{{زیر}} حصول کے ساتھ ساتھ اضافیت{{زیر}} زمان و مکاں کے ضمن میں قرآن مجید سے بعض ایسی مثالیں پیش کی گئی ہیں جن میں صراحتاً زمان و مکان کی اضافیت کا ذکر ہے۔
 +
 
 +
=== باب پنجم : ارتقائے کائنات کے چھ ادوار===
 +
پانچویں باب میں قرآن مجید کا تصور{{زیر}} یوم، تخلیق{{زیر}} کائنات میں موجود آٹھ قرآنی اصول، قرآنی چھ ایام کا مفہوم، تخلیق کے دو مراحل جیسے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔
 +
 
 +
=== باب ششم : کرۂ ارضی پر ارتقائے حیات===
 +
چھٹے باب میں زمین کی تخلیق اور اس کے فطری ارتقاء، مرحلۂ ماقبل{{زیر}} عہد{{زیر}} حجری، مرحلۂ حیات{{زیر}} قدیم، مرحلۂ حیات{{زیر}} وسطیٰ، مرحلۂ حیات{{زیر}} جدید اور زمینی زندگی کا پانی سے آغاز جیسے موضوعات لائے گئے ہیں۔
 +
 
 +
=== باب ہفتم : ڈاروِن کا مفروضۂ ارتقائے حیات (Darwinism)===
 +
ساتویں باب میں ڈارون کے مفروضۂ ارتقائے حیات کو بےنقاب کیا گیا ہے۔ اس فصل میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ڈارونی ارتقاء کا افسانہ غیرسائنسی بنیادوں پر قائم ہے۔ نظریۂ ارتقاء کے کھوکھلے پن کو ثابت کرنے کیلئے خلیوں کی من گھڑت اقسام، ارتقاء کے عمل کے سست رو ہونے کے ساتھ ساتھ جینیاتی عمل کا ہمیشہ تخریبی ہونا اور اپنڈکس کا غیرضروری نہ ہونا وغیرہ واضح کیا گیا ہے۔ نیز اس فصل میں بقائے اصلح کی حقیقت کو بےنقاب کرتے ہوئے اندھی مچھلی، اندھے سانپ اور آسٹریلوی خارپشت جیسی اصناف کے تنوع سے ڈارونزم کو بےبنیاد ثابت کیا گیا ہے۔ دیگر سائنسی علوم طبیعیات، ریاضی اور حیاتیات کی مثالوں سے بھی ڈارونزم کا غیرسائنسی بنیادوں پہ استوار ہونا ثابت کیا گیا ہے۔
 +
 
 +
=== باب ہشتم : پھیلتی ہوئی کائنات (Expanding universe) کا قرآنی نظریہ===
 +
آٹھویں باب میں وسعت پذیر کائنات کا قرآنی نظریہ بیان کیا گیا ہے۔ نیز اس فصل میں تخلیق کائنات کے ضمن میں عظیم دھماکے کا نظریہ (big bang) کا بیان ہے۔ اسی طرح یہ فصل مادے کا عدم سے وجود میں ظہور اور {{ٹ}}{{ع}}کُنْ فَیَکُوْنَ{{ڑ}}{{ن}}، عظیم دھماکے کے بعد کیا ہوا جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔
 +
 
 +
=== باب نہم : سیاہ شگاف (Black Hole) کانظریہ اور قرآنی صداقت===
 +
نویں باب میں سیاہ شگاف (black hole) کے نظریہ کے ضمن میں کائنات کے ثِقلی تصادم کا ذکر ہے۔ یہاں سیاہ شگاف کا تعارف، ان کا معرض وجود میں آنا، ان کی تعداد اور جسامت، سیاہ شگاف کا ایک ناقابل دید تنگ گزرگاہ ہونا، سیاہ شگاف سے روشنی کا بھی فرار نہ ہو سکنا اور بیرونی نظارے سے مکمل طور پر پوشیدہ ہونے پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ نیز اس فصل میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ اپنی طبعی عمر گزارنے کے بعد زمین آخرکار سورج سے جا ٹکرائے گی۔
 +
 
 +
=== باب دہم : کائنات کا تجاذبی انہدام اور انعقادِ قیامت===
 +
دسویں باب میں کائنات کے تجاذبی انہدام کا قریبی جائزہ لیا گیا ہے۔ کائنات کے تجاذبی انہدام کے قرآنی نظریہ کے ساتھ ساتھ یہاں قرآنی الفاظ میں کائنات کے لپیٹے جانے کی سائنسی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ عظیم آخری تباہی اور نئی کائنات کا ظہور کے بیان میں سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا گیا ہے کہ کائنات قرآنی بیان کے مطابق ایک بار پھر دوبارہ گیسی حالت اِختیار کر لے گی اور تمام کائنات عظیم ناقابل دید سیاہ شگاف بن جائے گی۔
 +
 
 +
==حصہ چہارم : اسلام اور انسانی زندگی==
 +
چوتھا حصہ چار ابواب پر مشتمل ہے:
 +
 
 +
=== باب اول : انسانی زِندگی کا کیمیائی ارتقاء===
 +
پہلے باب میں کیمیائی ارتقاء کے سات مراحل یعنی تراب، ماء، طین، طین{{زیر}} لازب، صلصال من حماء مسنون، صلصال کالفخار اور سلالہ من طین شامل ہیں۔ اس باب میں تخلیق{{زیر}} آدم علیہ السلام اور تشکیل{{زیر}} بشریت کے ساتھ ساتھ بشریت{{زیر}} محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوہری حالت پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
 +
 
 +
=== باب دوم : انسانی زِندگی کا حیاتیاتی ارتقاء===
 +
دوسرے باب میں رحم مادر میں خلیاتی تقسیم، نطفہ امشاج، منی یُمنٰی، ماء{{زیر}} دافق، ماء{{زیر}} مہین، انڈے کی رحم{{زیر}} مادر میں نتقلی، علقہ کی ابتداء، جنین کی بطن{{زیر}} مادر میں تین پردوں میں تشکیل کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں یہاں دوران{{زیر}} حمل ربوبیت کے چار مظاہر یعنی تغذیہ، حفاظت، نقل و حرکت، تکیف{{زیر}} حرارت کا ذکر بھی شامل ہے۔
 +
 
 +
=== باب سوم : انسانی زِندگی کا شعوری ارتقاء===
 +
تیسرے باب میں ہدایت کی مختلف اقسام، ہدایت{{زیر}} فطری، ہدایت{{زیر}} حسّی، ہدایت{{زیر}} عقلی، ہدایت{{زیر}} قلبی اور ہدایت{{زیر}} ربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز اس باب میں انسانی ذرائع علم، حواس خمسہ ظاہری، حواس خمسہ باطنی اور انسانی قلب کے لطائف خمسہ کا محدود دائرہ کار بیان کرنے کے بعد انسانی علوم کی بےبسی اور علم{{زیر}} نبوت کی ضرورت جیسے موضوعات سے مذہب کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
 +
 
 +
=== باب چہارم : اسلام اور طبِ جدید===
 +
چوتھے باب  میں صحت و صفائی اور حفظ ماتقدم کے اسلامی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ یہاں نماز کے طبی فوائد سے روشناس کرایاگیا ہے۔ طب نبوی سے ثابت شدہ مجوزہ اور ممنوعہ غذاؤں کی اہمیت جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ثابت کی گئی ہے۔ اس باب کے آخر میں جینیاتی انجینئرنگ پر بھی بحث شامل کی گئی ہے۔
 +
 
 +
==حوالہ جات ==
 +
{{حوالہ جات}}
 +
'''مزید دیکھیئے'''
 +
* [[فہرست تصانیف شیخ الاسلام]]
  
 
[[زمرہ:تصانیف]]
 
[[زمرہ:تصانیف]]

حالیہ نسخہ بمطابق 10:37، 5 مارچ 2015ء

Islam-aur-science.jpg

سانچہ:Infobox Book ڈاکٹر طاہرالقادری کی کتاب اسلام اور جدید سائنس اپنے موضوع کا جامع احاطہ کرتے ہوئے متعدد سائنسی موضوعات کو قرآنی تعلیمات کے تقابل کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ [1] کتاب میں قرآن مجید اور سائنسی کتب کے اقتباسات اور حوالہ جات بھی دیئے گئے ہیں۔ مصنف نے حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ سائنسی علوم کے فروغ میں اسلامی تعلیمات اور مسلمان سائنسدانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ سائنس اور قرآن میں نہ صرف مطابقت ہے بلکہ قرآن جابجا اپنے قاری کو سائنسی علوم حاصل کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں قرآنی آیات میں جابجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق کو بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام ہر دور کا دین ہے، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے اور موضوع کو مزید منظم کرنے کیلئے ہر حصہ میں متعدد ابواب اور فصلیں قائم کی گئی ہیں۔ یوں کل 21 ابواب ہیں، جو مزید 143 فصول میں منقسم ہیں۔

فہرست

حصہ اول : سائنسی شعورکے فروغ میں اسلام کاکردار

پہلا حصہ چار ابواب پر مشتمل ہے:

باب اول : قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب

پہلے باب میں قرآنی تعلیمات میں سائنسی علوم کی ترغیب کا احاطہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں موجود ان آیات کو جمع کر دیا گیا ہے جہاں حصولِ علم کی ترغیب کے علاوہ کائنات میں غوروفکر کی ترغیب کا بیان بھی موجود ہے۔

باب دوم : اسلام اور سائنس میں عدمِ مغایرت

اس باب میں مذہب اور سائنس کے دائرہ کار کا تعین پیش کیا گیا ہے۔ یہاں مذہب اور سائنس میں تضاد کے حوالے سے پائے جانے والے مغالطے کے دو بڑے اسباب کا ذکر بھی موجود ہے۔

باب سوم : قرون وسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ

تیسرے باب میں عالمِ اسلام میں تہذیب و ثقافت کے فروغ پر سیرحاصل بحث موجود ہے۔ یہاں قرون وسطی میں سائنسی علوم کے فروغ پر بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ جدید علوم کی ابتدا یا تو مسلمان سائنس دانوں نے کی یا پھر انہوں نے ان علوم کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ اس دور کے مسلمان سائنسدانوں کے ہاتھوں ہونے والا سائنسی ارتقاء، لکھی جانے والی کتب اور ایجادات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں تاریخی حوالہ جات کے ساتھ مختلف علوم پر مسلمان سائنسدانوں کی تحقیقات بھی پیش کی گئی ہیں، ان علوم میں علمِ ہیئت و فلکیات (Astronomy)، حساب، الجبراء، جیومیٹری (Math, Algebra, Geometry)، طبیعیات، میکانیات، حرکیات (Physics, Mechanics, Dynamics)، علمِ بصریات (Optics)، علم نباتات (Botany)، علم طب (Medical Sciences)، علم ادویہ سازی (Pharmacology)، علم جراحت (Surgery)، علمِ امراضِ چشم (Ophthalmology)، بیہوش کرنے کا نظام (Anaesthesia)، علم کیمیا (Chemistry)، فنونِ لطیفہ (Fine Arts)، علمِ فقہ و قانون (Law & Jurisprudence)، علمِ تاریخ و عمرانیات (Historiography & Sociology) اور علمِ جغرافیہ و مواصلات (Geography & Communication) شامل ہیں۔ اس باب کے آخر میں ’’اسلامی سائنس اور مستشرقین کے اعترافات‘‘ بھی پیش کئے گئے ہیں۔

باب چہارم : اسلامی سپین میں تہذیب و سائنس کا ارتقاء

چوتھے باب میں سپین میں مسلمانوں کے 500 سالہ دور میں چندعظیم سائنسدانوں کا ذکر موجود ہے۔ اسلامی سپین کے علمی و فنی ارتقاء کےضمن میں علم الطب، علم الہیئت اور علم النباتات سمیت چند اہم علوم کا ذکر بھی موجود ہے۔ اسلامی سپین کا تہذیبی و ثقافتی ارتقاء کے ضمن میں صنعت و ٹیکنالوجی کا اِرتقاء، کاغذ سازی، ٹیکسٹائل انجینئرنگ،گھڑیاں، حرکی توانائی، کیمیکل ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی، ہوائی جہاز اور سول انجینئرنگ کا ذکر موجود ہے۔ اس باب کے آخر میں اسلامی سپین میں ہونے والی سائنسی ترقی کے حوالے سے غیرمسلم محققین کے اعترافات بھی شامل کئے گئے ہیں۔

حصہ دوم : قرآنی و سائنسی علوم کا دائرہ کار

دوسرے حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے:

باب اول : قرآنی علوم کی وسعت

پہلے باب میں قرآنی و سائنسی علوم کے دائرہ کار کو موضوع بحث بنایاگیا ہے۔ ایسے سائنسی حقائق جو آج کے دور میں سال ہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد منظر عام پر آئے ہیں ان کو قرآن نے کس قدر واضح طریقے سے چودہ سو سال پہلے بیان کر دیا۔ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد قرآن کی جامعیت اور حقانیت مزید آشکار ہوتی ہے۔ یہاں جامعیتِ قرآن کی مختلف شہادتیں بھی پیش کی گئی ہیں۔

باب دوم : سائنسی طریق کار اور تصورِ اقدام و خطاء

دوسرے باب میں سائنسی طریق کار میں تصور اِقدام و خطاء پر بحث کی گئی ہے۔ اس ضمن میں نظام شمسی پر تحقیقات کا تفصیلی بیان موجود ہے، جہاں بنی نوع انسان کے اولیں نظریہ کے بعد مختلف سائنسدانوں فیثا غورث، بطلیموس، زرقالی، کوپرنیکس، ٹیکو براہی، گیلیلیو، کیپلر، نیوٹن اور آئن سٹائن سمیت دس ایسے نظریات پیش کئے گئے ہیں، جو سائنسی تحقیقات کے ساتھ مختلف ادوار میں بدلتے رہے۔ چنانچہ سائنسی تحقیقات کی بنیاد ہی اقدام و خطاء پر ہے۔

باب سوم : سائنسی علوم کی اقسام اور ان کا محدود دائرہ کار

تیسرے باب میں سائنسی علوم کے محدود دائرۂ کار کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں سائنسی علوم کی تینوں اہم اقسام، مادی علوم، حیاتیاتی علوم اور نفسیاتی علوم کے دائرہ کار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس باب مین یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ محدود دائرہ کار کے حامل سائنسی علوم قرآن کی جامعیت کا احاطہ نہیں کر سکتے، جبکہ ان کی بنیاد ہی اقدام وخطاء پر ہے۔

حصہ سوم : اسلام اور کائنات

تیسرا حصہ دس ابواب پر مشتمل ہے:

باب اوّل : اجرامِ فلکی کی بابت اسلامی تعلیمات

پہلے باب میں اجرام فلکی کے ضمن میں ستارے، سیاہ شگاف، دمدار تارے، سورج، گردشِ آفتاب، شمسی تقویم، سیارے، زمین، چاند، قمری تقویم اور تسخیرِ ماہتاب کو زیربحث لایا گیا ہے۔

باب دوم : تخلیقِ کائنات کا قرآنی نظریہ

دوسرے باب میں عظیم دھماکے کا نظریہ، ابتدائی دھماکے کا قرآنی نظریہ، کائنات میں نئے مادے کا ظہور، عظیم دھماکے کا پیش منظر اور قرآن اور نظریۂ اضافیت پر بحث شامل ہے۔

باب سوم : قرآنی لفظِ ’’سماء‘‘ کے مفاہیم اور سات آسمانوں کی حقیقت

تیسرے باب میں قرآنی لفظ سماء کے مختلف معانی پیش کئے گئے ہیں۔ یہاں سات آسمانوں کی سائنسی تعبیر کے ضمن میں تین وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔

باب چہارم : مکان ۔ زمان (Space-time) کا قرآنی نظریہ

چوتھے باب میں روشنی کی رفتار کے عدمِ حصول کے ساتھ ساتھ اضافیتِ زمان و مکاں کے ضمن میں قرآن مجید سے بعض ایسی مثالیں پیش کی گئی ہیں جن میں صراحتاً زمان و مکان کی اضافیت کا ذکر ہے۔

باب پنجم : ارتقائے کائنات کے چھ ادوار

پانچویں باب میں قرآن مجید کا تصورِ یوم، تخلیقِ کائنات میں موجود آٹھ قرآنی اصول، قرآنی چھ ایام کا مفہوم، تخلیق کے دو مراحل جیسے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔

باب ششم : کرۂ ارضی پر ارتقائے حیات

چھٹے باب میں زمین کی تخلیق اور اس کے فطری ارتقاء، مرحلۂ ماقبلِ عہدِ حجری، مرحلۂ حیاتِ قدیم، مرحلۂ حیاتِ وسطیٰ، مرحلۂ حیاتِ جدید اور زمینی زندگی کا پانی سے آغاز جیسے موضوعات لائے گئے ہیں۔

باب ہفتم : ڈاروِن کا مفروضۂ ارتقائے حیات (Darwinism)

ساتویں باب میں ڈارون کے مفروضۂ ارتقائے حیات کو بےنقاب کیا گیا ہے۔ اس فصل میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ڈارونی ارتقاء کا افسانہ غیرسائنسی بنیادوں پر قائم ہے۔ نظریۂ ارتقاء کے کھوکھلے پن کو ثابت کرنے کیلئے خلیوں کی من گھڑت اقسام، ارتقاء کے عمل کے سست رو ہونے کے ساتھ ساتھ جینیاتی عمل کا ہمیشہ تخریبی ہونا اور اپنڈکس کا غیرضروری نہ ہونا وغیرہ واضح کیا گیا ہے۔ نیز اس فصل میں بقائے اصلح کی حقیقت کو بےنقاب کرتے ہوئے اندھی مچھلی، اندھے سانپ اور آسٹریلوی خارپشت جیسی اصناف کے تنوع سے ڈارونزم کو بےبنیاد ثابت کیا گیا ہے۔ دیگر سائنسی علوم طبیعیات، ریاضی اور حیاتیات کی مثالوں سے بھی ڈارونزم کا غیرسائنسی بنیادوں پہ استوار ہونا ثابت کیا گیا ہے۔

باب ہشتم : پھیلتی ہوئی کائنات (Expanding universe) کا قرآنی نظریہ

آٹھویں باب میں وسعت پذیر کائنات کا قرآنی نظریہ بیان کیا گیا ہے۔ نیز اس فصل میں تخلیق کائنات کے ضمن میں عظیم دھماکے کا نظریہ (big bang) کا بیان ہے۔ اسی طرح یہ فصل مادے کا عدم سے وجود میں ظہور اور کُنْ فَیَکُوْنَ، عظیم دھماکے کے بعد کیا ہوا جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔

باب نہم : سیاہ شگاف (Black Hole) کانظریہ اور قرآنی صداقت

نویں باب میں سیاہ شگاف (black hole) کے نظریہ کے ضمن میں کائنات کے ثِقلی تصادم کا ذکر ہے۔ یہاں سیاہ شگاف کا تعارف، ان کا معرض وجود میں آنا، ان کی تعداد اور جسامت، سیاہ شگاف کا ایک ناقابل دید تنگ گزرگاہ ہونا، سیاہ شگاف سے روشنی کا بھی فرار نہ ہو سکنا اور بیرونی نظارے سے مکمل طور پر پوشیدہ ہونے پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ نیز اس فصل میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ اپنی طبعی عمر گزارنے کے بعد زمین آخرکار سورج سے جا ٹکرائے گی۔

باب دہم : کائنات کا تجاذبی انہدام اور انعقادِ قیامت

دسویں باب میں کائنات کے تجاذبی انہدام کا قریبی جائزہ لیا گیا ہے۔ کائنات کے تجاذبی انہدام کے قرآنی نظریہ کے ساتھ ساتھ یہاں قرآنی الفاظ میں کائنات کے لپیٹے جانے کی سائنسی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ عظیم آخری تباہی اور نئی کائنات کا ظہور کے بیان میں سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا گیا ہے کہ کائنات قرآنی بیان کے مطابق ایک بار پھر دوبارہ گیسی حالت اِختیار کر لے گی اور تمام کائنات عظیم ناقابل دید سیاہ شگاف بن جائے گی۔

حصہ چہارم : اسلام اور انسانی زندگی

چوتھا حصہ چار ابواب پر مشتمل ہے:

باب اول : انسانی زِندگی کا کیمیائی ارتقاء

پہلے باب میں کیمیائی ارتقاء کے سات مراحل یعنی تراب، ماء، طین، طینِ لازب، صلصال من حماء مسنون، صلصال کالفخار اور سلالہ من طین شامل ہیں۔ اس باب میں تخلیقِ آدم علیہ السلام اور تشکیلِ بشریت کے ساتھ ساتھ بشریتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوہری حالت پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔

باب دوم : انسانی زِندگی کا حیاتیاتی ارتقاء

دوسرے باب میں رحم مادر میں خلیاتی تقسیم، نطفہ امشاج، منی یُمنٰی، ماءِ دافق، ماءِ مہین، انڈے کی رحمِ مادر میں نتقلی، علقہ کی ابتداء، جنین کی بطنِ مادر میں تین پردوں میں تشکیل کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں یہاں دورانِ حمل ربوبیت کے چار مظاہر یعنی تغذیہ، حفاظت، نقل و حرکت، تکیفِ حرارت کا ذکر بھی شامل ہے۔

باب سوم : انسانی زِندگی کا شعوری ارتقاء

تیسرے باب میں ہدایت کی مختلف اقسام، ہدایتِ فطری، ہدایتِ حسّی، ہدایتِ عقلی، ہدایتِ قلبی اور ہدایتِ ربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز اس باب میں انسانی ذرائع علم، حواس خمسہ ظاہری، حواس خمسہ باطنی اور انسانی قلب کے لطائف خمسہ کا محدود دائرہ کار بیان کرنے کے بعد انسانی علوم کی بےبسی اور علمِ نبوت کی ضرورت جیسے موضوعات سے مذہب کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

باب چہارم : اسلام اور طبِ جدید

چوتھے باب میں صحت و صفائی اور حفظ ماتقدم کے اسلامی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ یہاں نماز کے طبی فوائد سے روشناس کرایاگیا ہے۔ طب نبوی سے ثابت شدہ مجوزہ اور ممنوعہ غذاؤں کی اہمیت جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ثابت کی گئی ہے۔ اس باب کے آخر میں جینیاتی انجینئرنگ پر بھی بحث شامل کی گئی ہے۔

حوالہ جات

مزید دیکھیئے