"انٹرویو:بی بی سی اردو 14 دسمبر 2012" کے نسخوں کے درمیان فرق
اندلسی (تبادلۂ خیال | شراکت) |
اندلسی (تبادلۂ خیال | شراکت) |
||
سطر 3: | سطر 3: | ||
==انٹرویو کا متن== | ==انٹرویو کا متن== | ||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں انتخابات کو ملتوی کروانے یا انتخابات کو ختم کروانے کے لیے نہیں جا رہا، میں انتخابات پہ Believe کرتا ہوں۔ Political Process اور Democratic Process کا Strong Believer ہوں۔لیکن میرا Concern یہ ہے کہ انتخابات اگر ان اصلاحات کے بغیر ہو گئے تو پھر یہ بالکل وہی Action Replay ہو گا جو پچھلے 60 سال سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:نہیں، لیکن 60 سال سے مسلسل انتخابات تو نہیں ہوئے نا۔ درمیاں میں کئی مرتبہ۔۔۔۔۔۔۔،3 مرتبہ تو بڑے واضح طور پر فوج نے براہ راست مداخلت کی، اور یہی کہہ کر کہ انتخابی نظام صحیح نہیں ہے، سیاسی نظام صحیح نہیں ہے، یہی کہہ کر انہوں نے جمہوریت کو پٹڑی سے اتار دیا۔ یعنی جس طرح کا آپ پروگرام دے رہے ہیں کہ ان کے بغیر کبھی تبدیلی نہیں آئے گی، تو ہر طالع آزما نے یہی کہا کہ جب تک اصلاحات نہیں آئیں گی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک سیاست سے اور جمہوریت سے دور ہوتا چلا گیا۔ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:ثقلین امام صاحب 65 برس کو اگر آپ Divide کر لیں نا تو 30 برس آپ نکال دیں فوجی آمریتوں کے، توفوجی آمریتوں کا جو بار بار واویلا کیا جاتا ہے، ان کے 30 برس نکال دیں تو 30 / 35 برس پھر نام نہاد جمہوریتوں کی حکومت رہی ہے، سیاسی حکومتوں کے پاس رہی ہے ۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:ہاں لیکن یہ وہ سیاسی حکومتیں تھیں نا جن کے پیچھے بہر حال جو اصل قوت تھی وہ اسٹبلشمنٹ کی ہی رہی ۔اگر انتخابات بار بار ہوتے رہے تو خود بخود بہتری کی طرف نہیں جائیں گی ؟ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:ایسا ہر گز نہیں ہو گا، ایسا ہر گز نہیں ہو گا ۔اس لیے کہ جن کو آپ فرما رہے ہیں کہ فوجی طالع آزماؤں نے آکر جمہوریت کاخاتمہ کیا، میں سمجھتا ہوں کہ جب سیاسی حکومتیں آتی ہیں تو سیاسی حکمران بھی سیاسی طالع آزماء ہو جاتے ہیں اور وہ کسی اعتبار سے بھی فوجی آمروں سے کم نہیں ہوتے۔فرق یہ ہوتا ہے کہ فوجی آمر اپنے دور میں آکر پاکستان کے آئین کو معطل کر دیتے ہیں اور سیاسی آمر انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آکر ملک میں آئینیت اور دستوریت کو معطل کر دیتے ہیں ۔اُن کے زمانے میں دستور Suspend ہوتا ہے،اِن کے زمانے میں Constitutionality، Suspend ہو تی ہے، اور ملک میں کوئی آئین پہ عمل درآمد نہیں۔اور پچھلے 5 سال سے بغیر مداخلت کے سیاسی حکومت ہے ۔اس 5 سال کے پورے عرصہ میں آپ دیکھ لیں کہ Deliver کیا کیا ہے ۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:آپ کے خیال میں اس وقت مکمل طور پر سیاسی حکومت آزاد ہے؟فارن پالیسی، افغان پالیسی اور انڈیا پالیسی اور امریکہ سے سارے تعلقات جو ہیں یہ آپ کے خیال میں مکمل طور پر ۔۔۔۔آپ ایک سیاسی رہنماء بھی رہے ہیں، کیا آپ بہت ذمہ داری سے کہہ رہے ہیں کہ سیاسی حکومت کے ہی کنٹرول میں ہیں مکمل ۔ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:یہ سوال بڑا دلچسپ ہے آپ کا۔ اس سوال کے جواب 2 جہتوں سے ہیں ۔ میں یہ کہوں گا کہ آزاد نہیں ہے،مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کیوں نہیں ؟ اس لیے کہ سیاسی لیڈر اہل نہیں ہیں ۔ ان کی ترجیحات میں ہی ملک اور قوم کی سالمیت اور آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھنا نہیں ہے ۔ اگر Political Leadership کی ترجیحات میں صرف کرپشن ہو، صرف مال بنانا ہو، اور صرف اپنے اگلے دور کے اقتدار کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کرنا ہو اور بھول کر بھی کبھی اپنی خارجہ پالیسی کی سمت بھی متعین کرنے کو تیار نہ ہوںاور ملک جو سب سے بڑے گھناؤنے مسئلے میں 10 سال سے گھرا ہوا ہے، دہشت گردی کا، 5 سال گزر جائیں اور اس کے لیے کوئی قانون اور پالیسی تک نہ بنائیں ۔4 سال سے قانون Table پہ پڑاہے، Law and Order کے لیے قانون نہ بنائیں ۔غریب عوام کو روٹی، کپڑا، مکان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:اچھا، آپ نے جو ایک بات کی ہے، یہ دہشت گردی کے خلاف قانون نہ بننے کی جو بات کی ہے یہ بڑی اہم ہے۔ ملک کی اکثریت جو ہے وہ دہشت گردی کے خلاف ہے، ان کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے، قانون سازی بھی چاہتی ہے، لیکن انتخابی نظام بدنے سے کیا فرق پڑے گا ۔کیونکہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ اس کے خلاف قانون سازی ہو ۔ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:ہاں، یہ بڑی Relevant بات آپ نے پوچھی، انتخابی نظام کے بدلنے اور دہشت گردی کے خاتمے کا باہمی تعلق یہ ہے کہ جو لوگ اُسی فرسودہ اور سرمایہ دارانہ نظام انتخاب سے مسلسل ایک کھیپ چلی آرہی ہے، بغیر کسی تبدیلی کے، ان میں نہ Political Will ہےدہشت گردی کے خاتمے کی، نہ ان کے اندر جرات ہے، نہ ان کی نظریاتی ترجیح ہے اور نہ ان کو اس اعتبار سے فکر ہے کہ لوگ ذبح ہو رہے ہیں، مر رہے ہیں، Bomb Blast ہو رہے ہیں، مسجدیں، امام بارگاہیں برباد ہو رہی ہیں، ان کی ترجیحات ہی یہ نہیں ہیں ۔انتخابی نظام کے بدلنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ جب Real Leadership آئے گی، پڑھا لکھا طبقہ۔۔۔۔۔۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:آپ کی مراد کیا ایسی ہے کہ عمران خان وہ تبدیلی لاسکتے ہیں ؟ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:کوئی شخص بھی ثقلین امام صاحب اس انتخابی نظام میں جو داخل ہو گا، بغیر انقلابی اصلاحات کے اس Electoral Process کا حصہ بنے گا، وہ 50 سال بھی گزار لے تو اس Process سے تبدیلی نہیں لا سکے گا۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:تو علامہ صاحب یہ بتائیے کہ آپ تبدیلی چاہ کیا رہے ہیں ؟ اگرمجھے بنیادی اس کے کوئی Features بتا سکیں کہ یہ Electoral System میں تبدیلی سے مراد آپ کی کیا ہےکہ Proportional Electoral System بدلا جائے یا 50% ووٹ لینے والے کامیاب قرار دیا جائے، بنیادی تبدیلی آپ کیا چاہتے ہیں ؟ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:یہ جو متناسب نمائندگی کے نظام کی جو بات کی ہے، میں اس وقت Technical بات اور Technical Format کی بات نہیں کروں گا، میں ٹھوس تبدیلیاں جن کی اس وقت نشاندہی کر سکتا ہوں اور کرنا چاہتا ہوں وہ یہ چاہتا ہوں کہ مثلاً آپ دیکھیے کوئی Political Party ایک عام شریف النفس، پڑھے لکھے اور لائق اور قابل شخص، جس کی پاکستان کا آئین تقاضہ کرتا ہے، آرٹیکل 62-63 اس کو ٹکٹ دینے پر تیار نہیں ۔ اُس کے ٹکٹ کی ابتداء 2/5 کروڑ روپے کے پارٹی فنڈ سے ہوتی ہے، ٹکٹ بکتا ہے۔اس کے بعد کوئی شخص جس کے پاس دھن، دھونس، دھاندلی نہیں ہے، غنڈہ گردی، دہشت گرد۔۔۔۔۔۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:علامہ صاحب جو موجودہ نظام میں مسائل ہیں وہ چھوڑ دیں ۔ میں آپ سےصرف، جو آپ چاہ رہے ہیں کہ یہ تبدیلی آئے انتخابی نظام میں، اس سے حالات بہتر ہونگے، وہ کیا ہے ؟ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:میں یہ چاہ رہا ہوں کہ Political Parties کا ٹکٹ بیچنا بین کر دوں گا، میرا منصوبہ یہ ہے ۔اور نمبر 2 کسانوں کا نمائندہ کسانوں میں سے اسمبلی میں پہنچانا چاہتا ہوں، تاجروں کا نمائندہ تاجروں میں سے اسمبلی میں پہنچانا چاہتا ہوں، مزدوروں کا نمائندہ مزدوروں میں سے، صحافیوں اور وکلاء کا نمائندہ صحافیوں اور وکلاء میں سے، یعنی China ماڈل کی طرح، پاکستان کے جتنے طبقات ہیں، وہ طبقات براہ راست اپنا نمائندہ Merits پر منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجیں ۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:یعنی آپ جو China میں کیمونسٹ پارٹی کا جو ماڈل ہے کہ وہ ہر شعبے سے ایک ایک نمائندہ لیتے ہیں، آپ وہ لانا چاہ رہے ہیں پاکستان میں ؟ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:وہ ایک جز میں نے صرف اُس میں سے لیا ہے ۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:اور کیا چاہ رہے ہیں ؟ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:پاکستان کا اپنا ایک انتخابی ماڈل میں تیار کرنا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد بڑے بڑے جلسے جن پر 10/20 کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے، اس کو Totally Ban کر دینا چاہتا ہوں۔ Corner Meetings سکولوں میں ہوں، چھوٹی جگہوں پر۔منشور پر الیکشن لڑا جائے افراد پر نہیں، Party leadership پہ نہیں، Parties کے اندر Democracy اور انتخابات کو لانا چاہتا ہوں، عام کارکن بھی تاکہ Party میں اپنے نمائندے کے خلاف بات کر سکے ۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:ٹھیک ہے، آپ نے اس دوران یہ واپس جانے سے پہلے فتویٰ ایک جاری کیا ہے، خود کش حملوں کے خلاف، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد جب آپ واپس جائیں گے تو آپ کی زندگی محفوظ رہے گی؟ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:اس بات کی فکر نہیں ہے، زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے ۔فتویٰ میں نے اپنے ایمان اور اپنے دین، اور قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی قومی اور ملی اور ایمانی فریضہ اداء کیا ہے ۔ میں واپس ایک بڑے عزم اور بڑے مشن اور Cause کے ساتھ جا رہا ہوں ۔قائد اعظم کا وہ مشن لے کر جو انہوں نے کہا تھا، یقین، اتحاد اور ڈسپلن (تنظیم)اس کے احیاء کے لیے جا رہا ہوں۔ اور ملک اور اس قوم کی بقاء کی جنگ لڑنے جا رہا ہوں، پُر امن جنگ۔ اور لوگوں کو نفرتوں سے نکال کر اعتدال کی طرف، کرپشن سے نکال کر دیانت کی طرف، اور غریب عوام کو مایوسیوں سے نکال کر روشنی کی طرف سے لیجانے کے لیے جا رہا ہوں، اور ساری Political Parties کو بھی ساتھ لوں گا۔۔۔۔۔۔ | ||
+ | ثقلین امام:ٹھیک ہے آپ سب کو لے کر چلیں گے، علامہ صاحب، لیکن بعض تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے اور آپ نے سنا بھی ہو گا، کہ آپ یہ سارا جو عمل کر رہے ہیں، خاص طور پر خودکش حملوں کے (جو کہ ظاہر ہے بہت سے لوگ اس کے خلاف ہیں )، لیکن ان کا خیال ہے کہ آپ اس وقت یہ سارا کام بیرونی قوتوں کے کہنے پر کر رہے ہیں ۔ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:دیکھیے کسی کی زبان پہ آپ اور قلم پہ پابندی نہیں لگا سکتے، مگر یہ 100 فیصد غلط ہے، میں اس کو مسترد کرتا ہوں اور یہ وقت دکھا دے گا کہ میرا اس وقت Statement کیا ہو گا اور میرا Narrated کیا ہو گا ۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:اس وقت پاکستان کی کسی مقتدر قوت سے آپ کا تعلق نہیں، لیکن ماضی میں آپ نے جنرل ضیاء الحق کے بعض قوانین کی حمایت کی، پھر مشرف کے انتخابات میں بھی حصہ لیا، اور پھر دوسری حکومتوں سے بھی کچھ آپ نے (کہا جاتا ہے کہ) مراعات حاصل کیں۔ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے تو ایک جملہ ثقلین امام صاحب Categorical ہے میں نےاپنی زندگی میں پوری روئے زمین پر موجود کسی بیرونی اور پاکستان کے اندر کسی وفاقی صوبائی حکومت سےآج تک زندگی میں مَیں نے، میرے ادارے نے، میری تحریک نےایک پائی کی معاونت حاصل نہیں کی۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:آپ نے ضیاء الحق کے زمانے میں Blasphemy Law کی حمایت کی لیکن ملک سے باہر آکر Blasphemy Law کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ | ||
+ | |||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:اب جو Blasphemy Law تھا میں نے اس Blasphemy Law کو عدالت میں Establish کیا تھامگر وہ اس کا Substantive حصہ تھا۔ Law کے 2 طریقے ہوتے ہیں، ایک محض انبیاء کی گستاخی کی سزاء کیا ہے؟بس سزاء کے Quantum پر میں نے دلائل دے کر Establish کیا تھا ۔ اور جو قانون کا Procedural طریقہ ہےکہ یہ قانون نافذ کیسے ہو گا، اس سے مجھے اختلاف رہا ہے، اول دن سے آج تک ۔ باہر بھی جب میں نے بات کی ہے، ڈنمارک میں، Categorical کی ہے کہ میں اس کی سزائے موت کے حق میں ہوں۔ چونکہ یہ سزائے موت Blasphemy پر بائبل نے دی ہے، یہودیوں کے ہاں بھی تھی اور Gospel (انجیل) میں بھی ہے اور قرآن میں بھی ہے ۔ میں نے وہاں Challenge کر کے کہا ہے کہ جو سزاء اللہ نے تورات میں بھی رکھی، انجیل میں بھی رکھی، قرآن میں بھی رکھی، میں اس کی مخالفت کیسے کر سکتا ہوں ؟۔میں نے تو اُن کی زبان بند کر دی تھی ۔ | ||
+ | |||
+ | ثقلین امام:ٹھیک ہے، لیکن کیا آپ (علامہ طاہر القادری صاحب) سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں یہ Blasphemy کے حوالے سے موت کی سزاء جو ہے یہ ختم ہی ہو جانی چاہیے ؟ | ||
+ | ڈاکٹر محمد طاہر القادری:میں اس کے اندر ٹھوس اصلاحات (اس کی Procedural Reforms )کا قائل ہوں کہ اس کی اصلاحات اس انداز کے ساتھ ہونی چاہئیں کہ Black Mailing نہ ہو، کسی کو Target ناجائز طریقے سے نہ کرے اور کمزوروں کے خلاف اسے ناجائز Tools کے طور پر Use نہ کیا جائے ۔ اس کی FIR کے طریقے میں، اس کے درج ہونے کا طریقہ، اس کی شہادتوں کا طریقہ، اس کا پورا Trail، اس کی سزاء، اس کے بہت سے Parameters ہیں، اس کے نفاذ کا طریقہ کار (وہ) ایسے اصلاحات مانگتا ہے تاکہ ہر قسم کے غلط استعمال کا امکان ختم ہو جائے۔ | ||
==بیرونی روابط == | ==بیرونی روابط == |
تجدید بمطابق 23:25، 14 دسمبر 2012ء
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پاکستان واپسی اور تاریخی عوامی اجتماع سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے حوالے سے بی بی سی اردو BBC Urdu پر ثقلین امام نامی اینکر نے 14 دسمبر 2012ء کو شیخ الاسلام کا انٹرویو کیا۔
انٹرویو کا متن
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں انتخابات کو ملتوی کروانے یا انتخابات کو ختم کروانے کے لیے نہیں جا رہا، میں انتخابات پہ Believe کرتا ہوں۔ Political Process اور Democratic Process کا Strong Believer ہوں۔لیکن میرا Concern یہ ہے کہ انتخابات اگر ان اصلاحات کے بغیر ہو گئے تو پھر یہ بالکل وہی Action Replay ہو گا جو پچھلے 60 سال سے ہوتا چلا آرہا ہے۔
ثقلین امام:نہیں، لیکن 60 سال سے مسلسل انتخابات تو نہیں ہوئے نا۔ درمیاں میں کئی مرتبہ۔۔۔۔۔۔۔،3 مرتبہ تو بڑے واضح طور پر فوج نے براہ راست مداخلت کی، اور یہی کہہ کر کہ انتخابی نظام صحیح نہیں ہے، سیاسی نظام صحیح نہیں ہے، یہی کہہ کر انہوں نے جمہوریت کو پٹڑی سے اتار دیا۔ یعنی جس طرح کا آپ پروگرام دے رہے ہیں کہ ان کے بغیر کبھی تبدیلی نہیں آئے گی، تو ہر طالع آزما نے یہی کہا کہ جب تک اصلاحات نہیں آئیں گی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک سیاست سے اور جمہوریت سے دور ہوتا چلا گیا۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:ثقلین امام صاحب 65 برس کو اگر آپ Divide کر لیں نا تو 30 برس آپ نکال دیں فوجی آمریتوں کے، توفوجی آمریتوں کا جو بار بار واویلا کیا جاتا ہے، ان کے 30 برس نکال دیں تو 30 / 35 برس پھر نام نہاد جمہوریتوں کی حکومت رہی ہے، سیاسی حکومتوں کے پاس رہی ہے ۔
ثقلین امام:ہاں لیکن یہ وہ سیاسی حکومتیں تھیں نا جن کے پیچھے بہر حال جو اصل قوت تھی وہ اسٹبلشمنٹ کی ہی رہی ۔اگر انتخابات بار بار ہوتے رہے تو خود بخود بہتری کی طرف نہیں جائیں گی ؟
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:ایسا ہر گز نہیں ہو گا، ایسا ہر گز نہیں ہو گا ۔اس لیے کہ جن کو آپ فرما رہے ہیں کہ فوجی طالع آزماؤں نے آکر جمہوریت کاخاتمہ کیا، میں سمجھتا ہوں کہ جب سیاسی حکومتیں آتی ہیں تو سیاسی حکمران بھی سیاسی طالع آزماء ہو جاتے ہیں اور وہ کسی اعتبار سے بھی فوجی آمروں سے کم نہیں ہوتے۔فرق یہ ہوتا ہے کہ فوجی آمر اپنے دور میں آکر پاکستان کے آئین کو معطل کر دیتے ہیں اور سیاسی آمر انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آکر ملک میں آئینیت اور دستوریت کو معطل کر دیتے ہیں ۔اُن کے زمانے میں دستور Suspend ہوتا ہے،اِن کے زمانے میں Constitutionality، Suspend ہو تی ہے، اور ملک میں کوئی آئین پہ عمل درآمد نہیں۔اور پچھلے 5 سال سے بغیر مداخلت کے سیاسی حکومت ہے ۔اس 5 سال کے پورے عرصہ میں آپ دیکھ لیں کہ Deliver کیا کیا ہے ۔
ثقلین امام:آپ کے خیال میں اس وقت مکمل طور پر سیاسی حکومت آزاد ہے؟فارن پالیسی، افغان پالیسی اور انڈیا پالیسی اور امریکہ سے سارے تعلقات جو ہیں یہ آپ کے خیال میں مکمل طور پر ۔۔۔۔آپ ایک سیاسی رہنماء بھی رہے ہیں، کیا آپ بہت ذمہ داری سے کہہ رہے ہیں کہ سیاسی حکومت کے ہی کنٹرول میں ہیں مکمل ۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:یہ سوال بڑا دلچسپ ہے آپ کا۔ اس سوال کے جواب 2 جہتوں سے ہیں ۔ میں یہ کہوں گا کہ آزاد نہیں ہے،مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کیوں نہیں ؟ اس لیے کہ سیاسی لیڈر اہل نہیں ہیں ۔ ان کی ترجیحات میں ہی ملک اور قوم کی سالمیت اور آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھنا نہیں ہے ۔ اگر Political Leadership کی ترجیحات میں صرف کرپشن ہو، صرف مال بنانا ہو، اور صرف اپنے اگلے دور کے اقتدار کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کرنا ہو اور بھول کر بھی کبھی اپنی خارجہ پالیسی کی سمت بھی متعین کرنے کو تیار نہ ہوںاور ملک جو سب سے بڑے گھناؤنے مسئلے میں 10 سال سے گھرا ہوا ہے، دہشت گردی کا، 5 سال گزر جائیں اور اس کے لیے کوئی قانون اور پالیسی تک نہ بنائیں ۔4 سال سے قانون Table پہ پڑاہے، Law and Order کے لیے قانون نہ بنائیں ۔غریب عوام کو روٹی، کپڑا، مکان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثقلین امام:اچھا، آپ نے جو ایک بات کی ہے، یہ دہشت گردی کے خلاف قانون نہ بننے کی جو بات کی ہے یہ بڑی اہم ہے۔ ملک کی اکثریت جو ہے وہ دہشت گردی کے خلاف ہے، ان کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے، قانون سازی بھی چاہتی ہے، لیکن انتخابی نظام بدنے سے کیا فرق پڑے گا ۔کیونکہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ اس کے خلاف قانون سازی ہو ۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:ہاں، یہ بڑی Relevant بات آپ نے پوچھی، انتخابی نظام کے بدلنے اور دہشت گردی کے خاتمے کا باہمی تعلق یہ ہے کہ جو لوگ اُسی فرسودہ اور سرمایہ دارانہ نظام انتخاب سے مسلسل ایک کھیپ چلی آرہی ہے، بغیر کسی تبدیلی کے، ان میں نہ Political Will ہےدہشت گردی کے خاتمے کی، نہ ان کے اندر جرات ہے، نہ ان کی نظریاتی ترجیح ہے اور نہ ان کو اس اعتبار سے فکر ہے کہ لوگ ذبح ہو رہے ہیں، مر رہے ہیں، Bomb Blast ہو رہے ہیں، مسجدیں، امام بارگاہیں برباد ہو رہی ہیں، ان کی ترجیحات ہی یہ نہیں ہیں ۔انتخابی نظام کے بدلنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ جب Real Leadership آئے گی، پڑھا لکھا طبقہ۔۔۔۔۔۔
ثقلین امام:آپ کی مراد کیا ایسی ہے کہ عمران خان وہ تبدیلی لاسکتے ہیں ؟
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:کوئی شخص بھی ثقلین امام صاحب اس انتخابی نظام میں جو داخل ہو گا، بغیر انقلابی اصلاحات کے اس Electoral Process کا حصہ بنے گا، وہ 50 سال بھی گزار لے تو اس Process سے تبدیلی نہیں لا سکے گا۔
ثقلین امام:تو علامہ صاحب یہ بتائیے کہ آپ تبدیلی چاہ کیا رہے ہیں ؟ اگرمجھے بنیادی اس کے کوئی Features بتا سکیں کہ یہ Electoral System میں تبدیلی سے مراد آپ کی کیا ہےکہ Proportional Electoral System بدلا جائے یا 50% ووٹ لینے والے کامیاب قرار دیا جائے، بنیادی تبدیلی آپ کیا چاہتے ہیں ؟
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:یہ جو متناسب نمائندگی کے نظام کی جو بات کی ہے، میں اس وقت Technical بات اور Technical Format کی بات نہیں کروں گا، میں ٹھوس تبدیلیاں جن کی اس وقت نشاندہی کر سکتا ہوں اور کرنا چاہتا ہوں وہ یہ چاہتا ہوں کہ مثلاً آپ دیکھیے کوئی Political Party ایک عام شریف النفس، پڑھے لکھے اور لائق اور قابل شخص، جس کی پاکستان کا آئین تقاضہ کرتا ہے، آرٹیکل 62-63 اس کو ٹکٹ دینے پر تیار نہیں ۔ اُس کے ٹکٹ کی ابتداء 2/5 کروڑ روپے کے پارٹی فنڈ سے ہوتی ہے، ٹکٹ بکتا ہے۔اس کے بعد کوئی شخص جس کے پاس دھن، دھونس، دھاندلی نہیں ہے، غنڈہ گردی، دہشت گرد۔۔۔۔۔۔
ثقلین امام:علامہ صاحب جو موجودہ نظام میں مسائل ہیں وہ چھوڑ دیں ۔ میں آپ سےصرف، جو آپ چاہ رہے ہیں کہ یہ تبدیلی آئے انتخابی نظام میں، اس سے حالات بہتر ہونگے، وہ کیا ہے ؟
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:میں یہ چاہ رہا ہوں کہ Political Parties کا ٹکٹ بیچنا بین کر دوں گا، میرا منصوبہ یہ ہے ۔اور نمبر 2 کسانوں کا نمائندہ کسانوں میں سے اسمبلی میں پہنچانا چاہتا ہوں، تاجروں کا نمائندہ تاجروں میں سے اسمبلی میں پہنچانا چاہتا ہوں، مزدوروں کا نمائندہ مزدوروں میں سے، صحافیوں اور وکلاء کا نمائندہ صحافیوں اور وکلاء میں سے، یعنی China ماڈل کی طرح، پاکستان کے جتنے طبقات ہیں، وہ طبقات براہ راست اپنا نمائندہ Merits پر منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجیں ۔
ثقلین امام:یعنی آپ جو China میں کیمونسٹ پارٹی کا جو ماڈل ہے کہ وہ ہر شعبے سے ایک ایک نمائندہ لیتے ہیں، آپ وہ لانا چاہ رہے ہیں پاکستان میں ؟
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:وہ ایک جز میں نے صرف اُس میں سے لیا ہے ۔
ثقلین امام:اور کیا چاہ رہے ہیں ؟
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:پاکستان کا اپنا ایک انتخابی ماڈل میں تیار کرنا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد بڑے بڑے جلسے جن پر 10/20 کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے، اس کو Totally Ban کر دینا چاہتا ہوں۔ Corner Meetings سکولوں میں ہوں، چھوٹی جگہوں پر۔منشور پر الیکشن لڑا جائے افراد پر نہیں، Party leadership پہ نہیں، Parties کے اندر Democracy اور انتخابات کو لانا چاہتا ہوں، عام کارکن بھی تاکہ Party میں اپنے نمائندے کے خلاف بات کر سکے ۔
ثقلین امام:ٹھیک ہے، آپ نے اس دوران یہ واپس جانے سے پہلے فتویٰ ایک جاری کیا ہے، خود کش حملوں کے خلاف، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد جب آپ واپس جائیں گے تو آپ کی زندگی محفوظ رہے گی؟
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:اس بات کی فکر نہیں ہے، زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے ۔فتویٰ میں نے اپنے ایمان اور اپنے دین، اور قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی قومی اور ملی اور ایمانی فریضہ اداء کیا ہے ۔ میں واپس ایک بڑے عزم اور بڑے مشن اور Cause کے ساتھ جا رہا ہوں ۔قائد اعظم کا وہ مشن لے کر جو انہوں نے کہا تھا، یقین، اتحاد اور ڈسپلن (تنظیم)اس کے احیاء کے لیے جا رہا ہوں۔ اور ملک اور اس قوم کی بقاء کی جنگ لڑنے جا رہا ہوں، پُر امن جنگ۔ اور لوگوں کو نفرتوں سے نکال کر اعتدال کی طرف، کرپشن سے نکال کر دیانت کی طرف، اور غریب عوام کو مایوسیوں سے نکال کر روشنی کی طرف سے لیجانے کے لیے جا رہا ہوں، اور ساری Political Parties کو بھی ساتھ لوں گا۔۔۔۔۔۔ ثقلین امام:ٹھیک ہے آپ سب کو لے کر چلیں گے، علامہ صاحب، لیکن بعض تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے اور آپ نے سنا بھی ہو گا، کہ آپ یہ سارا جو عمل کر رہے ہیں، خاص طور پر خودکش حملوں کے (جو کہ ظاہر ہے بہت سے لوگ اس کے خلاف ہیں )، لیکن ان کا خیال ہے کہ آپ اس وقت یہ سارا کام بیرونی قوتوں کے کہنے پر کر رہے ہیں ۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:دیکھیے کسی کی زبان پہ آپ اور قلم پہ پابندی نہیں لگا سکتے، مگر یہ 100 فیصد غلط ہے، میں اس کو مسترد کرتا ہوں اور یہ وقت دکھا دے گا کہ میرا اس وقت Statement کیا ہو گا اور میرا Narrated کیا ہو گا ۔
ثقلین امام:اس وقت پاکستان کی کسی مقتدر قوت سے آپ کا تعلق نہیں، لیکن ماضی میں آپ نے جنرل ضیاء الحق کے بعض قوانین کی حمایت کی، پھر مشرف کے انتخابات میں بھی حصہ لیا، اور پھر دوسری حکومتوں سے بھی کچھ آپ نے (کہا جاتا ہے کہ) مراعات حاصل کیں۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے تو ایک جملہ ثقلین امام صاحب Categorical ہے میں نےاپنی زندگی میں پوری روئے زمین پر موجود کسی بیرونی اور پاکستان کے اندر کسی وفاقی صوبائی حکومت سےآج تک زندگی میں مَیں نے، میرے ادارے نے، میری تحریک نےایک پائی کی معاونت حاصل نہیں کی۔
ثقلین امام:آپ نے ضیاء الحق کے زمانے میں Blasphemy Law کی حمایت کی لیکن ملک سے باہر آکر Blasphemy Law کی مخالفت کر رہے ہیں ۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری:اب جو Blasphemy Law تھا میں نے اس Blasphemy Law کو عدالت میں Establish کیا تھامگر وہ اس کا Substantive حصہ تھا۔ Law کے 2 طریقے ہوتے ہیں، ایک محض انبیاء کی گستاخی کی سزاء کیا ہے؟بس سزاء کے Quantum پر میں نے دلائل دے کر Establish کیا تھا ۔ اور جو قانون کا Procedural طریقہ ہےکہ یہ قانون نافذ کیسے ہو گا، اس سے مجھے اختلاف رہا ہے، اول دن سے آج تک ۔ باہر بھی جب میں نے بات کی ہے، ڈنمارک میں، Categorical کی ہے کہ میں اس کی سزائے موت کے حق میں ہوں۔ چونکہ یہ سزائے موت Blasphemy پر بائبل نے دی ہے، یہودیوں کے ہاں بھی تھی اور Gospel (انجیل) میں بھی ہے اور قرآن میں بھی ہے ۔ میں نے وہاں Challenge کر کے کہا ہے کہ جو سزاء اللہ نے تورات میں بھی رکھی، انجیل میں بھی رکھی، قرآن میں بھی رکھی، میں اس کی مخالفت کیسے کر سکتا ہوں ؟۔میں نے تو اُن کی زبان بند کر دی تھی ۔
ثقلین امام:ٹھیک ہے، لیکن کیا آپ (علامہ طاہر القادری صاحب) سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں یہ Blasphemy کے حوالے سے موت کی سزاء جو ہے یہ ختم ہی ہو جانی چاہیے ؟ ڈاکٹر محمد طاہر القادری:میں اس کے اندر ٹھوس اصلاحات (اس کی Procedural Reforms )کا قائل ہوں کہ اس کی اصلاحات اس انداز کے ساتھ ہونی چاہئیں کہ Black Mailing نہ ہو، کسی کو Target ناجائز طریقے سے نہ کرے اور کمزوروں کے خلاف اسے ناجائز Tools کے طور پر Use نہ کیا جائے ۔ اس کی FIR کے طریقے میں، اس کے درج ہونے کا طریقہ، اس کی شہادتوں کا طریقہ، اس کا پورا Trail، اس کی سزاء، اس کے بہت سے Parameters ہیں، اس کے نفاذ کا طریقہ کار (وہ) ایسے اصلاحات مانگتا ہے تاکہ ہر قسم کے غلط استعمال کا امکان ختم ہو جائے۔