"پاکستان میں شکر سازی کی صنعت" کے نسخوں کے درمیان فرق
اندلسی (تبادلۂ خیال | شراکت) (نیا صفحہ: صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کی تیسری تصنیف، اس میں پہلی بار ملک کی شکر سازی صنعت کو ایک تحقیقی ج...) |
منہاجین (تبادلۂ خیال | شراکت) م (←معمولی) |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
− | [[صاحبزادہ حسین محی الدین قادری]] کی تیسری تصنیف، | + | [[صاحبزادہ حسین محی الدین قادری]] کی تیسری تصنیف، جس میں پہلی بار پاکستان کی شکر سازی صنعت کو ایک تحقیقی جائزہ کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔ |
+ | |||
+ | اس کتاب میں گنے کی پیداوار اور زراعت، کیڑے مار دوائیوں کا مربوط استعمال، گنے کی مڈھی فصل یا *راٹون* کی تیاری، شکر کی مرحلہ وار تیاری، تقسیم اور رسد کا چینل، شکر کی پیداوار اور فروخت، مارکیٹ کی حرکیات کا صنعتی جائزہ، شکر سازی کی سیاست، حکومت کا کردار، قواعد و ضوابط اور عمل دخل، بین الاقوامی، شوگر منظر نامہ، شوگر انڈسٹری اور حالات حاضرہ، دریافت شدہ نتائج اور تجاویز، چینی کی بازیابی، کیمائی کھادوں کا استعمال، کسانوں پر عائد فرض، مارکیٹنگ سسٹم، گورنمنٹ ڈیوٹی، صارفین کو کم داموں چینی کی فراہمی، بین الاقوامی منڈی میں پیش کاری، ملک میں گندم کی قلت کی وجہ، خام و گنے کی وافر مقدار کی متنوع تبدیلیاں اور تحقیقی اور ترقیاتی منصوبوں پر تحقیقی بحث شامل ہیں۔ | ||
+ | |||
+ | 127 صفحات پر مشتمل کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ پاکستان میں اگرچہ صنعت شکر سازی کا شمار ان شعبوں میں ہوتا ہے جو بہترین منظم کاروباروں میں ایک ہے۔ سردست ملک میں مجموعی طور پر 77 شوگر ملیں مختلف صوبوں میں کام کر رہی ہیں جن میں لاکھوں افراد روزگار سے وابستہ ہیں، تاہم غلط پالیسیوں اور کوتاہیوں کے باعث شکر سازی کی صنعت ہماری معیشت کی ترقی میں نہ صرف یہ کہ قابل ذکر کردار ادا نہیں کر رہی بلکہ یہ صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور اس کی بقاء کو خطرات لاحق ہیں۔ | ||
+ | |||
+ | ان خطرات سے نکلنے اور فی ایکڑ پیداوار بنانے کے لئے مصنف نے مفید تجاویز بھی شامل کی ہیں۔ | ||
[[زمرہ:تصانیف]] | [[زمرہ:تصانیف]] |
حالیہ نسخہ بمطابق 10:10، 26 اپريل 2009ء
صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کی تیسری تصنیف، جس میں پہلی بار پاکستان کی شکر سازی صنعت کو ایک تحقیقی جائزہ کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔
اس کتاب میں گنے کی پیداوار اور زراعت، کیڑے مار دوائیوں کا مربوط استعمال، گنے کی مڈھی فصل یا *راٹون* کی تیاری، شکر کی مرحلہ وار تیاری، تقسیم اور رسد کا چینل، شکر کی پیداوار اور فروخت، مارکیٹ کی حرکیات کا صنعتی جائزہ، شکر سازی کی سیاست، حکومت کا کردار، قواعد و ضوابط اور عمل دخل، بین الاقوامی، شوگر منظر نامہ، شوگر انڈسٹری اور حالات حاضرہ، دریافت شدہ نتائج اور تجاویز، چینی کی بازیابی، کیمائی کھادوں کا استعمال، کسانوں پر عائد فرض، مارکیٹنگ سسٹم، گورنمنٹ ڈیوٹی، صارفین کو کم داموں چینی کی فراہمی، بین الاقوامی منڈی میں پیش کاری، ملک میں گندم کی قلت کی وجہ، خام و گنے کی وافر مقدار کی متنوع تبدیلیاں اور تحقیقی اور ترقیاتی منصوبوں پر تحقیقی بحث شامل ہیں۔
127 صفحات پر مشتمل کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ پاکستان میں اگرچہ صنعت شکر سازی کا شمار ان شعبوں میں ہوتا ہے جو بہترین منظم کاروباروں میں ایک ہے۔ سردست ملک میں مجموعی طور پر 77 شوگر ملیں مختلف صوبوں میں کام کر رہی ہیں جن میں لاکھوں افراد روزگار سے وابستہ ہیں، تاہم غلط پالیسیوں اور کوتاہیوں کے باعث شکر سازی کی صنعت ہماری معیشت کی ترقی میں نہ صرف یہ کہ قابل ذکر کردار ادا نہیں کر رہی بلکہ یہ صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور اس کی بقاء کو خطرات لاحق ہیں۔
ان خطرات سے نکلنے اور فی ایکڑ پیداوار بنانے کے لئے مصنف نے مفید تجاویز بھی شامل کی ہیں۔