"سانحۂ ماڈل ٹاؤن" کے نسخوں کے درمیان فرق
(←=) |
|||
سطر 54: | سطر 54: | ||
=== لائیو میڈیا کوریج === | === لائیو میڈیا کوریج === | ||
+ | 15 گھنٹے سے ایک سفاکانہ واقعہ کی خبر لمحہ با لمحہ الیکٹرانک میڈیا ٹی وی سکرین پر دکھاتا رہا اور حکمرانوں کو اس کی کوئی خبر نہیں۔ | ||
== تفتیشی عمل == | == تفتیشی عمل == |
تجدید بمطابق 07:22، 7 جولائی 2014ء
یہ ابھی نامکمل مضمون ہے۔ |
آپ اس میں ترمیم کر کے اسے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ |
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انقلاب کی فائنل کال کے لیے سال 2014ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے وطن واپسی کے اعلان کے بعد مسلم لیگ ن کی وفاقی اور صوبہ پنجاب کی حکومت شدید قسم کی بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی، پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے مختلف فورمز کے کارکنان کے جذبۂ انقلاب کو دبانے کے لیے پنجاب حکومت کےاحکامات پر 16 اور 17 جون 2014ء کی درمیانی شب 3 ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع تحریک منہاج القرآن کے مرکز اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر دھاوہ بولا اور وہاں موجود کارکنان پر وحشیانہ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 10 کارکنان فوری طور پر جبکہ مزید 4 بعد ازاں ہسپتال میں دم توڑ گئے، پولیس کی یہ کارروائی رات 2 بجے سے اگلے دن 3 بجے تک جاری رہی۔ پاکستان کے قومی اخبارات اور میڈیا چینلوں نے اس واقعہ کو سانحۂ ماڈل ٹاؤن کا نام دیا جبکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے اس رات پولیس کے ظلم کے باعث جاں بحق ہونے والے کارکنان کو شہدائے انقلاب کا نام دیا۔
فہرست
پس منظر
سولہ جون کو طالبان نے اسلام آباد اور لاہور کو آگ لگانے کی دھمکی دی تھی، اسی رات دو بجے پنجاب حکومت نے خود لاہور میں تباہی کا آغاز کر دیا۔ طالبان نے نون لیگ کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان مدد سے اقتدار میں آنے کے باوجود اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے فوج کو ان کے خلاف آپریشن سے کیوں نہیں روک پائی؟ پنجاب حکومت نے اسی رات ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر پہ حملہ کروا کے نہ صرف اپنا غصہ اتارا بلکہ طالبان کو بھی واضح پیغام دے دیا کہ طاہرالقادری کی تقریروں اور دلیلوں کی وجہ سے وہ آرمی کو آپریشن سے نہیں روک پائی۔ اور اب ان کے گھر کے باہر ہائی کورٹ کے حکم سے کئی سال قبل لگائی گئی حفاظتی باڑ کو بلڈوز کرکے طالبان کو کھلا موقع اور راستہ دے دیا کہ وہ جب چاہیں ان سے بدلہ لے سکیں۔
سیکیورٹی اقدامات کیلئے ہائی کورٹ کا حکمنامہ
منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سیکیورٹی بیریئرز چار سال قبل ہائی کورٹ کے حکم سے ماڈل ٹاون پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے۔
سیکیورٹی اقدامات کیلئے پولیس کا خط
سانحہ
پولیس سے مذاکرات
پر تشدد سانحہ
بارہ تھانوں کی پولیس کی مدد سے رات دو بجے سے جاری آپریشن کے دوران کل چار حملے کئے گئے۔ پہلے تین حملوں میں زہریلی آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا، جبکہ آخری حملے کے دوران سو سے زیادہ لوگوں پر سیدھے فائرنگ کی گئی۔
قتل عام
گیارہ بجے کے بعد پولیس کی طرف سے چوتھا حملہ کیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے موقع پر موجود دو خواتین کے سر میں گولیاں مار کر انہیں شہید کر دیا۔ آس پاس کے لوگ انہیں بچانے کے لئے آگے آئے تو بے دریغ گولیاں برساتے ہوئے 100 سے زیادہ لوگوں کو شدید زخمی کر دیا، جن میں سے چند موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ کچھ نے ہسپتال جا کر دم توڑ دیا۔
شہداء کے نام
- شازیہ مرتضیٰ زوجہ غلام مرتضیٰ۔ باغبانپورہ لاہور، پاکستان۔ عمر 28 سال
- تنزیلہ امجد زوجہ محمد امجد۔ باغبانپورہ لاہور، پاکستان۔ عمر 30 سال
- محمد عمر صدیق ولد میاں محمد صدیق۔ کوٹ لکھپت لاہور، پاکستان۔ عمر 19 سال
- صفدر حسین ولد علی محمد۔ شیخوپورہ، پاکستان۔ عمر 35 سال
- عاصم حسین ولد معراج دین۔ گاؤں مناواں لاہور، پاکستان۔ عمر 22 سال
- غلام رسول ولد محمد بخش۔ تاج پورہ سکیم لاہور، پاکستان۔ عمر 56 سال
- محمد اقبال ولد خیر دین۔ چونگی امرسدھو لاہور، پاکستان۔ عمر 42 سال
- محمد رضوان خان ولد محمد خان۔ چکوال، پاکستان۔ عمر 20 سال (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)
- خاور نوید رانجھا ولد محمد صدیق۔ کوٹ مومن سرگودھا، پاکستان۔ عمر 20 سال (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)
- محمد شہباز ولد اظہر حسین۔ مریدکے، پاکستان۔ عمر 17 سال
انسانی حقوق کی پامالی
- پولیس نے اپنی دہشت گردی کے ثبوت ختم کرنے کے لئے کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے توڑے۔
- پولیس نے زخمیوں کو ہسپتال لے جانے کے لئے آنے والی ایمبولینس کی گاڑیوں پہ لاٹھیاں برسائیں۔
- پولیس نے ایک ایسے بے ہوش زخمی کو بے دردی سے مارا جسے ریسکیو 1122 کا عملہ کندھوں پہ اٹھائے ہسپتال لے جا رہا تھا۔
- پولیس نے جون کی گرم دوپہر میں لاٹھی چارج سے زخمی ہونے والے نوجوانوں کو تپتی سڑکوں پہ گھسیٹا۔
- پولیس نے ساٹھ ستر سال کے بزرگوں کے سروں پہ لاٹھیاں برسا کر انہیں لہولہان کر دیا۔
- پولیس نے خواتین کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور سروں میں گولیاں مار کر شہید کر دیا۔
- پولیس نے اپنی نگرانی میں گلوبٹ سے لوگوں کی گاڑیاں تڑوائیں، دکانوں پہ پڑے ریفریجریٹرز تڑوا کر کولڈ ڈرنک پئے اور بعد ازاں ایس پی ماڈل ٹاون طارق عزیز نے گلوبٹ کو سینے سے لگا کر تھپکیاں دیں۔
- انسانی حقوق کی تنظیم نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کا نوٹس لیتے ہوئے اس سانحہ کی غیرجانبدار عدالتی انکوائری پر زور دیا۔ [1]
پولیس کے دعوے
رات 2 بجے کے قریب جب پولیس اہلکار بھاری مشینری کے ہمراہ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ کے باہر پہنچے تو ان کی طرف سے بتایا گیا کہ سیکریٹریٹ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر کے سامنے موجود رکاوٹیں عوام کے لیے مشکل کا باعث ہیں لہٰذا ہم ان رکاوٹوں کو ہٹانے کے احکامات لے کر آئے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ کے منتظمین نے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ یہ سیکورٹی بیریئرز لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پولیس کی نگرانی میں نصب کیے گئے تھے اور مئی 2011ء میں مقامی پولیس اسٹیشن کی طرف سے جاری کردہ سیکورٹی ہدایات میں بھی ان کی تنصیب کا کہا گیا تھا، تاہم پولیس اہلکاروں نے دونوں تحریری دستاویزات دیکھنے کے باوجود اپنی کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
پولیس کی طرف سے رات اور دن بھر کی کارروائی کو مختلف میڈیا چینل براہِ راست دکھاتے رہے اس کے باوجود پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے اس واقع سے لاعلمی کا اظہار کیا اور اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر ڈالا۔ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے میاں شہباز شریف کی لاعلمی اور رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ کو ڈرامہ قرار دیا گیا۔ بعد ازاں ARY News چینل کے پروگرام کھرا سچ میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ صوبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نہ صرف اس واقعہ سے باخبر تھے بلکہ انہی کے احکامات کی روشنی میں موقعہ پر موجود پولیس اہلکاروں نے نہتے شہریوں کے خلاف فائرنگ کی۔ وزیر اعلیٰ اور دیگر حکومتی ذمہ داران کی طرف سے جھوٹے بیانات سے پردہ اٹھانے کے لیے ARY News کے اینکر مبشر لقمان نے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف، وزیر قانون رانا ثناء اللہ، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ، سی سی پی او لاہور شفیق گجر، ڈی سی او لاہور، ڈی آئی جی لاہور اور پنجاب کے ہوم سیکریٹری کے مابین 17 جون 2014ء کی صبح ہونے والی ٹیلیفونک کالز کا ریکارڈ ٹی وی پر پیش کر دیا۔
لائیو میڈیا کوریج
15 گھنٹے سے ایک سفاکانہ واقعہ کی خبر لمحہ با لمحہ الیکٹرانک میڈیا ٹی وی سکرین پر دکھاتا رہا اور حکمرانوں کو اس کی کوئی خبر نہیں۔
تفتیشی عمل
پولیس کی طرف سے مسخ شواہد
پولیس نے حملے کے دوران ہر قسم کے شواہد ضائع کرنے کی پوری کوشش کی۔ کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے توڑے۔ تاہم کم و بیش تمام ٹی وی چینلز کے لائیو کوریج کرنے کی بناء پر بہت سے شواہد ضائع ہونے سے بچ گئے۔
رانا ثناء اللہ کی وضاحتیں
جوڈیشل کمیشن
وزیراعلی کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کا قیام
منہاج القرآن کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کا رد
جوڈیشل کمیشن کا محدود دائرہ کار
جوڈیشل کمیشن میں پیشیاں
وزراء کی معطلی
سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں مورخہ 21 جون کو وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبائی وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ سے استعفی لے لیا۔ اسی طرح پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ [2]
منہاج القرآن کے مطالبات
منہاج القرآن کی ایف آئی آر
ڈائریکٹر ایڈمن جواد حامد کی مدعیت میں تھانہ فیصل ٹاون میں ایف آئی آر کے اندراج کے لئے درخواست دی گئی، لیکن وہ درج نہ کی گئی۔ بعد ازاں سیشن کورٹ میں ایف آئی آر کی درخواست دی گئی، جو کورٹ کی طرف سے منظور کر لی گئی۔
مذمت / احتجاج
سیاسی و مذہبی جماعتوں کی مذمت
سانحہ ماڈل ٹاون کے ردعمل میں کم و بیش پاکستان کی تمام جماعتوں نے نہ صرف بھرپور مذمت کی بلکہ ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کیا۔
- پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جناح ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی، بعد ازاں مرکزی سیکرٹریٹ آ کر مرکزی قیادت سے اس سانحہ پر تعزیت کی اور وزیر اعلی پنجاب سے استعفی کا مطالبہ کیا۔
- پاکستان پیپلز پارٹی کے شوکت بسرا نے وزیر اعلی پنجاب سے استعفی کا مطالبہ کیا۔
پاکستان بھر میں احتجاج
- اس سانحہ کی مذمت کے لئے پاکستان بھر کے شہروں میں پاکستان عوامی تحریک سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے پرامن احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔
بیرون ملک احتجاج
- بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی مذمت کے لئے اپنے ملکوں میں پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کئے اور سفیروں کو قراردادِ مذمت پیش کیں۔
کُل جماعتی کانفرنس
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مذمت پر مبنی کل جماعتی کانفرنس مورخہ 29 جولائی کو تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پہ منعقد ہوئی، جس میں مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے غیرجانبدار تفتیش کے مطالبہ کیا گیا۔ [3]
مشترکہ اعلامیہ میں وزیراعلیٰ پنجاب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ مطالبے میں کہا گیا کہ اگر وہ ازخود مستعفی نہ ہوں تو صدرمملکت اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے انھیں عہدے سے ہٹا دیں۔ [4]
حوالہ جات