"فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ" کے نسخوں کے درمیان فرق

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
سطر 30: سطر 30:
  
 
== شعبہ جاتی ارتقاء ==
 
== شعبہ جاتی ارتقاء ==
ابتداً شعبہ تحقیق و تدوین قائم ہوا جس میں مختصر وقت کےلئے جامعہ منہاج القرآن (شریعہ کالج) کے لیکچرر محترم محمد صدیق قمر، علامہ ظہور الہٰی، علامہ محمد امین مدنی اور پروفیسر مستنیر علوی نے جز وقتی خدمات سرانجام دیں۔ بعد ازاں دسمبر 87ء میں قائد محترم نے محترم علی اکبر قادری صاحب کی پہلے باقاعدہ ریسرچ سکالر کے طور پر تقرری فرمائی۔ علی اکبر قادری صاحب اس وقت پنجاب یونیورسٹی اورینٹیل کالج میں ریگولر ایم ے عربی کر رہے تھے اور انہوں نے ملکی سطح کے متعدد تحریری مقابلوں میں اول پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔ ان کی صلاحیت، دلچسپی اور مشن سے محبت کو دیکھتے ہوئے قائد محترم نے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو مکمل طور پر ان کے سپرد کر دیا جبکہ ریسرچ کے پہلے باقاعدہ ڈائریکٹر محترم رانا جاوید مجید قادری (اس وقت کے چیف ایڈیٹر مجلہ) مقرر ہوئی۔  
+
ابتداً شعبہ تحقیق و تدوین قائم ہوا جس میں مختصر وقت کےلئے جامعہ منہاج القرآن (شریعہ کالج) کے لیکچرر محترم محمد صدیق قمر، علامہ ظہور الہٰی، علامہ محمد امین مدنی اور پروفیسر مستنیر علوی نے جز وقتی خدمات سرانجام دیں۔ بعد ازاں دسمبر [[1987ء]] میں [[قائد محترم]] نے [[ڈاکٹر علی اکبر الازھری]] صاحب کی پہلے باقاعدہ ریسرچ سکالر کے طور پر تقرری فرمائی۔ ڈاکٹر علی اکبر الازھری صاحب اس وقت پنجاب یونیورسٹی اورینٹیل کالج میں ریگولر ایم ے عربی کر رہے تھے اور انہوں نے ملکی سطح کے متعدد تحریری مقابلوں میں اول پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔ ان کی صلاحیت، دلچسپی اور مشن سے محبت کو دیکھتے ہوئے قائد محترم نے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو مکمل طور پر ان کے سپرد کر دیا جبکہ ریسرچ کے پہلے باقاعدہ ڈائریکٹر محترم رانا جاوید مجید قادری (اس وقت کے چیف ایڈیٹر مجلہ) مقرر ہوئی۔  
  
 
[[1988ء]] کا سال تحریک منہاج القرآن کی ملک گیر شہرت اور بیرون ملک سرگرمیوں میں انقلابی پیش رفت کا سال تھا چنانچہ اسی سال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے بھی درج ذیل شعبہ جات قائم ہوئے۔
 
[[1988ء]] کا سال تحریک منہاج القرآن کی ملک گیر شہرت اور بیرون ملک سرگرمیوں میں انقلابی پیش رفت کا سال تھا چنانچہ اسی سال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے بھی درج ذیل شعبہ جات قائم ہوئے۔

تجدید بمطابق 15:56، 21 اپريل 2009ء

فریدِ ملّت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (FMRi)

تحریکِ منہاجُ القرآن کتاب و سنت کی اِنقلابی فکر پر مبنی ایک عالم گیر تجدیدی تحریک ہے ۔ کسی بھی علمی و فکری اور اِنقلابی تحریک کی پہچان اُس کا علمی سرمایہ ہوتا ہے ۔ ایک ہمہ گیر تحریک کے تقاضوں کی تکمیل کےلیے دیگر نظامت ہائے کار اور فورمز کے ساتھ ساتھ نظامتِ تحقیق و تبلیغات کا قیام بھی ابتداء عمل میں لایا گیا، جس کا مقصد ملک بھر میں اِسلامی تحقیقی مراکز اور لائبریریوں کا وسیع تر جال بچھانا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ علم کے زیور سے آراستہ ہوں اور بیداریء شعور کا جو منشور تحریک منہاج القرآن لے کر اُٹھی ہے، وہ شرمندہء تعبیر ہو۔ اِس کی بنیادی ذِمّہ داریوں میں عوام الناس اور خواص کے مختلف طبقات کےلیے لٹریچر کی تیاری، دیگر پبلک لائبریریوں میں تحریکی کتب و کیسٹس پہنچانا اور تحقیقی ذوق رکھنے والے وابستگانِ تحریک اور عامۃ الناس کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تاکہ ان کی تحقیقی سرگرمیوں کو منظم شکل دی جاسکے۔ اِس نظامت کے زیرِ اِہتمام ملک کے طول و عرض میں قائم اداروں کے علاوہ صرف مرکزی سطح پر چھ لائبریریاں اور فریدِ ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ (FMRi) مصروفِ عمل ہیں۔


تحریک منہاج القرآن کا طرہء اِمتیاز یہ ہے کہ یہ اول دن سے ہی تحریر و تقریر دونوں ذرائع کو بروئے کار لا کر تبلیغِ دین کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے ۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی نے جب قرآن و سنت کی فکر پر مبنی تحریک کا آغاز کیا تو ساتھ ہی علمی و تحقیقی کام بھی شروع کر دیا۔ سب سے پہلے آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا وہ ”نظام مصطفی .... ایک اِنقلاب آفریں پیغام“ کتاب تھی۔ رفتہ رفتہ تحریک کا کام بڑھتا گیا۔ آپ نے لاہور شادمان کی رحمانیہ مسجد میں درسِ قرآن سے دعوت کے فروغ کا سلسلہ شروع کیا۔ آغاز میں یہ دروسِ قرآن چھپتے رہے ۔ کتب کی ترتیب و تدوین کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

1981ء میں آپ کا پہلا اور باقاعدہ علمی و تحقیقی شاہکار کتاب ”تسمیۃ القرآن“ منظر عام پر آئی۔

1982ء میں ”سورۃ فاتحہ اور تعمیرِ شخصیت“ کے علاوہ آپ کی فکر انگیز کتاب اسلامی فلسفہ زندگی یکے بعد دیگرے شائع ہوئیں اور اہل علم و فکر کے وسیع حلقے کو متاثر کیا۔

1985ء میں آپ کی کتاب ”اَجزائے اِیمان“ شائع ہوئی جو آپ کے خطبات جمعہ کا مرتبہ مجموعہ تھا اور اسے بعد ازاں ”اَرکانِ ایمان“ سے موسوم کیا گیا۔ ”فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے“ ایمان اور اسلام اور چند انگریزی کتابچے زیور طبع سے آراستہ ہوئے۔ علاوہ ازیں ملک کے طول و عرض میں شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے خطبات، دروس اور لیکچرز کا سلسلہ بھی بفضلہ تعالیٰ کافی بڑھ چکا تھا۔ اِس تمام علمی و تحقیقی اور فکری مواد کی مستقل بنیادوں پر مطبوعہ صورت میں اِشاعت کےلیے بانیء تحریک کی زیرِ نگرانی مؤرّخہ 7 دسمبر 1987ء کو منہاج القرآن رائٹرز پینل کی بنیاد رکھی گئی، اور اس علمی و تحقیقی مرکز کو بانی تحریک کے والدِ گرامی حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری سے موسوم کیا گیا۔

مقاصدِ قیام

فریدِ ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ کے قیام کے وقت اِس کے درج ذیل مقاصد متعین کیے گئے:

  • اِسلام کے حقیقی پیغام کی تبلیغ و اِشاعت
  • تحریکِ منہاجُ القرآن کی فکر کی ترویج
  • نئی نسل کو بے یقینی، اَخلاقی زوال اور غیر مسلم اَقوام کی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کےلیے اِسلامی تعلیمات کی جدید ضروریات کے مطابق اشاعت
  • مذہبی اَذہان کو علم کے میدان میں ہونے والی جدید تحقیقات سے روشناس کرانا
  • راہِ حق سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو اپنا صحیح ملی تشخص باوَر کرانا
  • مسلم اُمّہ کو درپیش مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا
  • نوجوان نسل کو دین کی طرف راغب کرنا
  • تحریکِ منہاجُ القرآن سے وابستہ اَفراد کی علمی و فکری تربیت کا نظام وضع کرنا اور تربیتی نصاب مدوّن کرنا
  • تحریک منہاج القرآن سے وابستہ تمام اہلِ قلم کو مجتمع کرنا اور ان کی صلاحیتوں کو تحریک کے پلیٹ فارم پر جہاد بالقلم کےلیے بروئے کار لانا
  • ملکی و بین الاقوامی سطح پر تمام اہلِ قلم تک تحریک کی دعوت بذریعہ قلم پہنچانا اور اُنہیں مصطفوی مشن کے اِس پلیٹ فارم پر جمع کرنا
  • تحریک کی دعوت بذریعہ قلم پھیلانے کےلیے اس کے اَساسی و فکری موضوعات پر مضامین اور تحقیقی مقالات تیار کرنا اور انہیں ذرائع اَبلاغ تک پہنچانا
  • تحریک کی دعوت بذریعہ قلم پھیلانے کےلیے فکری اور علمی موضوعات پر کتب تصنیف کرنا اور تحقیقی ضروریات پورا کرنا
  • قائد تحریک کے مختلف دینی، سماجی، اقتصادی، سیاسی و سائنسی، اور اخلاقی و روحانی موضوعات پر فکر انگیز ایمان افروز خطابات کو کتابی صورت میں مرتب کروانا
  • رِیسرچ اسکالرز سے مختلف موضوعات پر تحقیقی مواد تیار کروانا اور اسے شائع کروانا

شعبہ جاتی ارتقاء

ابتداً شعبہ تحقیق و تدوین قائم ہوا جس میں مختصر وقت کےلئے جامعہ منہاج القرآن (شریعہ کالج) کے لیکچرر محترم محمد صدیق قمر، علامہ ظہور الہٰی، علامہ محمد امین مدنی اور پروفیسر مستنیر علوی نے جز وقتی خدمات سرانجام دیں۔ بعد ازاں دسمبر 1987ء میں قائد محترم نے ڈاکٹر علی اکبر الازھری صاحب کی پہلے باقاعدہ ریسرچ سکالر کے طور پر تقرری فرمائی۔ ڈاکٹر علی اکبر الازھری صاحب اس وقت پنجاب یونیورسٹی اورینٹیل کالج میں ریگولر ایم ے عربی کر رہے تھے اور انہوں نے ملکی سطح کے متعدد تحریری مقابلوں میں اول پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔ ان کی صلاحیت، دلچسپی اور مشن سے محبت کو دیکھتے ہوئے قائد محترم نے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو مکمل طور پر ان کے سپرد کر دیا جبکہ ریسرچ کے پہلے باقاعدہ ڈائریکٹر محترم رانا جاوید مجید قادری (اس وقت کے چیف ایڈیٹر مجلہ) مقرر ہوئی۔

1988ء کا سال تحریک منہاج القرآن کی ملک گیر شہرت اور بیرون ملک سرگرمیوں میں انقلابی پیش رفت کا سال تھا چنانچہ اسی سال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے بھی درج ذیل شعبہ جات قائم ہوئے۔

  • 1-لائبریری
  • 2-شعبہ نقل نویسی
  • 3-شعبہ تحقیق و تدوین
  • 4-شعبہ تصنیف و تالیف
  • 5-شعبہ تراجم
  • 6-شعبہ کتابت و ڈیزائننگ

1988ء سے 2000ء تک FMRi میں جن حضرات نے ڈائریکٹر/ انچارج کے طور پر خدمات سرانجام دیں ان کے اسمائے گرامی بالترتیب یہ ہیں۔

  • 1-رانا جاوید مجید قادری
  • 2-علی اکبر قادری
  • 3-پروفیسر محمد اشرف چوہدری
  • 4-پروفیسر محمد رفیق نقشبندی
  • 5-ڈاکٹر نعیم انور نعمانی
  • 6-ریاض حسین چودھری
  • 7-ناصر اقبال ایڈووکیٹ

2000ء میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو وسعت دے دی گئی اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو لائبریری سمیت سیکرٹریٹ کی مرکزی عمارت سے صفہ بلاک جامع منہاج القرآن کی بیسمنٹ میں منتقل کردیا گیا جہاں ایک شاندار لائبریری ہال اور درج ذیل تین شعبوں کا اضافہ ہوا۔

  • شعبہ کمپوزنگ
  • شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی
  • شعبہ ادبیات

انسٹی ٹیوٹ کی یہاں منتقلی کے بعد حسب گنجائش مختلف شعبوں میں پہلے سے زیادہ ساتھیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس دوران FMRi کے ڈائریکٹر محترم عبدالعزیز (ر) سکوارڈن لیڈر اور بعد ازاں محترم قمر زمان شیخ صاحب رہے۔ اسی عرصہ میں محترم طاہر حمید تنولی نے بھی اپنی خدمات انسٹی ٹیوٹ کےلئے پیش کر دیں۔ قبل ازیں وہ سرحد میں تحریک کے نوجوان رہنما اور صوبائی ناظم تحریک جیسے مرکزی عہدوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمت کر رہے تھی۔ تنولی صاحب نے چونکہ قیام پشاور کے دوران بھی ”قرآنی فلسفہ انقلاب“ جیسے گراں قدر خطابات کو مرتب کر کے کتابی شکل دی تھی علاوہ ازیں ”فرمودات قائد“ ، ”عرفان القرآن کے فن محاسن“ اور ”من بولتا ہے“ جیسی کتب بھی مرتب کی تھیں ان کی ان خدمات، صلاحیت اور کمٹمنٹ کی بنیاد پر قائد محترم نے انہیں ڈپٹی ڈائریکٹر سے 2003ء میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں تفویض کر دیں جنہیں تاحال وہ بحسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔

حال ہی میں اس شعبے میں محترم ڈاکٹر کرامت اللہ صاحب (اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فراغت کے بعد) تعینات ہوئے ہیں جو جزوقتی تدریس کے ساتھ ساتھ ریسرچ ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی اور ناصر اقبال ایڈووکیٹ تحقیقی اور انتظامی امور میں ان کی معاونت کر رہے ہیں۔

ان تمہیدی سطور کے بعد اب آیئے انسٹی ٹیوٹ کے شعبوں کی بتدریج کارکردگی اور احباب کی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں۔