"سید احمد سعید کاظمی، علامہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
م
م
سطر 2: سطر 2:
  
 
[[تصویر:ahmadsaeed.jpg|left|350px]]
 
[[تصویر:ahmadsaeed.jpg|left|350px]]
غزالی زماں ، رازی دوراں ،حضرت علامہ سیداحمد سعید شاہ صاحب کاظمی  بیک وقت شیخ التفسیر ، شیخ الحدیث ، شیخ الفقہ ، عظیم ترین محقق ، مدقق، روحانی پیشوا تھے آپ  کا سلسلہ نسب سّیدنا امام موسٰی کا ظم علیہ رحمتہ القادر سے منسلک ہے۔ آپ ۱۹۱۳ء کو شہرامروھہ میں حضرت سید محمد مختار کاظمی  کے ہاں پیدا ہوئے۔ تعلیم وتربیت کی تکمیل برادرِ معظم حضرت علامہ  سید محمد خلیل کا ظمی محدث امروہی  سے کی  اورسولہ سال کی عمر میں سندفراغت حاصل کی ا نہیں کے دست حق پر سلسلہ چشتیہ صابر یہ میں بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت حاصل کی۔
+
غزالی زماں، رازی دوراں، حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی  بیک وقت شیخ التفسیر، شیخ الحدیث، شیخ الفقہ، عظیم ترین محقق، مدقق اور روحانی پیشوا تھے۔ آپ  کا سلسلہ نسب سیدنا امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے منسلک ہے۔ آپ 1913ء کو شہر امروھہ میں حضرت سید محمد مختار کاظمی  کے ہاں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت کی تکمیل برادرِ معظم حضرت علامہ  سید محمد خلیل کا ظمی محدث امروہی  سے کی  اور سولہ سال کی عمر میں سند فراغت حاصل کی۔ انہی کے دست حق پر سلسلہ چشتیہ صابر یہ میں بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت حاصل کی۔
  
آپ نے تدریس کا آغاز جامعہ نعمانیہ لاہور سے کیا  بعد ازاں 1931ء میں امروھہ مدرسہ محمد یہ میں چار سال تدریس فرمائی۔ ۱۹۳۵ءکے اوائل میں ملتان تشریف لائے۔ مسجد حافظ فتخ شیر بیرون لوہاری دروازہ میں درس قرآن و حدیث کاآغاز کیا۔ جو۱۸ سال کے عرصہ میں مکمل ہوا۔ ۱۹۴۴ء میں ملتان کے وسط میں زمین خرید کر مدرسہ انوارا لعلوم قائم کیا ۔ جس میں اب تک اس مدرسہ سے سینکڑوں طلبہ علوم اسلامیہ کی تکمیل کرکے ملک اور بیرون ملک دین متین کی خدمت سرانجام دے رہےہیں۔ حضرت علامہ کا ظمی  نے برصیغر کی تقسیم اور مسلمان کیلئے علیحدہ مملکت کے قیام کے لئے گراں خدمات سر انجام دیں۔ قیام پاکستان کی توثیق کیلئے بنارس سنی کا نفرنس میں بھر یور طریقے سے شرکت کی -
+
آپ نے تدریس کا آغاز جامعہ نعمانیہ لاہور سے کیا، بعد ازاں 1931ء میں امروھہ مدرسہ محمد یہ میں چار سال تدریس فرمائی۔ 1935ء کے اوائل میں ملتان تشریف لائے۔ مسجد حافظ فتح شیر بیرون لوہاری دروازہ میں درس قرآن و حدیث کاآغاز کیا، جو 18 سال تک جاری رہا۔ 1944ء میں ملتان کے وسط میں زمین خرید کر مدرسہ انوار العلوم قائم کیا۔ اب تک اس مدرسہ سے سیکڑوں طلبہ علوم اسلامیہ کی تکمیل کرکے ملک اور بیرون ملک دین متین کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ حضرت علامہ کا ظمی  نے برصیغر کی تقسیم اور مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کے قیام کے لئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ قیام پاکستان کی توثیق کے لئے بنارس سنی کا نفرنس میں بھی بھرپور طریقے سے شرکت کی۔
۱۹۴۸ء میں آپ نے علماء ومشائخ کا عظیم الشان کنونش منعقد کر کے جمعیت علماء پاکستان کی بنیادڈالی ۔ غازی ءِ کشمیر مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری کو صدراور حضرت علامہ کا ظمی کو ناظم اعلیٰ مقررکیا گیا ۔ ۱۹۵۳ء میں تحریک ختم نبوت میں ولولہ انگیز کر دار ادا کیا مجلس صدارت کے فرائض آپ نے سر انجام دیئے بالآ خر مرزائیوں کا غیر مسلم اقیت قرار پانا اسی تحریک کا نتیجہ ہے ایسے ہی۱۹۷۶ء میں تحریک نظام مصطفی میں آپ کا کردار نمایاں ہے۔ محکمہ اوقاف میں جامعہ اسلامیہ کے شعبہ حدیث کے لئے ۱۹۶۳ءمیں اس شعبہ  کے سر براہ کی حیثیت سے کام کیا۔
+
 
۱۹۷۸ء میں ملتان سنی کا نفرنس میں جمعیت علماء پاکستان کے ساتھ دینی فقہی امور کی بجا آوری کیلئے ایک غیر سیاسی تنظیم جماعت اہلسنت کا قیام عمل میں لایا گیا حضرت علامہ کا ظمی کو صدرمنتخب کیا گیا۔ مدارس درسِ نظامی کی اصلاح و تنظیم کیلئے آپ نے تنظیم المدارس ( اہل سنت ) پاکستان کی بنیاد رکھی جس کے آپ صدر تھے۔
+
* 1948ء میں آپ نے علماء و مشائخ کا عظیم الشان کنونش منعقد کر کے جمعیت علماء پاکستان کی بنیاد ڈالی۔ غازیءِ کشمیر مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری کو صدر اور حضرت علامہ کا ظمی کو ناظم اعلیٰ مقررکیا گیا۔
1980ء میں "مجلس رضا" کے زیر انتظام جامع مسجد نوری (ریلوے اسٹیشن، لاہور) میں عرس حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے موقع پر غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے زیر صدارت ایک تقریب میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب کے بعد حضرت غزالی زماں رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف آپ سے بغلگیر ہوئے، دستِ شفقت پھیرا، ماتھا چوما،خیریت دریافت کی بلکہ تقریب میں شرکت پر خوشی کا ظہار فرماتے ہوئے علماء و مشائخ اور شرکاء محفل سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ اس نوجوان (محمد طاہرالقادری) کا خطاب آپ نے سنا اور اسی سے ان کی قابلیت کا اندازہ بھی کرلیا ہوگا۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے والد گرامی جو خود بھی ایک معتبر عالم اور معروف طبیب تھے اور میرے دوست تھے، یہ محمد طاہرالقادری ان کے بیٹے اور تربیت یافتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو بہت ساری صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ میں نے اس نوجوان سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ میں آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے میں فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا نور رکھ دیا ہے، جو مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہے گا اور ایک عالم کو فیضیاب کرے گا۔ کاش تم بھی اس نور کو پھلتا پھولتا دیکھ سکو۔ اللہ کرے اس کے علمی، فکری اور روحانی نور سے پورا عالم اسلام اور دنیائے اہلسنت روشن و منور ہوجائے۔ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔‘‘  
+
* 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں ولولہ انگیز کر دار ادا کیا۔ مجلس صدارت کے فرائض آپ نے سر انجام دیئے۔ بالآ خر مرزائیوں کا غیر مسلم اقلیت قرار پانا اسی تحریک کا نتیجہ ہے۔
حضرت علامہ سیداحمد سعید شاہ صاحب کاظمی  نے ۷۳ سال کی عمر میں ۲۵ رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ کو روزہ افطار کرنے کے بعد داعئ اجل کو لبیک کہا اور مالک حقیقی سے جاملے ۔ ملتان کے وسیع اسپورٹس گراؤنڈ میں نمازجنازہ ہوئی جس میں لاکھوں افرادنے شرکت کی مرکزی عیدگاہ ملتان میں مدفون ہوئے ۔ آپ کا مزارپر نور زائرین کی آما جگاہے۔
+
* 1976ء میں تحریک نظام مصطفی میں آپ کا کردار نمایاں ہے۔
آپ کی تصانیف میں سے مقالات کا ظمی کے نام سے تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ البیان ترجمہ قرآن مجید، تسکین الخوا طرفی مسئلتہ الحاضر والناظر، تسبیح الرحمن عن الکذب و النقصان ، درودِتاج پراعتراضات کے جوابات، التبیان تفسیر القرآن مشہور وعام کتابیں ہیں اور یہ شائع ہوچکی ہیں۔
+
* 1963ٗء میں محکمہ اوقاف میں جامعہ اسلامیہ کے شعبہ حدیث کے لئے اس شعبہ  کے سر براہ کی حیثیت سے کام کیا۔
 +
* 1978ء میں ملتان سنی کانفرنس میں جمعیت علماء پاکستان کے ساتھ دینی فقہی امور کی بجا آوری کیلئے ایک غیر سیاسی تنظیم جماعت اہلسنت کا قیام عمل میں لایا گیا، حضرت علامہ کا ظمی کو صدر منتخب کیا گیا۔ مدارس درسِ نظامی کی اصلاح و تنظیم کے لئے آپ نے تنظیم المدارس (اہل سنت) پاکستان کی بنیاد رکھی جس کے آپ صدر تھے۔
 +
 
 +
* [[1980ء]] میں "مجلس رضا" کے زیر انتظام جامع مسجد نوری (ریلوے اسٹیشن، لاہور) میں عرس حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے موقع پر غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے زیر صدارت ایک تقریب میں [[ڈاکٹر محمد طاہرالقادری]] کے خطاب کے بعد حضرت غزالی زماں رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف آپ سے بغلگیر ہوئے، دستِ شفقت پھیرا، ماتھا چوما، خیریت دریافت کی، بلکہ تقریب میں شرکت پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے علماء و مشائخ اور شرکاء محفل سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’'’اس نوجوان (محمد طاہرالقادری) کا خطاب آپ نے سنا اور اسی سے ان کی قابلیت کا اندازہ بھی کرلیا ہوگا۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے والد گرامی (ڈاکٹر فرید الدین قادری) جو خود بھی ایک معتبر عالم اور معروف طبیب تھے اور میرے دوست تھے، یہ محمد طاہرالقادری ان کے بیٹے اور تربیت یافتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو بہت ساری صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ میں نے اس نوجوان سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ میں آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے میں فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا نور رکھ دیا ہے، جو مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہے گا اور ایک عالم کو فیضیاب کرے گا۔ کاش تم بھی اس نور کو پھلتا پھولتا دیکھ سکو۔ اللہ کرے اس کے علمی، فکری اور روحانی نور سے پورا عالم اسلام اور دنیائے اہلسنت روشن و منور ہوجائے۔ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔‘‘  
 +
 
 +
حضرت علامہ سیداحمد سعید شاہ صاحب کاظمی  نے 73 سال کی عمر میں 25 رمضان المبارک 1406ھ کو روزہ افطار کرنے کے بعد داعئ اجل کو لبیک کہا اور مالک حقیقی سے جاملے ۔ ملتان کے وسیع اسپورٹس گراؤنڈ میں نمازجنازہ ہوئی جس میں لاکھوں افرادنے شرکت کی مرکزی عیدگاہ ملتان میں مدفون ہوئے ۔ آپ کا مزارپر نور زائرین کی آماجگا ہے۔
 +
 
 +
آپ کی تصانیف میں سے مقالات کا ظمی کے نام سے تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ البیان ترجمہ قرآن مجید، تسکین الخوا طرفی مسئلتہ الحاضر والناظر، تسبیح الرحمن عن الکذب و النقصان ، درودِتاج پر اعتراضات کے جوابات، التبیان تفسیر القرآن مشہور وعام کتابیں ہیں اور یہ شائع ہوچکی ہیں۔
  
 
[[زمرہ:شخصیات]]
 
[[زمرہ:شخصیات]]

تجدید بمطابق 09:37، 4 جولائی 2010ء

از سر نو

اس مضمون کو انسائیکلوپیڈیا طرز پر از سر نو منظم انداز میں لکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ اس میں ترمیم کر کے اسے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

Ahmadsaeed.jpg

غزالی زماں، رازی دوراں، حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی بیک وقت شیخ التفسیر، شیخ الحدیث، شیخ الفقہ، عظیم ترین محقق، مدقق اور روحانی پیشوا تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب سیدنا امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے منسلک ہے۔ آپ 1913ء کو شہر امروھہ میں حضرت سید محمد مختار کاظمی  کے ہاں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت کی تکمیل برادرِ معظم حضرت علامہ سید محمد خلیل کا ظمی محدث امروہی  سے کی اور سولہ سال کی عمر میں سند فراغت حاصل کی۔ انہی کے دست حق پر سلسلہ چشتیہ صابر یہ میں بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت حاصل کی۔

آپ نے تدریس کا آغاز جامعہ نعمانیہ لاہور سے کیا، بعد ازاں 1931ء میں امروھہ مدرسہ محمد یہ میں چار سال تدریس فرمائی۔ 1935ء کے اوائل میں ملتان تشریف لائے۔ مسجد حافظ فتح شیر بیرون لوہاری دروازہ میں درس قرآن و حدیث کاآغاز کیا، جو 18 سال تک جاری رہا۔ 1944ء میں ملتان کے وسط میں زمین خرید کر مدرسہ انوار العلوم قائم کیا۔ اب تک اس مدرسہ سے سیکڑوں طلبہ علوم اسلامیہ کی تکمیل کرکے ملک اور بیرون ملک دین متین کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ حضرت علامہ کا ظمی  نے برصیغر کی تقسیم اور مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کے قیام کے لئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ قیام پاکستان کی توثیق کے لئے بنارس سنی کا نفرنس میں بھی بھرپور طریقے سے شرکت کی۔

  • 1948ء میں آپ نے علماء و مشائخ کا عظیم الشان کنونش منعقد کر کے جمعیت علماء پاکستان کی بنیاد ڈالی۔ غازیءِ کشمیر مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری کو صدر اور حضرت علامہ کا ظمی کو ناظم اعلیٰ مقررکیا گیا۔
  • 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں ولولہ انگیز کر دار ادا کیا۔ مجلس صدارت کے فرائض آپ نے سر انجام دیئے۔ بالآ خر مرزائیوں کا غیر مسلم اقلیت قرار پانا اسی تحریک کا نتیجہ ہے۔
  • 1976ء میں تحریک نظام مصطفی میں آپ کا کردار نمایاں ہے۔
  • 1963ٗء میں محکمہ اوقاف میں جامعہ اسلامیہ کے شعبہ حدیث کے لئے اس شعبہ کے سر براہ کی حیثیت سے کام کیا۔
  • 1978ء میں ملتان سنی کانفرنس میں جمعیت علماء پاکستان کے ساتھ دینی فقہی امور کی بجا آوری کیلئے ایک غیر سیاسی تنظیم جماعت اہلسنت کا قیام عمل میں لایا گیا، حضرت علامہ کا ظمی کو صدر منتخب کیا گیا۔ مدارس درسِ نظامی کی اصلاح و تنظیم کے لئے آپ نے تنظیم المدارس (اہل سنت) پاکستان کی بنیاد رکھی جس کے آپ صدر تھے۔
  • 1980ء میں "مجلس رضا" کے زیر انتظام جامع مسجد نوری (ریلوے اسٹیشن، لاہور) میں عرس حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے موقع پر غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے زیر صدارت ایک تقریب میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب کے بعد حضرت غزالی زماں رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف آپ سے بغلگیر ہوئے، دستِ شفقت پھیرا، ماتھا چوما، خیریت دریافت کی، بلکہ تقریب میں شرکت پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے علماء و مشائخ اور شرکاء محفل سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’'’اس نوجوان (محمد طاہرالقادری) کا خطاب آپ نے سنا اور اسی سے ان کی قابلیت کا اندازہ بھی کرلیا ہوگا۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے والد گرامی (ڈاکٹر فرید الدین قادری) جو خود بھی ایک معتبر عالم اور معروف طبیب تھے اور میرے دوست تھے، یہ محمد طاہرالقادری ان کے بیٹے اور تربیت یافتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو بہت ساری صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ میں نے اس نوجوان سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ میں آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے میں فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا نور رکھ دیا ہے، جو مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہے گا اور ایک عالم کو فیضیاب کرے گا۔ کاش تم بھی اس نور کو پھلتا پھولتا دیکھ سکو۔ اللہ کرے اس کے علمی، فکری اور روحانی نور سے پورا عالم اسلام اور دنیائے اہلسنت روشن و منور ہوجائے۔ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔‘‘

حضرت علامہ سیداحمد سعید شاہ صاحب کاظمی نے 73 سال کی عمر میں 25 رمضان المبارک 1406ھ کو روزہ افطار کرنے کے بعد داعئ اجل کو لبیک کہا اور مالک حقیقی سے جاملے ۔ ملتان کے وسیع اسپورٹس گراؤنڈ میں نمازجنازہ ہوئی جس میں لاکھوں افرادنے شرکت کی مرکزی عیدگاہ ملتان میں مدفون ہوئے ۔ آپ کا مزارپر نور زائرین کی آماجگا ہے۔

آپ کی تصانیف میں سے مقالات کا ظمی کے نام سے تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ البیان ترجمہ قرآن مجید، تسکین الخوا طرفی مسئلتہ الحاضر والناظر، تسبیح الرحمن عن الکذب و النقصان ، درودِتاج پر اعتراضات کے جوابات، التبیان تفسیر القرآن مشہور وعام کتابیں ہیں اور یہ شائع ہوچکی ہیں۔