عرفان القرآن

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
نظرثانی بتاریخ 19:26، 13 اپريل 2009ء از منہاجین (تبادلۂ خیال | شراکت) (←‏نیا صفحہ)
(فرق) ←سابقہ تدوین | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigation Jump to search

قرآن حکیم اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جو اُس نے ہمیں اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہمیں عطا فرمائی۔ پچھلی صدیوں میں اُردو زبان میں قرآن حکیم کا کوئی ایسا ترجمہ نہیں کیا گیا جو سلیس، جامع اور مفصل ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کے جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عصر حاضر کی ارتقائی علمی سطحوں کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو۔ ان پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے قرآن حکیم کا ایسا ترجمہ پیش کیا ہے جو اردو بولنے والی دنیا میں ہر خاص و عام اور مکاتب فکر میں یکساں مقبول ہے۔ یہ نہ صرف ہر ذہنی سطح کیلئے یکساں طور پر قابل فہم ہے بلکہ موجودہ دور کی سائنسی تحقیق، قرآنی جغرافیہ اور قرآن پاک میں مذکور مختلف اقوام کے تاریخی پس منظر کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ سلیس، رواں، بامحاورہ یہ ترجمہ قارئین کی خدمت میں روحانی حلاوت، ادبِ الوہیت اور ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفہ ہائے گراں قدر بھی پیش کرتا ہے۔

عرفان القرآن کی گوناگوں خوبیوں کی چند مثالیں کچھ یوں ہیں:

ادبِ اُلوہیت اور ادبِ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرآن حکیم کی تلاوت کا پہلا مقصد اﷲ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ادب اور محبت پر مبنی تعلق کا قیام اور استحکام ہے۔ ’’عرفان القرآن‘‘ میں اس پہلو کو نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔ قاری اسے پڑھتے ہوئے ادب و محبت کی ایسی کیفیات سے سرشار ہو جاتا ہے کہ بارگاہِ اُلوہیت اور بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اس کے رگ و پے میں اثر پذیر ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل آیت مبارکہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْ لِقَآئَ رَبِّہ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہ اَحَدًاo (الکہف، 18 : 110)

’’فرما دیجئے: میں تو صرف (بخلقتِ ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے، ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلام الٰہی اتر سکے)، وہ یہ کہ تمہارا معبود ، معبود یکتا ہی ہے، پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرےo‘‘

تفسیری تقاضوں اور ہر ذہنی سطح کے ساتھ ہم آہنگی

’’عرفان القرآن‘‘ میں آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے ان کے تفسیری پہلو کو بطورِ خاص پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ’’عرفان القرآن‘‘ ایسی تفسیری شان کا حامل ہے کہ آیات کے مفاہیم کو ہر ذہنی سطح کے قاری کے لئے یکساں طور پرآسان بنادیاگیا ہے۔ مثلاً

اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیo (طہٰ، 20 : 5)

’’(وہ) نہایت رحمت والا (ہے) جو عرش (یعنی جملہ نظام ہائے کائنات کے اِقتدار) پر متمکن ہوگیاo‘‘

سلاست، روانی اور بامحاورہ زبان

’’عرفان القرآن‘‘ ادبی خصوصیات کے حوالے سے بھی نمایاں اور امتیازی مقام کا حامل ہے۔ اپنے اندازِ بیان کی سلاست، روانی اور زبان کے بامحاورہ ہونے کے سبب سے مشکل ترین مفاہیم کو بھی قاری کے لیے قابل فہم بنادیتا ہے۔

اِنَّکَ کُنْتَ بِنَا بَصِیْرًاo قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَکَ یٰمُوْسٰیo (طہٰ،20 : 35، 36)

’’بے شک تو ہمیں (سب حالات کے تناظر میں) خوب دیکھنے والا ہےo (اﷲ نے) ارشاد فرمایا: اے موسیٰ! تمہاری ہر مانگ تمہیں عطا کر دیo‘‘

سائنسی تحقیق اور نظری جدت

دورِ جدید کی سائنسی تحقیقات اور علمی ترقی نے یہ رحجان پیدا کردیا ہے کہ آج کا ذہن ہر بات کو سائنسی اور علمی بنیاد پر پرکھنا چاہتا ہے۔ ’’عرفان القرآن‘‘ میں دورِ جدید کے اس تقاضے کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے جدید سائنسی تحقیقات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

یٰاَ یُّہَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلیٰ اَجًلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّکُمْ وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا وَتَرَی الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَا اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَہِیْجٍo (الحج، 22 : 5)

’’اے لوگو! اگر تمہیں (مرنے کے بعد) جی اٹھنے میں شک ہے تو (اپنی تخلیق و ارتقاء پر غور کرو) کہ ہم نے تمہاری تخلیق (کی کیمیائی ابتداء) مٹی سے کی، پھر (حیاتیاتی ابتداء) نطفہ (ایک تولیدی قطرہ ) سے پھر (رحم مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلق وجود سے پھر ایک (ایسے) لوتھڑے سے جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، جس میں بعض اعضاء کی ابتدائی تخلیق نمایاں ہو چکی ہے اور بعض (اعضاء) کی تخلیق ابھی عمل میں نہیں آئی تاکہ ہم تمہارے لئے (اپنی قدرت اور اپنے کلام کی حقانیت) ظاہر کر دیں اور ہم جسے چاہتے ہیں رحموں میں مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر ہم تمہیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ اور تم میں سے وہ بھی ہیں جو (جلد) وفات پا جاتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نہایت ناکارہ عمر تک لوٹائے جاتے ہیں تاکہ وہ (شخص یہ منظر بھی دیکھ لے کہ) سب کچھ جان لینے کے بعد (اب پھر) کچھ (بھی) نہیں جانتا اور تو زمین کو بالکل خشک (مردہ) دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو اس میں تازگی و شادابی کی جنبش آجاتی ہے اور وہ پھولنے بڑھنے لگتی ہے اور خوشنما نباتات میں سے ہر نوع کے جوڑے اگاتی ہےo‘‘

روحانی حلاوت کا مظہر

’’عرفان القرآن‘‘ میں آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے اس امر کا بطورِ خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ قاری ان روحانی حلاوتوں اور کیفیات سے بھی مستفید ہو جو آیات میں مذکور انبیاء و صالحین کے تذکار میںموجود ہیں۔

فَاسْتَجَبْنَا لَہ وَوَھَبْنَا لَہ یَحْیٰی وَ اَصْلَحْنَا لَہ زَوْجَہ اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًا وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo (الانبیاء، 21 : 90)

’’تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں یحییٰ عطا فرمایا اور ان کی خاطر ان کی زوجہ کو (بھی) درست (قابلِ اولاد) بنادیا بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھےo‘‘

قرآنی جغرافیہ وسابقہ اقوام کا پس منظر

’’عرفان القرآن‘‘ کا یہ امتیازی پہلو ہے کہ جہاں بھی کسی سابقہ قوم کا تذکرہ ہوا ہے تفسیری انداز میں اس قوم کی جغرافیائی و تاریخی تفصیل کو بھی بیان کردیا گیا ہے۔ جس سے قاری نہ صرف اس آیت کے مفہوم سے آشنا ہوتا ہے بلکہ اس میں مذکورہ قوم کے بارے میں بھی تفاصیل جان لیتا ہے اور اس کے لئے اسے کسی تفسیری حوالے کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِی بٰرَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَo (الانبیاء، 21: 71)

’’اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر (عراق سے) اس سرزمین (شام) کی طرف لے گئے جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیںo‘‘

’’عرفان القرآن‘‘ بے شمار خوبیوں کا مرقع ہے، ہم نے صرف چند ایک کے بیان پر اِکتفاء کیا ہے۔ اِن سے واضح ہو جاتا ہے کہ آج کے دور میں یہ دیگر تمام تراجم پر فوقیت رکھتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ رُجوع اِلی القرآن کی اِس تحریک کا سرگرم رُکن بنتے ہوئے خود بھی قرآن حکیم سمجھ کر پڑھیں اور دوسروں کو بھی دعوت دیں اور زیادہ سے زیادہ ’’عرفان القرآن‘‘ کا پیغام عام کریں۔

علماء کے نزدیک عرفان القرآن کی حیثیت

ملاحظہ ہو عرفان القرآن کی تقریبِ رُونمائی میں مشاہیر کے تبصرے (ویڈیو کلپس کی صورت میں)

http://www.irfan-ul-quran.com/quran/index.php?tid=14

http://www.irfan-ul-quran.com/quran/index.php?tid=16