"سانحۂ ماڈل ٹاؤن" کے نسخوں کے درمیان فرق

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
سطر 2: سطر 2:
  
 
==شہداء کے نام==
 
==شہداء کے نام==
*شازیہ مرتضیٰ زوجہ غلام مرتضیٰ۔ باغبانپورہ، لاہور، پاکستان۔ عمر 28 سال.
+
#شازیہ مرتضیٰ زوجہ غلام مرتضیٰ۔ باغبانپورہ، لاہور، پاکستان۔ عمر 28 سال.
*تنزیلہ امجد زوجہ محمد امجد۔  باغبانپورہ، لاہور، پاکستان۔ عمر 30 سال.
+
#تنزیلہ امجد زوجہ محمد امجد۔  باغبانپورہ، لاہور، پاکستان۔ عمر 30 سال.
*محمد عمر صدیق ولد میاں محمد صدیق۔ کوٹ لکھپت، لاہور، پاکستان۔ عمر 19 سال۔
+
#محمد عمر صدیق ولد میاں محمد صدیق۔ کوٹ لکھپت، لاہور، پاکستان۔ عمر 19 سال۔
*صفدر حسین ولد علی محمد۔ شیخوپورہ، پاکسان۔ عمر 35 سال
+
#صفدر حسین ولد علی محمد۔ شیخوپورہ، پاکسان۔ عمر 35 سال
*عاصم حسین ولد معراج دین۔ گاؤں مناواں، لاہور، پاکستان۔ عمر 22 سال۔
+
#عاصم حسین ولد معراج دین۔ گاؤں مناواں، لاہور، پاکستان۔ عمر 22 سال۔
*غلام رسول ولد محمد بخش۔ تاج پورہ سکیم، لاہور، پاکستان۔ عمر 56 سال۔
+
#غلام رسول ولد محمد بخش۔ تاج پورہ سکیم، لاہور، پاکستان۔ عمر 56 سال۔
*محمد اقبال ولد خیر دین۔ چونگی امرسدھو، لاہور، پاکستان۔ عمر 42 سال۔
+
#محمد اقبال ولد خیر دین۔ چونگی امرسدھو، لاہور، پاکستان۔ عمر 42 سال۔
*محمد رضوان خان ولد محمد خان۔ چکوال، پاکستان۔ عمر۔۔۔۔۔
+
#محمد رضوان خان ولد محمد خان۔ چکوال، پاکستان۔ عمر۔۔۔۔۔
*خاور نوید رانجھا ولد محمد صدیق (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)۔ کوٹ مومن، سرگودھا، پاکستان۔ عمر ۔۔۔۔۔
+
#خاور نوید رانجھا ولد محمد صدیق (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)۔ کوٹ مومن، سرگودھا، پاکستان۔ عمر ۔۔۔۔۔
*محمد شہباز ولد اظہر حسین۔ مریدکے، پاکستان۔ عمر 17 سال۔
+
#محمد شہباز ولد اظہر حسین۔ مریدکے، پاکستان۔ عمر 17 سال۔
  
 
==حکومتی موقف اور غلط بیانی==
 
==حکومتی موقف اور غلط بیانی==
سطر 18: سطر 18:
  
 
پولیس کی طرف سے رات اور دن بھر کی کارروائی کو مختلف میڈیا چینل براہِ راست دکھاتے رہے اس کے باوجود پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے اس واقع سے لاعلمی کا اظہار کیا اور اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر ڈالا۔ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے میاں شہباز شریف کی لاعلمی اور رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ کو ڈرامہ قرار دیا گیا۔ بعد ازاں ARY News چینل کے پروگرام کھرا سچ میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ صوبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نہ صرف اس واقعہ سے باخبر تھے بلکہ انہی کے احکامات کی روشنی میں موقعہ پر موجود پولیس اہلکاروں نے نہتے شہریوں کے خلاف فائرنگ کی۔ وزیر اعلیٰ اور دیگر حکومتی ذمہ داران کی طرف سے جھوٹے بیانات سے پردہ اٹھانے کے لیے ARY News کے اینکر مبشر لقمان نے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف، وزیر قانون رانا ثناء اللہ، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ، سی  سی پی او لاہور شفیق گجر، ڈی سی او لاہور، ڈی آئی جی لاہور اور پنجاب کے ہوم سیکریٹری کے مابین 17 جون 2014ء کی صبح ہونے والی ٹیلیفونک کالز کا ریکارڈ ٹی وی پر پیش کر دیا۔
 
پولیس کی طرف سے رات اور دن بھر کی کارروائی کو مختلف میڈیا چینل براہِ راست دکھاتے رہے اس کے باوجود پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے اس واقع سے لاعلمی کا اظہار کیا اور اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر ڈالا۔ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے میاں شہباز شریف کی لاعلمی اور رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ کو ڈرامہ قرار دیا گیا۔ بعد ازاں ARY News چینل کے پروگرام کھرا سچ میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ صوبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نہ صرف اس واقعہ سے باخبر تھے بلکہ انہی کے احکامات کی روشنی میں موقعہ پر موجود پولیس اہلکاروں نے نہتے شہریوں کے خلاف فائرنگ کی۔ وزیر اعلیٰ اور دیگر حکومتی ذمہ داران کی طرف سے جھوٹے بیانات سے پردہ اٹھانے کے لیے ARY News کے اینکر مبشر لقمان نے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف، وزیر قانون رانا ثناء اللہ، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ، سی  سی پی او لاہور شفیق گجر، ڈی سی او لاہور، ڈی آئی جی لاہور اور پنجاب کے ہوم سیکریٹری کے مابین 17 جون 2014ء کی صبح ہونے والی ٹیلیفونک کالز کا ریکارڈ ٹی وی پر پیش کر دیا۔
 +
 +
==سیاسی و مذہبی جماعتوں کی مذمت==
 +
==پاکستان بھر میں احتجاج==
 +
*اس واقعہ کی مذمت کے لیے پاکستان بھر کے شہروں میں تحریک منہاج القرآن اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
  
 
==بیرون ملک احتجاج==
 
==بیرون ملک احتجاج==
 
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی مذمت کے لیے پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے اور سفیروں کو قراردادِ مذمت پیش کیں۔  
 
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی مذمت کے لیے پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے اور سفیروں کو قراردادِ مذمت پیش کیں۔  
  
==پاکستان بھر میں احتجاج==
 
*اس واقعہ کی مذمت کے لیے پاکستان بھر کے شہروں میں تحریک منہاج القرآن اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
 
  
==سیاسی و مذہبی جماعتوں کی مذمت=
 
  
  
 
[[زمرہ: سانحات]]
 
[[زمرہ: سانحات]]

تجدید بمطابق 04:54، 5 جولائی 2014ء

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انقلاب کی فائنل کال کے لیے سال 2014ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے وطن واپسی کے اعلان کے بعد مسلم لیگ ن کی وفاقی اور صوبہ پنجاب کی حکومت شدید قسم کی بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی، پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے مختلف فورمز کے کارکنان کے جذبۂ انقلاب کو دبانے کے لیے پنجاب حکومت کےاحکامات پر 16 اور 17 جون 2014ء کی درمیانی شب 3 ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع تحریک منہاج القرآن کے مرکز اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر دھاوہ بولا اور وہاں موجود کارکنان پر وحشیانہ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 10 کارکنان فوری طور پر جبکہ مزید 4 بعد ازاں ہسپتال میں دم توڑ گئے، پولیس کی یہ کارروائی رات 2 بجے سے اگلے دن 3 بجے تک جاری رہی۔ پاکستان کے قومی اخبارات اور میڈیا چینلوں نے اس واقعہ کو سانحۂ ماڈل ٹاؤن کا نام دیا جبکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے اس رات پولیس کے ظلم کے باعث جاں بحق ہونے والے کارکنان کو شہدائے انقلاب کا نام دیا۔

شہداء کے نام

  1. شازیہ مرتضیٰ زوجہ غلام مرتضیٰ۔ باغبانپورہ، لاہور، پاکستان۔ عمر 28 سال.
  2. تنزیلہ امجد زوجہ محمد امجد۔ باغبانپورہ، لاہور، پاکستان۔ عمر 30 سال.
  3. محمد عمر صدیق ولد میاں محمد صدیق۔ کوٹ لکھپت، لاہور، پاکستان۔ عمر 19 سال۔
  4. صفدر حسین ولد علی محمد۔ شیخوپورہ، پاکسان۔ عمر 35 سال
  5. عاصم حسین ولد معراج دین۔ گاؤں مناواں، لاہور، پاکستان۔ عمر 22 سال۔
  6. غلام رسول ولد محمد بخش۔ تاج پورہ سکیم، لاہور، پاکستان۔ عمر 56 سال۔
  7. محمد اقبال ولد خیر دین۔ چونگی امرسدھو، لاہور، پاکستان۔ عمر 42 سال۔
  8. محمد رضوان خان ولد محمد خان۔ چکوال، پاکستان۔ عمر۔۔۔۔۔
  9. خاور نوید رانجھا ولد محمد صدیق (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)۔ کوٹ مومن، سرگودھا، پاکستان۔ عمر ۔۔۔۔۔
  10. محمد شہباز ولد اظہر حسین۔ مریدکے، پاکستان۔ عمر 17 سال۔

حکومتی موقف اور غلط بیانی

رات 2 بجے کے قریب جب پولیس اہلکار بھاری مشینری کے ہمراہ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ کے باہر پہنچے تو ان کی طرف سے بتایا گیا کہ سیکریٹریٹ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر کے سامنے موجود رکاوٹیں عوام کے لیے مشکل کا باعث ہیں لہٰذا ہم ان رکاوٹوں کو ہٹانے کے احکامات لے کر آئے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ کے منتظمین نے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ یہ سیکورٹی بیریئرز لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پولیس کی نگرانی میں نصب کیے گئے تھے اور مئی 2011ء میں مقامی پولیس اسٹیشن کی طرف سے جاری کردہ سیکورٹی ہدایات میں بھی ان کی تنصیب کا کہا گیا تھا، تاہم پولیس اہلکاروں نے دونوں تحریری دستاویزات دیکھنے کے باوجود اپنی کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

پولیس کی طرف سے رات اور دن بھر کی کارروائی کو مختلف میڈیا چینل براہِ راست دکھاتے رہے اس کے باوجود پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے اس واقع سے لاعلمی کا اظہار کیا اور اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر ڈالا۔ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے میاں شہباز شریف کی لاعلمی اور رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ کو ڈرامہ قرار دیا گیا۔ بعد ازاں ARY News چینل کے پروگرام کھرا سچ میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ صوبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نہ صرف اس واقعہ سے باخبر تھے بلکہ انہی کے احکامات کی روشنی میں موقعہ پر موجود پولیس اہلکاروں نے نہتے شہریوں کے خلاف فائرنگ کی۔ وزیر اعلیٰ اور دیگر حکومتی ذمہ داران کی طرف سے جھوٹے بیانات سے پردہ اٹھانے کے لیے ARY News کے اینکر مبشر لقمان نے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف، وزیر قانون رانا ثناء اللہ، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ، سی سی پی او لاہور شفیق گجر، ڈی سی او لاہور، ڈی آئی جی لاہور اور پنجاب کے ہوم سیکریٹری کے مابین 17 جون 2014ء کی صبح ہونے والی ٹیلیفونک کالز کا ریکارڈ ٹی وی پر پیش کر دیا۔

سیاسی و مذہبی جماعتوں کی مذمت

پاکستان بھر میں احتجاج

  • اس واقعہ کی مذمت کے لیے پاکستان بھر کے شہروں میں تحریک منہاج القرآن اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

بیرون ملک احتجاج

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی مذمت کے لیے پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے اور سفیروں کو قراردادِ مذمت پیش کیں۔