پاکستان کے روشن اور مستحکم مستقبل کا اِنقلابی لائحہ عمل
(پاکستان کے روشن اور مستحکم مستقبل کا اِنقلابی لائحہ عمل)
خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
مقام: لیاقت باغ، راول پنڈی تاریخ: 17 مارچ 2013ء
نحمدہ ونصلی ونسلم علی سیدنا ومولانا محمد رسولہ النبی الامین المکین الحنین الکریم الرؤف الرحیم، أما بعد، فأعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔
جاء الحق وزہق الباطل، إن الباطل کان زہوقا۔
صدق اﷲ تعالیٰ مولانا العظیم، وصدق سیدنا ورسولنا الحبیب الکریم۔
معزز خواتین و حضرات! راول پنڈی ڈویژن، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان و کشمیر کے تمام علاقوں میں ٹی وی چینلز کے ذریعے اس اجتماع کے شرکاء اور سامعین۔
مزدورو، محنت کشو، کسانو، تاجرو، عزیز طالب علمو، اس دھرتی اور ارض وطن کی ماؤں، بہنو اور بیٹیو، علماء، مشائخ، بزرگو، بھائیو اور نوجوان بیٹو اور پھر سٹیج پر موجود جملہ معزز مہمانان گرامی سب کو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج اللہ رب العزت کی توفیق اور اس کے فضل و کرم سے میرا خطاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔
- 1۔ خطاب کے مضمون کا پہلا حصہ اب تک کے حالات کا تجزیہ ہے۔
- 2۔ دوسرا حصہ جس پہ میں نے تاکید کے ساتھ آپ کو متوجہ کرنا ہے وہ ہے Hope امید اور یقین۔
- 3۔ تیسرا حصہ ہے Vision، پاکستا ن کے مستقبل کے بارے میں مایوس نہیں ہونا۔ اس کے روشن مستقبل کا ایک واضح تصور اور واضح نقشہ آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا اور پاکستان کی governance، اس کی طرز حکمرانی اور اس کے حقوق کے Structure میں اور اس کے نظام سیاست اور نظام انتخاب میں اور نظام حکومت میں کیسی تبدیلیاں لائی جائیں کہ پاکستان قائد اعظم کا پاکستان بن سکے اور مدینہ ماڈل کے مطابق عالم اسلام کا آئیڈیل بن سکے، یہ Vision ہوگا۔
- 4۔ خطاب کے Substance کا چوتھا حصہ ہے Change، تبدیلی اور انقلاب۔ عوام کے زندگی بدلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ وہ کون سے بنیادی اقدامات ہیں اور وہ کون سے بنیادی حقوق ہیں جن کی فراہمی کے بغیر اس ملک کے عوام کی زندگی میں تبدیلی ناممکن ہے۔
- 5۔ اس چوتھے حصے کے بعد آخری حصہ ہوگا کہ پھر یہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ Procedure۔ How to bring this Change? یہ پانچواں Subject ہو گا جسے میں Address کروں گا۔
فہرست
تجزیہ
اس وقت تک کے حالات اور جد و جہد کا ایک مختصر تجزیہ کرنا چاہتا ہوں تا کہ زیادہ وقت میں Hope پر، Vision پر، Change پر اور procedure پر دے سکوں۔
آپ کو معلوم ہے کہ میں نے 2004ء میں اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔ اس نظام کو اندر سے دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا، اس وقت پارلیمنٹ ایک فوجی آمریت کے تحت تھی، اس نتیجے پر پہنچا کہ پارلیمنٹ میں منتخب ہوکے آنے والے More or Less یہی لوگ تھے۔ پارٹیوں کی تعداد کم و بیش تھی مگر لوگ اکثر و بیشتر وہی تھے جو آج کی پارلیمنٹ میں بھی ہیں۔ پھر 2004ء کے بعد میں نے دیکھا کہ اس پارلیمنٹ سے عوام کو کچھ نہیں ملا اور کچھ نہیں ملے گا۔ یہ پارلیمنٹ جیسے ادارے، یہ ملک کا نام نہاد سیاسی عمل اور so-called democracy یا آمریت؛ یہ سب کچھ مخصوص طبقات اور اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ اس پورے process میں سے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کلیتاً خارج ہیں۔ پھر 2004ء سے مستعفی ہونے کے بعد 2012ء آٹھ سال تک اس ملک کی سیاسی، انتخابی اور حکومتی استحصالی نظام کے خلاف میں نے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اور پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے اور اپنی خواتین اور نوجوانوں اور طلباء کی تنظیمات کے پلیٹ فارم سے عوامی سطح پر ملک میں تبدیلی اور انقلاب کے لیے بیدارئی شعور کی ایک مہم شروع کی جو آٹھ سال تک چلتی رہی۔
اس کے نتیجے میں grass root level تک، یونین کونسل سے بھی نیچے دس سے لے کر بیس بیس تک عوامی یونٹ قائم ہوئے۔ آٹھ سال کی بھرپور جدوجہد کے بعد 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر اس Message کو عامۃ الناس تک عام کرنے کے لیے اور تبدیلی و انقلاب کا یہ شعور اور استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کا یہ پیغام پاکستان کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا عظیم الشان اور فقید المثال اجتماع ہوا، مینار پاکستان پر پہلے بھی اجتماع ہوتے رہے اور بعد میں بھی ہوں گے مگر مینار پاکستان کا اجتماع جب بھی ناپنا ہو تو ابتداء یہاں سے کریں کہ کرسیاں رکھی گئی یا نہیں۔ اگر مینار پاکستان کا اجتماع کرسیوں سے شروع ہوتا ہے تو آپ اس کا تعین از خود کر لیجیے گا۔
یہ واحد اجتماع تھا جہاں millions افراد کا سمندر تھا مگر وہاں پر ایک کرسی بھی نہیں رکھی گئی تھی اور پچیس پچیس میل تک، مریدکے تک انسان سروں کا بسوں کی چھتوں پر ایک سمندر تھا۔ ہم نے 23 دسمبر مینار پاکستان سے اس استحصالی، ظالمانہ اور غریب دشمن نظام کے خلاف آئینی جد و جہد کا آغاز کیا، جمہوری جد و جہد کا آغاز کیا اور ایک پر امن احتجاج کا آغاز کیا اور انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا رکھا اور اوّل تا آخر آئین کی in letter and spirit پاسداری کی بات کی۔ اس کے نتیجے میں اس تصور کو اور آگے بڑھانے کے لیے اور حکومتی حلقوں پر اور پارلیمنٹ پر پریشر develope کرنے کے لیے، تاکہ عوام کی آواز مزید طاقت ور بنے اور کسی نتیجے پر پہنچے۔ 13 جنوری سے 17 جنوری تک ملک بھر سے لانگ مارچ ہوئے اور 17 جنوری تک ایک عظیم الشان تاریخی دھرنا ہوا جس کی مثال نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں بلکہ اقوام عالم کی تاریخ میں اتنا طویل، پُرامن اور عظیم دھرنا جمہوریت کے لیے، امن کے لیے، تبدیلی کے لیے، عوام کے حقوق کے لیے، آئین کی بالا دستی کے لیے نہ کبھی ہوا نہ ہوسکے گا۔
لاکھوں لوگوں کا دھرنا، اسے کوئی چاہے تو ہزار ہا کہہ دے، عدد سے بحث نہیں ہے۔ لاکھوں تھے یا ہزار ہا، اس سے کوئی concern نہیں۔ Concern یہ ہے کہ 65 سال کی تاریخ میں اسلام آباد کی شاہراہوں نے اتنا بڑا دھرنا تاریخ میں کبھی دیکھا یا نہیں دیکھا؟ نہ کوئی کر سکا نہ کوئی کر سکے گا اور انسانی سروں کا سمندر پانچ دن رہا اور امن کا یہ عالم کہ ایک پتہ بھی نہ ٹوٹا، ایک شیشہ نہ ٹوٹا، معمولی سا act of vilence نہ ہوا، صبر و استقامت کی لازوال داستان، امن، peace and security کی لازوال مثال، نظم و نسق اور discipline کی لازوال مثال، جمہوری طرز عمل کی لازوال مثال آئینی اور قانونی رویوں کی لازوال مثال اس دھرنے میں پاکستانی قوم کا امیج پوری دنیا کے اندر بلند کر دیا۔
جس قوم کو دہشت گرد قوم تصور کیا جاتا تھا، انتہاء پسند قوم تصور کیا جاتا تھا، جہاں بات بات پر لڑائی جھگڑا، فساد، گولی اور لاشیں گرتی تھیں اس قوم نے اقوام عالم کو دکھایا کہ پاکستانی قوم کا صرف یہ رخ نہیں یہ رخ بھی ہے کہ پاکستانی قوم سے بڑھ کر کوئی قوم پرامن اور منظم دنیا میں نہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ قوم نے بتا دیا، یہ وہ قوم ہے اگر اس کو قیادت ملے تو ساری قوم کا کردار پانچ دن کے اندر بدل سکتا ہے۔ توڑ پھوڑ کرنے والی قوم کو قیادت ملے تو نظم و نسق کی عدیم المثال پیکر بن سکتی ہے۔ انہوں نے قرون اولیٰ کے مسلمان حضرات و خواتین صالحین اور صالحات کی مثال قائم کر دی۔ لیکن ہم نے جم غفیر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جو اس دھرنے میں تھا اتنی بڑی افرادی قوت کے باوجود تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا۔
ہم چاہتے تو تصادم ہو سکتا تھا۔ اقتدار پر بیٹھنے والے لوگوں کا اسلام آباد میں داخلہ بند کر سکتے تھے، ان کے ایوانوں کی کرسیاں ان سے چھن سکتی تھیں، ایوانوں کے دروازے توڑے جا سکتے تھے، ان پر قبضے ہو سکتے تھے، جو چاہتے سب کچھ ہو جاتا مگر امن برباد ہوتا، جمہوریت ڈی ریل ہوتی۔ ہم نے self-constraint جذبات پر قابو پانے اور امن کو کامیاب کرنے کی تاریخ میں ایک مثال قائم کی اور ہم نے دنیا کی مہذب جمہوری قوموں کی طرح بلکہ تاجدار کائنات سیدنا رسول اللہ a کی سنت کے مطابق ہم نے مزاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ آقا e نے عمر بھر جب ایسی situation create ہوئی تو end مذاکرات کے ساتھ کیا۔
سو ہم نے آئین کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، قانون کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، عوام کے حقوق کے لیے اس نام نہاد جمہوریت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا اور امن کے طریق سے نہ ہٹے۔ مذاکرات کا راستہ بھی اختیار کیا آپ کے لیے، اس ملک کے مزدوروں کے لیے، اس ملک کی غریب ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے، اس ملک کے تاجروں، کسانوں، ہاریوں اور پسماندہ لوگوں کے لیے، عوام کے حقوق کے لیے، مگر آئین میں بھی عوام کو حقوق، چونکہ آئین طاقتوروں کے قبضے میں ہے، آئین کے راستے سے انہوں نے اپنے حقوق تک پہنچنے نہ دیا۔ قانون بھی طاقت وروں کے قبضے میں ہے، قانون کی راہ سے بھی انہوں نے عوام کو اپنے حقوق تک پہنچنے نہ دیا، نام نہاد جمہوریت بھی طاقت ور اشرافیہ کے قبضے میں ہے، انہوں نے جمہوریت کی راہ سے بھی عوام تک ان کے حقوق کو پہنچنے کی اجازت نہ دی۔
ہم نے معاہدے پر امن مارچ کا اختتام کیا۔ ساری سیاسی قوتیں ایک طرف تھیں اور آپ کے دباؤ کے نتیجے میں انہیں مذاکرات کے لیے یکجا ہو کے آپ کے پاس آنا پڑا۔ اپوزیشن کی ساری جماعتیں ایک طرف لاہور میں جمع تھیں، گویا مشرق و مغرب میں کل سیاسی اور مذہبی قیادتیں عوام کے حقوق کے خلاف جمع ہو گئیں، مگر آپ ایک معاہدہ کروا کے واپس پلٹے۔ پھر اس معاہدے کے نفاذ کا انتخابی اصلاحات کے نفاذ کا، انتخابات کو ہر قسم کی دھاندلی سے پاک کرنے کے عمل کے نفاذ کا، کرپٹ، لٹیرے لوگوں کو انتخابی عمل سے نکالنے کے عمل کے آغاز کا، ستھرے نمائندے پارلیمنٹ تک پہنچانے کے عمل کا، ان تمام امور کا انحصار اس بات پر تھا الیکشن کمیشن آف پاکستان خود آئینی ہو، قانونی ہو، شفاف طریقے سے بنا ہو، وہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کا محافظ نہ ہو۔ ایماندار ہو، غیر جانبدار ہو، منصفانہ الیکشن کروائے اور سیاسی مک مکا کے تحت الیکشن میں دھاندلی کے راستے نہ کھولے۔ ضروری تھا کہ اس الیکشن کمیشن کی تشکیل کا خاتمہ کروایا جائے۔ نیا الیکشن کمیشن آئین پاکستان کے آرٹیکل 213 کے مطابق بنایا جائے جو کہ موجودہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق نہیں بنا تھا۔ میں ایک بات یہاں ریکارڈ پر لانے کے لیے کہنا چاہتا ہوں اس وجہ سے پھر ہم نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا تا کہ وہاں سے عدل و انصاف عوام کو ملے گا مگر بدقسمتی کہ جس جگہ پر آئین کو شنوائی ملنی تھی وہاں آئین کو بھی سنا نہ گیا۔ جس جگہ قانون کی سماعت ہونی تھی وہاں قانون کی آواز کو بھی سننا گوارا نہ کیا گیا۔ جس جگہ عدل و انصاف کی بات ہونی تھی وہاں عدل و انصاف کی طرف جانا بھی گوارا نہ کیا گیا اور اصل موضوع پر آئے بغیر non-issue ایک غیر متعلقہ ایشو کے اوپر تین دن برباد کر کے غیر آئینی طریقے سے بنائے گئے الیکشن کمیشن کو تحفظ دیا اور اس تحفظ کے نتیجے میں انتخابات کے اندر سے ساری شفافیت اور غیر جانبداریت اور ایمانداریت کی راہ ہموار کر دی۔
میں ایک بات ریکارڈ پہ لانا چاہتا ہوں۔ میں نے سیکڑوں مرتبہ یہ بات publicly کی ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 213 کی شرائط کے مطابق نہیں بنا۔ وہ آرٹیکل کہتا ہے کہ پانچوں اراکین بشمول چیف ہر ایک کے لیے تین تین نام ہوں اور تینوں کو بلایا جائے پارلیمنٹری کمیٹی عدالت کر طرح بیٹھے اور ہر ایک سیٹ کے لیے تینوں کی سماعت کی جائے، انٹرویو کیا جائے، سماعت کی جائے cross questioning کی جائے اور کامل عدالتی طریقے سے سماعت کے بعد ان کی تقرری کی جائے۔ پوری دنیا تین ماہ سے سن رہی ہے میری آواز کہ ایسا نہیں کیا گیا۔ آپ پارلیمنٹری کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید شاہ سے پوچھیں انہوں نے میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر دس گواہوں کے سامنے حلفاً کہا تھا ہم سے غلطی ہوئی، ہم نے آئین کے اس آرٹیکل کے نہیں بنایا۔
پوچھیے! سابق وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک صاحب سے، پوچھیے پارلیمنٹری کمیٹی کے ہر ایک ممبر سے، ہر شخص گواہی دے گا کہ ہم نے غلطی کی، آئین کے آرٹیکل کی خلاف ورزی میں بنایا، سماعت نہیں کی۔ اور میں یہ بات آج راولپنڈی کے عظیم الشان جلسے میں ریکارڈ پہ لانا چاہتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے پانچوں رکن جج ہیں، سینئر لوگ ہیں، میں انہیں دعوت دیتا ہوں، انہیں تو پتہ ہے کہ ان کی تقرری کس طریقے سے ہوئی۔ آئین کے آرٹیکل 213 نے جو الیکشن کمیشن کی تشکیل کا طریقہ بتایا ہیم آیا عین ان شرائط کے مطابق ہوئی یا نہیں۔ انہیں تو پتہ ہے۔ میں الیکشن کمیشن کے پانچوں اراکین کو کہتا ہوں کہ ٹی وی کے سامنے آکر ٹیبل پر قرآن مجید رکھ لیں اور وہ پانچوں قرآن مجید اللہ کی کتاب پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ ہماری سماعت ہوئی تھی اور آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق منتخب ہوئے تھے؛ تو میں اپنا دعویٰ واپس لے لوں گا۔ مگر یہ بات نہ کبھی انہوں نے کہی ہے نہ کہہ سکیں گے۔
اب ایک بات اورکہنا چاہتا ہوں، میں عدلیہ کا احترام کرتا ہوں، ہر آئینی ادارے کا احترام کرتا ہوں، مجھے ان کی judgement سے واضح اختلاف ہے۔ اب انہیں بھی یہ پیغام دینا چاہتا ہوں آج راولپنڈی کے اجتماع میں، انہوں نے بھی جان دینی ہے اللہ کے حضور۔ ایک شام ان ججز کو بھی قبر میں آنی ہے مجھے بھی قبر میں آنی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ایک شام موت کو face کرنے والا ہے، اللہ کے حضور پیش ہونے والا ہے۔ میں ان تینوں جج صاحبان سے کہتا ہوں، ان کو بھی پتہ ہے، وہ بھی قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر تینوں کہہ دیں کہ کیا آرٹیکل 213 کی شرط کہ سماعت کے بغیر تقرری ہو، کیا الیکشن کمیشن کی تشکیل اس شرط کے مطابق ہوئی تھی یا نہیں؟ اگر وہ تینوں جج قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق تھی، میں اعلان کر دوں گا کہ میں نے غلط دعویٰ کیا۔
میرا چیلنج ہے، خدا کو جواب دینا ہے، اللہ کی عدالت سب سے بڑی ہے، قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ دو کہ آرٹیکل 213 کی شرائط کے مطابق سماعت کے بعد ان کی تقرری ہوئی یا نہیں ہوئی، اتنا بتا دو۔ ہر مسئلہ پرSuo moto action لیا جاتا ہے، کوئی خبر اخبار میں چھپ جائے یا ٹی وی پہ آجائے تب بھی طلب کر لیا جاتا ہے۔ یہ تو تین مہینے سے شور مچ رہا ہے، اس پر Suo moto action لے کر اپنے ضمیر کی آواز سے فیصلہ کیوں نہیں کرتے کہ آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق یہ مقرر ہوئے یا خلاف ورزی میں مقرر ہوئے، فیصلہ قرآن پر ہوگا۔ نہیں تو پھر خدا کی عدالت میں قیامت کے دن ہوگا۔
عزیزان محترم! کہنے کا مقصد یہ تھا، پارلیمنٹ ایک ادارہ ہےConstitution کا، اس کا بھی احترام ہے، مگر اس کے ممبران کا رویہ غلط ہو گا تو ممبران پر تنقید کا حق ہے۔ عدلیہ بھی ایک ادارہ ہے، فوج بھی ادارہ ہے، بطور ادارہ اس کا احترام ہوگا۔ مگر کسی فوجی افسر کا ذاتی رویہ غلط ہو گا تو قوم کو تنقید کا حق ہے۔ عدلیہ بھی ایک آئینی ادارہ ہے، اس کا احترام ہے، مگر اس میں بیٹھنے والوں کا ذاتی رویہ غلط ہوگا، آئین اور انصاف کے خلاف تو قوم کو ان کا محاسبہ کرنے کا بھی حق ہے۔
اب چونکہ الیکشن کمیشن غیر آئینی تھا، غیر آئینی رہا، قانونی طور پر ناجائز تھا ناجائز رہا۔ اب ایسے الیکشن کمیشن سے آپ جائز انتخابات کی توقع کیسے کرتے ہیں؟ جس ادارے کی، الیکشن کمیشن کی اپنی تشکیل اور composition، اپنا وجود شفاف طریقے سے نہیں بنا وہ پاکستانی قوم کو شفاف الیکشن کیسے دے سکتا ہے۔
ہم نے عوام کے حقوق کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ پھر میڈیا ٹرائل بھی ہوئے، عدالتی ٹرائل بھی ہوئے، تہمتوں کے بازار گرم ہوئے، الزامات کی بوچھاڑ لگی، کردار کشی کی انتہاء کی گئی۔ جس نے جو کچھ کیا میرے خلاف؛ میں سب کو معاف کرتا ہوں۔ نہ میں نے پہلے کسی کو گالی دی، نہ آج دوں گا، نہ آئندہ کبھی دوں گا۔ میں گالی کا کلچر ختم کروانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں، کردار کشی کا سیاسی کلچر ختم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔ سیاست میں شرافت اور تہذیب لانے کے لیے جدوجہد شروع کی ہے۔ سیاست میں انسانی آداب و احترام اور حقوق پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ آپ نے اگر سو گالیاں دیں، جھوٹی تہمتیں لگائیں، تو ہم کسی کا جواب نہیں دیں گے۔ میں صبر کر کے یہی کہوں گا: خدارا! اس قوم کو تہذیب و ثقافت اور ادب و احترام کا اچھا کلچر سکھایا جائے۔
کبھی کہا گیا کہ ان کے پیچھے امریکہ ہے۔ ۔۔۔ نہ آیا۔ میں نے پہلے دن کہا تھا کہ ہمارے پیچھے سوائے اللہ کی ذات کے اور کوئی نہیں ہے، آج بھی اللہ ہے کل بھی اللہ تھا اور آئندہ بھی اللہ ہو گا۔
یہ الزام بھی لگا کہ فنڈ کہاں سے آئے، اب فنڈز کا جواب میں وہ نہیں دینا چاہتا جو میں سو بار پہلے دے چکا ہوں۔ آپ پوچھتے ہیں کہ 23 دسمبر کے جلسے سے لانگ مارچ تک فنڈ کہاں سے آئے؟ چار جلسوں کے فنڈ پوچھتے ہیں۔ میں ایک اور بات کے ذریعے جواب دیتا ہوں، آپ چار جلسوں کے فنڈز کی بات کرتے ہیں، اللہ کی عزت کی قسم! اگر اس ملک کا نظام بدل جائے، ملک کی قیادت دیانتدار لوگوں کے ہاتھ آجائے، ایماندار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے، جس میں دوہری شہریتوں والے جو پاکستانی پوری دنیا میں آباد ہیں، جن کا تن من دھن پاکستان کے لیے تڑپتا اور لٹتا ہے اور پھر پوری دنیا کے ادارے اور پاکستانی کمیونٹی اور دوسری کمیونٹیز ان کا اعتماد قائم ہو جائے کہ پاکستان بھیجا جانے والا پیسہ کرپشن کی نذر نہیں ہو گا بلکہ جس مقصد کے لیے جائے گا وہیں خرچ ہوگا۔ اگر یہ اعتماد قیادت کے ذریعے ایماندار، انقلابی قیادت کے ذریعے بحال ہو جائے تو تم چار جلسوں کے فنڈ پوچھتے ہو میں جواب میں کہتا ہوں کہ IMF کا قرضہ، پاکستان پر World Bank کا قرضہ، پیرس کلب کا قرضہ، چار جلسوں کے خرچے کیا پوچھتے ہو میں تمہیں ایک سال میں پاکستان کے سارے قرضے اتار کے دے سکتا ہوں۔ پاکستان کے سارے بیرونی قرضے اتار کے دے سکتا ہوں۔ کیا World Bank! کیا IMF! کیا پیرس کلب! پاکستانی قوم بڑی غیرت مند قوم ہے، وہ خون کا قطرہ قطرہ پاکستان کے لیے لوٹا دیتی ہے، دنیا کا اعتماد اگر آج قائم ہو جائے، کرپشن ختم ہو جائے تو پاکستان کی ایک ایک پائی قرضے کی میں چھ ماہ سے لے کر ایک سال کے اندر اتارنے کی پوزیشن میں ہوں۔ تم چار جلسوں کی بات کیا کرتے ہو۔
آگے سنئے! یہ ہے قرضے اتارنے کی بات۔ میں سوچ سمجھ کر بات کر رہا ہوں، میں نے 32 سال پاکستانی قوم کی بے لوث خدمت کی ہے، ہمارے کردار میں اور باقی بہت سے اوروں کے کردار میں، لیڈروں میں ایک فرق ہے۔ وہ جب بیرون ملک جاتے ہیں تو سیون سٹار ہوٹلز میں رہتے ہیں۔ اور ان کے دن اور رات کے خرچے اور رات اور دن کے دھندے، ان کے کارکن اور پاکستانی قوم اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے؛ مکروہ دھندے، جن کے نام لینے سے بھی زبان پلید ہو جائے۔ ایسے لیڈروں کے نام پر قوم پیسے کیوں لٹائے گی، میں نے 32 سال گزارے ہیں اللہ رب العزت کی مدد سے، میں پوری دنیا میں پورے 32 سال کے اندر، میں اپنے غریب کارکنوں کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہا ہوں۔ میں نے کبھی ہوٹلنگ نہیں کی ہے۔
میں نے 32 سال میں اپنے کارکنان اور تنظیمات سے ایک پیسہ تحفے اور نذرانے کے نام پر نہیں بٹورا۔ پوری دنیا میری بات سن رہی ہے، اگر ایک جملہ غلط ہو تو کوئی ردّ کر سکتا ہے۔ میں نے اپنی ایک ہزار کتابیں لکھی جن میں سے پانچ سو چھپ چکی اور سات ہزار خطابات 32 سال میں کتابوں اور کیسٹوں کی رائلٹی ایک روپے کی بھی میں نے اپنے اوپر حرام کر رکھی ہے، وہ بھی میری تحریک کو وقف ہے۔ اللہ کی عزت کی قسم اور تاجدار کائنات کی نبوت و رسالت کی قسم! میں نے 32 سال کی زندگی میں منہاج القرآن یا پاکستان عوامی تحریک کے فنڈ سے ایک کپ چائے کا بھی نہیں پیا، ایک لقمہ روٹی کا نہیں کھایا۔ اگر کھاتا ہوں تو اس کے پیسے اپنی جیب سے پہلے ادا کرتا ہوں۔
جب یہ کردار آپ اپنے کارکنوں کو، پاکستانی قوم کو دکھائیں گے تو خدا کی قسم وہ اپنے منہ سے نوالہ بھی نکال کر پاکستان کا قرضہ اتارنے کے لیے قربان کر دیں گے۔ قیادت چاہئے، امانت چاہئے، دیانت چاہئے، کرپشن ختم ہو جائے اور لٹیرے لیڈروں کا راج ختم ہو جائے تو پاکستان آج بھی ملائشیا اور سنگاپور بن سکتا ہے۔ یہ تو تھا قرضہ اتارنا۔
اور چند سالوں میں یہ بھی دے سکتا ہوں کہ اگر کوئی اس ملک کے نظام کو بدلنے کے لیے کھڑا ہو۔ یہ بھی دے سکتا ہوں کہ پاکستان کے ہر بڑے گاؤں کو، یونین کونسل کو، پورے ملک میں ایک ہسپتال دوں، غریبوں کے مفت علاج کے لیے، ہر یونین کونسل کو ایک سکول دوں۔ گاؤں کو ایک سکول اور ایک ہسپتال دوں غریبوں کے مفت علاج کے لیے۔ ہر یونین کونسل کو ایک سکول دوں، گاؤں کو سکول دوں، کالج دوں، ہر ضلع کو پاکستان میں ایک یونی ورسٹی دوں اور ہر قصبے اور یونین کونسل کو ایک انڈسٹری دوں۔ اور یہ سب کچھ پاکستان کے بجٹ پہ بوجھ ڈالے بغیر باہر پاکستانیوں سے پیسہ لا کر آباد کروں گا پاکستان کو۔ یہ ان پاکستانیوں کی قربانیوں کے نتیجے میں ہو گا جن کے پاس دوہری شہریت ہے، جن کی دوہری شہریت کو طعن کیا جاتا ہے، جن کی وفاداری کو مشکوک کہا جا رہا ہے، جن کی وفاداری کو تقسیم کہا جا رہا ہے۔ دوہری شہریت کے ساتھ ایک شخص الیکشن کمیشن کے بارے میں درخواست لے کر تو عدالت میں نہیں جاسکتا چونکہ دوہری شہریت ہے، وفاداری تقسیم ہے مگر کل الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ دوہری شہریت کا حامل اس ملک کا نگران وزیر اعظیم بن سکتا ہے۔ کہ دوہری شہریت کے شخص پر نگران وزیر اعظم بننے پر پابندی نہیں، صرف الیکشن لڑنے کی پابندی ہے۔ نگران وزیر اعظم بن سکتا ہے، وہاں وفاداری بھی مشکوک نہ ہوئی، وہاں وفاداری بھی تقسیم نہ ہوئی۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا
یہ الیکشن کمیشن کا کل کا اعلان ہے۔ ہم وہاں سے بھی پلٹ آئے۔ شاید کچھ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ چونکہ سپریم کورٹ نے پٹیشن کی سماعت نہیں کی، کیس کو سنا ہی نہیں، اصل مسئلے کو کھولا ہی نہیں، اس طرف گئی ہی نہیں سپریم کورٹ۔ شاید کئی لوگوں نے سمجھا ہوگا کہ اب تبدیلی اور انقلاب کا راستہ رک جائے گا اور ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے، اب ان کی طاقت اور ہمت جواب دے جائے گی، نہیں نہیں نہیں۔ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ سارے ہتھکنڈے، یہ سارے غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر قانونی حربے، ساری طاقتیں مل کر اس ملک سے تبدیلی اور انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ عوام اٹھیں گے، اپنے حقوق تک پہنچیں گے اور ملک کی تقدیر کو ان شاء اللہ بدل کر دم لیں گے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی و جمہوری صورت حال
اب آئیے، اب تک کے حالات کے تجزیے کے بعد پاکستان میں موجودہ سیاسی اور جمہوری صورتحال پر تھوڑی گفت گو کرتا ہوں۔ (نظامی صاحب۔ ہمارے ایک ہی تو انقلابی، اصل انقلابی لیڈر ہیں۔ ماشاء اللہ۔ اور جے سالک صاحب، بہت مشہور مسیحی رہنما۔ میں آپ کو سینے سے لگاتا ہوں، ویلکم کرتا ہوں۔) اب موجودہ سیاسی اور جمہوری کلچر پر تھوڑی گفتگو کرتے ہیں۔ بڑی اہم چیزیں ہیں بڑے غور سے سنیں اور میں ذاتی طور پر ان تمام ٹی وی چینلز کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کی انتظامیہ کا اور مالکان کا جو صرف اللہ اور اس کے رسول کے لیے، اس ملک اور قوم اور عوام کے لیے میرا آج کا پیغام عوام تک پہنچا رہے ہیں، اللہ انہیں اجر دے اور تمام اخبارات کو بھی مبارک باد دیتا ہوں۔ میں ان سب کو دعا دیتا ہوں اور سوائے دعا کے ایک فقیر دے ہی کیا سکتا ہے۔ کالم نگاروں کو دعا دیتا ہوں، جن کی غیرت، قومی حمیت اور جن کے فکر اور جن کی سوچ کا ستھرا پن ہمیشہ اس تحریک کے ساتھ رہا ہے اور سرپرستی کرتا رہا ہے۔ جو اسٹیج پر بھی موجود ہیں اور وہ بڑے بڑے بکے ہوئے قلموں کے خلاف اپنے حسینی قلم کو ہمیشہ تر و تازہ رکھ کر صفحات پر لکھتے رہے ہیں۔ اب ایک بات سنیے۔ موجودہ ۔۔۔ کیوں میں نے اس سیاسی کلچر، میں نے کیوں کہا تھا؟ سیاست نہیں ۔ ریاست بچاؤ۔ میں آج بھی اسی نعرے پر قائم ہوں اور میں نے کہا تھا کہ میں سیاست کا مطلقاً رد نہیں کرتا۔ جو سیاست پاکستان میں رائج الوقت ہے یہ سیاست نہیں یہ خباثت ہے، یہ سیاست نہیں یہ غلاظت ہے، اس کو رد کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی سیاست کو سلام کرتے ہیں۔ خلافت راشدہ بھی میں نے کہا تھا اسلامی سیاست ہے۔ مدینہ کی ریاست کا قیام بھی مصطفوی سیاست ہے۔ سیاست دین کا حصہ ہے مگر جس سیاست کے ذریعے ریاست پاکستان بنی اور بچے گی وہ یہ سیاست نہیں جو آپ دیکھتے ہیں، جس کا نقشہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اس سیاست اور اس نام نہاد جمہوریت میں ستھرا پن نہیں، یہ کلچر پورا کرپٹ کلچر ہے، آپ دیکھئے، لیڈروں کے رویے غیر جمہوری ہیں، بڑی اہم بات سمجھنے والی ہے، ان کے ذریعے ملک میں۔ ۔۔۔ ان کے ذریعے پھر جمہوریت کیسے آئے گی؟ اب اسی پر میں ایک چھوٹی مثالیں ذرا سن لیجئے، لیڈروں کے رویے کیسے غیر جمہوری ہیں اور کرپٹ ہیں، کرپٹ لوگ اور غیر جمہوری رویے رکھنے والے لوگ۔ ۔۔۔ صوبائی اسمبلی کو دیکھا، آخری دن تھا، آخری دن بھی کرپشن کے بہتے ہوئے دریا سے وہ نہاتے رہے اور ہر MPA نے پرسوں آخری دن یکم جولائی 2011ء سے یعنی پونے دو سال پیچھے کی تاریخ سے اپنی تنخواہیں ساٹھ فیصد بڑھا لیں اب وہ کروڑوں روپے بقایا جات لے گا، یہ جمہوریت ہے۔ ایک اسمبلی کے وزیر اعلیٰ نے ستر فیصد تنخواہ اور الاؤنس بڑھا کر مرتے دم تک تاحیات منظور کروا لیا۔ اب اس اسمبلی کا ہر وزیر اعلیٰ مرتے دم تک، ریٹائر ہو کر بھی ستر فیصد مراعات لے گا۔ سات بل منظور کیے۔ میں جمہوریت بتا رہا ہوں، اس ملک کی جمہوریت کیا ہے؟ اس ملک کا سیاسی عمل کیا ہے؟ سات بلوں میں ایک بل بھی عوام کے لیے منظور نہیں کیا کہ عوام کو روٹی دی جائے، عوام کو ستھرا پانی دیا جائے، عوام کو روزگار دیا جائے، عوام کو بجلی اور گیس دی جائے، عوام کو انصاف دیا جائے۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی اسمبلی ان پانچوں کو توفیق نہیں ہوئی کہ عوام کے حق میں ایک بل منظور کرتے۔ اور وزیر اعلیٰ مرتے دم تک پرائیوٹ سیکرٹری بھی رکھ سکتے ہیں۔ بغیر وزیر اعلیٰ بنے کلرک، ڈرائیور، سکیورٹی، مالی، دس ہزار روپے موبائل فون کے لیے بل، ساری سہولتیں جنازہ اٹھنے تک ان کی بارگاہ میں رہیں گی۔ یہ جمہوریت ہے۔ اب اسی جمہوریت کا نقشہ ایک اور صوبائی اسمبلی ہے، میں نام لے رہا ہوں اگر میری بات غلط ہو تو صدر پاکستان خود اس کی تردید کر دیں کسی اور آدمی کی بات نہیں کروں گا۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے ہر ایک MPA کو اس پورے عرصے میں ۔ یہ جمہوریت بتا رہا ہوں ۔ سو کروڑ روپے سے لے کر ڈیڑھ سو کروڑ روپے تک ہر ایک MPA کو development fund کے نام پر رشوت دی گئی ہے۔ یعنی ایک ارب سے لے کر ڈیڑھ ارب روپیہ۔ اب لاکھوں کی بات نہیں رہی، millions کی بات نہیں رہی، چند کروڑوں کی بات نہیں، ڈیڑھ ڈیڑھ سو کروڑ روپے تک ہر ایک MPA کو پانچ سالوں میں رشوت دی development fund کے نام پر۔ اگر میری یہ بات غلط ہے تو صدر پاکستان خود تردید کر دیں اس کی۔ میں چیلنج کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ مجھے تو بلوچستان اسمبلی کےMPAs نے خود بتایا ہے، جنہوں نے یہ پیسے لئے ہیں۔ انہوں نے خود بتایا ہے اور سارا جہان جانتا ہے۔ یہ جمہوریت ہے کہ بلوچستان اسمبلی کا ہر MPA پانچ سال تک وزیر رہا یا مشیر، ساری اسمبلی وزیروں اور مشیروں کی۔ صرف ایک شخص اپوزیشن میں تھا اور وہ بھی اپوزیشن لیڈر۔ اپوزیشن لیڈر کا سٹیٹس بھی وزیروں کی طرح ہوتا ہے۔ لو! یہ جمہوریت ہے، عوام کہاں گئے؟ میں پوچھتا ہوں: اس جمہوریت میں عوام کا حصہ کہاں ہے؟ وہ ڈیڑھ ڈیڑھ ارب جو ایک ایک MPA کی نذر کیا جا رہا ہے اگر وہ عوام کے اندھیرے گھروں کو روشنی دینے پر خرچ ہوتا، بھوکوں کو لقمہ کھلانے پر خرچ ہوتا، پریشان حالوں کی بیٹیوں کی شادی پہ خرچ ہوتا، انہیں چھوٹے گھر بنا دینے پر خرچ ہوتا، ان کے روزگار پر خرچ ہوتا تو ہم کہتے کہ یہ نظام جمہوریت ہے۔ یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے اور غریب عوام کے لیے مجبوریت ہے۔ اب پنجاب کی اسمبلی کی طرف آجائیں یہاں لوگ skilful ہیں، کرپشن کرنے کی technical مہارت ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں، آپ پنجاب میں بیٹھے ہیں، آپ سے پوچھتا ہوں، پورے پانچ سال کے اندر پنجاب اسمبلی کی جو کابینہ ہے ایک وزیر کو چھوڑ کر، ایک صاحب کو چھوڑ کر باقی کسی ایک وزیر کا بھی آپ کو نام معلوم ہے کہ فلاں وزیر فلاں محکمے کا ہے؟ پانچ سال گزرے ہیں، اگر ایک شخص بھی جانتا ہے تو کھڑا ہو کے جواب دے، میں انتظار کر رہا ہوں۔ کہ پنجاب کی کابینہ میں فلاں فلاں وزیر ہیں اور ان کے پاس فلاں فلاں محکمہ ہے، کسی شخص کو معلوم ہے؟ صرف ایک صاحب ہیں جن کا نام دنیا جانتی ہے، ٹی وی جانتا ہے، اخبارات جانتے ہیں۔ اس سے زیادہ بدترین آمریت تاریخ میں کبھی ہو سکتی ہے؟ اٹھارہ وزارتیں اور اٹھارہ محکمے صرف وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں اور جس ملک میں ایک سپاہی اور پٹواری بھی محکمہ خود بھرتی نہ کر سکے اس ملک میں کیا قانون، کیا آئین، کیا جمہوریت، کیا انصاف۔ وہاں جنگلا بس کے پراجیکٹ ہیں، لیپ ٹاپ پروجیکٹ ہیں، سولر پینل کے پروجیکٹ ہیں۔ ارے جنگلا بس جو دو تین سال میں بالکل بند ہو کر کھڑی ہو جائے گی، ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اس سے غریبوں کو روٹی ملی؟ وہ ارب ہا روپے غریبوں کی روٹی پہ لگائے ہوتے، غریبوں کی یہ ارب ہا روپے بچا کر ان کی روٹی پہ لگائے ہوتے۔ یہ اربوں روپے بچا کر غریبوں کے لیے ادائیگی کرکے یہ energy crisis ختم کیا ہوتا۔ لوگوں کو بجلی، گیس دی ہوتی، جوانوں کو روزگار دیا ہوتا، مہنگائی کنڑول کی ہوتی تو ہم کہتے کہ یہ نظام جمہوری نظام ہے۔ یہاں کے حکمرانوں اور لیڈروں کو عوام کا کوئی concept نہیں ہے۔ پھر وفاقی حکومت اس میں آپ نے دیکھا کہ کل کا دن، ہفتے کا دن۔ تاریخ میں پہلی بار حکم دیا کہ بینک کھلے رہیں ہم نے بڑے بڑے کام آخری دن کرنے ہیں۔ بینکوں پر ڈاکے ڈالے جانے ہیں، لوٹ مار ہونی ہے، آخری دن اسمبلیاں ختم ہونے سے بھی پہلے بینکوں پہ ڈاکہ زنی کو روکا نہیں گیا۔ لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ سیاسی لیڈروں نے تو لوٹ مار کرنی تھی، دکھ کی بات یہ ہے کہ کل اس الیکشن کمیشن نے جس نے قوم کو شفاف الیکشن دینا ہے اس نے پندرہ تاریخ کے آخری دن کی ساری لوٹ مار کے لیے لیٹر جاری کر دیا کہ جائز ہیں۔ یہ ترقیاتی فنڈز ہیں جتنے چاہو اور نکالو۔ الیکشن کمیشن نے اجازت دی۔ شرم کرو الیکشن کمیشن کے رکنو شرم کرو۔ الیکشن کمیشن کے ممبرو شرم کرو۔ آپ کا فرض تھا کہ بینک بند کر دیتے، بینکوں کو آڈر کر دیتے کہ پیسہ جاری نہ کیا جائے۔ حکومتیں جا رہی ہیں، کابینہ جا رہی ہے، اسمبلیاں جا رہی ہیں، کون سی قیامت گر رہی ہے، آخری دن بینکوں میں لوٹ مار؟ بجائے خزانہ بچانے کے انہیں لیٹر دے دیا، جائز کر دیا۔ جو لوگ قوم کا خزانہ آخری ایک دن بھی بچا نہ سکے وہ ملک کے انتخاب کو لوٹ مار سے کیسے بچائیں گے۔ یہ شریک ہیں اس میں، یہ فریق ہیں۔ اور وزیر اعظم صاحب اس ملک کے۔ وہ 8 ماہ میں 37 ارب روپے صرف اپنے حلقے میں خرچ کر چکے ہیں۔ اندازہ کر لیں! اور آخری دن بھی بہت کچھ لینا تھا اور اسی مارچ میں گریڈ 22 کے اسلام آباد کے 100 افسروں کو ایک ایک کنال کا پلاٹ عطا کیا گیا۔ آخری دن، کس لیے؟ یہ نظام ہے، اسے آپ جمہوریت کا نام دیتے ہیں؟ یہ رویے غیر جمہوری ہیں، رویوں میں کرپشن ہے، رویوں میں بددیانتی ہے، رویوں میں شفافیت نہیں ہے، اداروں میں دھاندلی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیز اپنے سیاسی مفادات کو دیکھتی ہیں۔ آج کے دن اسمبلیاں ٹوٹ چکی مگر caretaker prime minister کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ معلوم ہے کیوں نہیں ہوئے caretaker prime minister, caretaker chief ministers کے فیصلے نہیں ہوئے ابھی تک حالاں کہ اسملیاں ٹوٹ گئیں، کابینہ ٹوٹ گئیں؟ اس لیے کہ مزید 9 دن تک یہ آئین کے مطابق وزیر اعظم بھی کرسی پہ رہے اور وزیر اعلیٰ بھی کرسی پہ رہیں اور 9 دن کوئی تھوڑی بات ہے؟ ایک ایک دن کا ایک ایک گھنٹہ اربوں روپے کی لوٹ مار کے لیے کافی ہے۔ آخری 9 دن اس ملک کی لاش میں کوئی بوٹی بچ گئی ہے تو گدھوں کی طرح اس لاش کی وہ آخری بوٹی بھی کھا لیں۔ اس لیے فیصلے نہیں ہو رہے تا کہ یہ پارلیمانی کمیٹی کو کیس جائے گا اور پھر چھ سات دن کے بعد الیکشن کمیشن کو جائے گا، 9 دن مزید اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد بھی وزیر اعظم وزیراعظم رہیں گے اور وزیر اعلیٰ وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا اور یہ شفاف الیکشن ہو رہے ہیں اور الیکشن کمیشن اندھا بھی ہے، بہرا بھی ہے، گونگا بھی ہے اور ساری کرپشن میں برابر کا شریک بھی ہے۔ (مری روڈ سے اطلاع آئی ہے کہ پورا مری روڈ دور دور تک بلاک ہے، سکرینوں پر ہزار ہالوگ۔ اب لاکھوں کی صورت بن گئی ہے ٹوٹل دیکھ رہے ہیں۔) اب یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ Caretakers پر جھگڑا؟ ایک تو اس لیے کہ نو نو دن ملے مزید لوٹ مار کے لیے۔ دوسرا ہر جماعت کوئی جماعت شفاف الیکشن نہیں چاہتی، ہر جماعت الیکشن میں جیتنا چاہتی ہے، دھاندلی چاہتی ہے، وہ چاہتی ہے ایسے caretakers آئیں جن کے ذریعے ان کی دھاندلی کو تحفظ مل سکے۔ Transparency نہ ہو، impartiality نہ ہو، honesty نہ ہو۔ اس کے لیے یہ سارہ مک مکا ہو رہا ہے۔ اب یہاں ایک بڑی اہم بات آپ کو اور قومی میڈیا کے ذریعے پوری قوم کو بتانا چاہتا ہوں، یہ caretaker گورنمنٹ کا ڈھونگ، یہ ڈرامہ صرف پاکستان میں ہے۔ دنیا کی کسی بڑی democracy میں caretakers نہیں ہوتے، وہاں نظام ہوتے ہیں، شفافیت ہوتی ہے، institutions ہوتے ہیں۔ امریکہ میں الیکشن ہوئے جارج بش تھا اس نے کرائے، بل کلنٹن تھا اس نے کرائے۔ کوئی caretaker کبھی نہیں آیا۔ برطانیہ میں الیکشن ہوتے ہیں گورڈن براؤن نے کرائے اور خود وزیر اعظم تھا اور الیکشن ہار گیا۔ Caretaker کبھی نہیں آتے برطانیہ میں، انہوں نے نظام کے اندر اتنی مضبوطی، استحکام، شفافیت، اتنی آئینیت پیدا کر لی ہے کہ وہ کوئی بھی جماعت ہو پاور میں ہو وہ الیکشن میں دھاندلی نہیں کرواتی۔ ان کا اعتماد ہوتا ہے۔ فرانس میں الیکشن ہوتے ہیں، caretaker گورنمنٹ نہیں بنتی۔ سن لو! امریکہ سے جا کے اقتدار کی بھیک مانگنے والو، ان کے طور طریقے بھی سیکھو۔ ہر فیصلے کے لیے برطانیہ بھاگ کے لندن جانے والو ان کے شفاف نظام کے طور طریقے بھی سیکھو۔ فرانس میں صدر سرکوزی نے الیکشن خود کروائے اور ہار گیا یہ شفافیت ہے۔ جرمنی میں caretaker نہیں ہوتے۔ ترکی میں کوئی caretakers نہیں ہوتے، موجودہ حکومت کراتی ہے، دھاندلی نہیں ہوتی۔ ملائشیا میں caretaker نہیں ہوتے، حکومت خود کراتی ہے، دھاندلی نہیں ہوتی۔ پڑوسی ملک ایران میں caretakers نہیں ہوتے۔ یہ صدر احمدی نژاد خود الیکشن کرائے دھاندلی نہیں ہوتی اور دوسرا پڑوسی آپ کا انڈیا ہے، انڈیا میں کبھی caretaker حکومت نہیں بنتی۔ خود الیکشن کراتے ہیں مگر الیکشن کمیشن اتنا مضبوط، خودمختار اور powerful ہے کہ حکومت کی مجال نہیں ہوتی کہ مداخلت کر سکے۔ جمہوریت اس نظام کا نام ہے۔ ہاں ایسے نظام پاکستان میں لاؤ جس سے دھاندلی کا خاتمہ ہو جائے، شفافیت آجائے، امانت و دیانت آجائے، اداروں پر اعتماد ہو اور سیاسی لیڈر دھاندلی کا نہ سوچیں ہم کہیں گے کہ اس ملک میں جمہوریت ہے اور یہ صحیح سیاست ہے۔ صرف پاکستان ہے، ایک عجیب و غریب مخلوق کا ملک، جس میں caretaker government کا پھڈا اور ڈرامہ ہے۔ چار ملک اور بھی ہیں۔ بتا دوں ذرا دیکھ لینا جہاں caretaker governmentsبنتی ہیں، شرم سے سر جھک جائے گا کہ ان سیاسی لیڈروں نے پاکستان کو کن ملکوں کے قطار میں لا کھڑا کیا ہے۔ پوری دنیا میں caretakers نہیں ہیں جمہوریتوں میں۔ کہاں ہیں؟ کوسووا میں caretaker government آتی ہے، پولینڈ میں caretaker government آتی ہے، روانڈا میں caretaker government آتی ہے اور نیپال میں caretaker government آتی ہے۔ ذرا سن لیں۔ ان ممالک کی صف میں ان کرپٹ، نااہل اور نالائق سیاسی لیڈروں نے پاکستان کو ان ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اپنے اداروں کو مضبوط نہیں کیا، عدل و انصاف کو طاقتور نہیں بنایا، transparency and accountability کو شفافیت نہیں دی۔ قانون کو مضبوط نہیں کیا۔ ہر طرف بدنیتی ہے، کرپشن ہے، دھاندلی ہے۔ ہر جماعت by hook or crook الیکشن جیتنا چاہتی ہے اور اس پر ادارے خاموش ہیں اور اس کو سیاسی عمل کا نام دیا جا رہا ہے۔ جو اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ خاص ایک ایجنڈے کے ساتھ آیا ہے، جو ظلم اور اندھیر نگری کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے آیا ہے۔ ارے ظالمو! مجھے دکھاؤ تو سہی کہ جمہوریت ہے کہاں، کون سی جمہوریت؟ دنیا تمہارا مذاق اڑا رہی ہے۔ پھر نتیجہ کیا ہوا، ان جمہوری حکومتوں نے پورے پانچ سال آمر تو گئے، فوجی آمر گئے ان جمہوری حکومتوں نے پانچ سال میں کیا دیا؟ 2008ء میں جمہوری حکومتیں آئیں۔ آج 2013 ہے۔ پٹرول 56 روپے تھا 2008ء میں آج 106 روپے فی لیٹر ہے۔ ڈیزل 39 روپے لیٹر تھا آج 110 ہے۔ سی این جی 30 روپے تھی آج 75 روپے ہے۔ امریکی ڈالر پاکستانی روپے کی قدر میں 68 روپے کا تھا آج 100 روپے کا ہے۔ آٹا 12 روپے کا تھا آج 38 سے 42 روپے کا ہے، چینی 27 روپے کی تھی آج 55 روپے ہے۔ دودھ 23 روپے کا تھا آج 70 روپے ہے۔ کوکنگ آئل 70 روپے کا تھا آج 190 روپے فی کلو ہے، یوریا کھاد 700 روپے تھی آج 1810 ہے۔ چائے 65 روپے تھی آج 145 روپے ہے، مرغی 71 روپے تھی کلو آج 145 روپے ہے، بڑا گوشت 120 روپے تھا آج 280 ہے، چھوٹا گوشت 330 تھا آج 580 ہے، دالیں 70 روپے کی تھیں آج 110 ہیں، کچھ دالیں 50 روپے کی تھیں آج 105 ہیں۔ بجلی کا یونٹ 3.13 پیسے تھا آج 9 روپے 38 پیسے ہے اور سب سے بڑا یہ تحفہ دیا اس قوم کو جمہوریت نے اوسطاً 12 ہلاکتیں پانچ سالوں میں ہر روز۔ ہر روز بارہ لاشیں گرتی رہی ہیں پانچ سالوں میں۔ پانچ سالوں میں دہشت گردی کے نتیجے میں چالیس ہزار شہید ہوگئے۔ کراچی میں ہر روز درجنوں لوگ ٹارگٹ کلنگ سے شہید ہوتے رہے ہیں، بلوچستان بدامنی اور بغاوت کا شکار ہے وہاں ایک مکتبہ فکر سو سو لاشیں لے کر چار دن بیٹھتا ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ خیبر پختونخواہ میں خون کی ہولی ہے، ہر شخص خوفزدہ ہے۔ اور 200 کے قریب گھر ہماری مسیحی بھائیوں اور بہنوں کے گھر جلا دئیے گئے، کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ارے ظالمو! قائد اعظم نے پاکستان ان مقاصد کے لیے بنایا تھا؟ ان کی روح تڑپتی ہو گی یہ کہہ کر کہ کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے قائداعظم نے جو نشیمن بنا کے دیا تھا ہم اس نشیمن کو آگ لگا رہے ہیں اور سب ادارے تماشا دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ ہو گا ہم سب اس ظلم اور جرم کے ذمہ دار ہوں گے۔ یہ تو آج کا نقشہ تھا، مگر عزیزو، ماؤں، بہنو، بیٹیو، بزرگو، بھائیو، بیٹو مایوس نہیں ہونا، مایوس نہیں جانا، میں تمہیں امید کا چراغ تھما کر گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔ تمہارے دلوں میں یقین کا چراغ جلا کر بھیجنا چاہتا ہوں، مایوس نہیں ہونا، پاکستان میں بڑا potential ہے، پاکستان بنا تھا اللہ کی مدد سے۔ رہے گا، لٹیروں کا خاتمہ ہوگا، ایک دن آئے گا آپ جیتیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1947ء میں پاکستان جغرافیائی طور پر تو آزاد ہوا مگر 65 سال گزرنے کے باوجود پاکستان کے کروڑوں غریب سیاسی، معاشی اور سماجی غلامی میں ہیں، لوگ غلامی سے نہیں نکلے۔ پاکستان کے غریب عوام ظلم اور نا انصافی کے شعلوں میں جھلس رہے ہیں۔ میرا ایک ایک لفظ اپنے سینوں میں اتارتے جائیں اور پھر امید کے چراغ جلاؤں گا، لے کر پلٹیں، مایوسیاں ختم کر دیں، کوئی شک نہیں کہ غریب ہاری، چھوٹا کسان، مزدور، محنت کش، جوان طالب علم اور عام شہری کوئی شک نہیں کہ غربت، کمزوری، مفلسی اور محرومی کی زنجیروں میں جھکڑی ہوئی یہ قوم ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ اٹھارہ کروڑ عوام پاکستان میں نہیں رہ رہے وہ غربت کے جزیرے میں رہ رہے ہیں اور اس ملک کی آسائشیں ان کے لیے نہیں۔ ہمارے ملک کے جو معمار تھے قائداعظم اور ان کی ٹیم اور آئین کے لکھنے والے، انہوں نے جب یہ آئین لکھا تھا تو اس میں پاکستانی عوام کے ساتھ ایک وعدہ لکھا تھا۔ میں قوم کو وہ وعدہ پڑھ کے سنانا چاہتا ہوں جس کی وفا نہ کی گئی۔ وہ وعدہ کیا تھا؟ قائداعظم نے پاکستان بنا کر اس آئین میں لکھا ہے، Preamble میں کہ لوگو! پاکستان اسلامی اصولوں پر مبنی سماجی عدل و انصاف کا معاشرہ فراہم کرے گا، یہ وعدہ پورا ہوا؟ اس آئین کے آرٹیکل 3 میں۔ میں پھر پوچھوں گا کہ یہ نظام سیاست آئینی ہے؟ ہمارے بزرگوں نے اور آئین پاکستان کے ذریعے ایک وعدہ دیا تھا elimination of exploitation کہا تھا کہ ہر قسم کا استحصال اور نا انصافی لوگوں سے اس ملک میں سے ختم کر دی جائے گی اور جس میں جتنی صلاحیت ہے اس کو اتنا ملے گا۔ کیا ایم اے کو ایم اے کے برابر ملتا ہے؟ کیا انجینئر کو صلاحیت کے مطابق ملتا ہے؟ کیا ڈاکٹر کو اس کا روزگار ملتا ہے؟ کیا پی ایچ ڈی کو روزگار ملتا ہے؟ پی ایچ ڈی دھکے کھاتے ہیں اور جعلی ڈگریاں رکھنے والے ملک کے وزیر بنتے ہیں۔ قائداعظم نے اور ہمارے بزرگوں نے اس آئین کے ذریعے وعدہ کیا تھا آئین کے آرٹیکل 9 کے ذریعے، اس ملک کے ہر شخص کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟ ہمارے بزرگوں نے اس آئین کے آرٹیکل 25 کے ذریعے وعدہ کیا تھا کہ تمام امیر اور غریب چھوٹے بڑے شہریوں کو برابری دی جائے گی اور قانون کا تحفظ ہر ایک کے لیے یکساں ہو گا ،غریب اور امیر، طاقتور اور کمزور کا فرق اس ملک میں نہیں ہو گا۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟ اس آرٹیکل 25 کے کلاز A میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس دھرتی پر پیدا ہونے والے ہر بچے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا، کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟ اس آئین کے آرٹیکل 38 میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر بسنے والے ہر ایک شخص اور ہر ایک کنبے کی معاشی اور سماجی زندگی کو بہترین کیا جائے گا اور پیسے کی تقسیم منصفانہ ہو گی تاکہ امیر امیر تر نہ بنے، غریب غریب تر نہ بنے۔ مزدور اور مالک میں بھی فرق مٹایا جائے گا اور زمیندار اور کسان کا فرق بھی مٹایا جائے گا۔ آرٹیکل 38، بولئے آئین کا وعدہ پورا ہوا؟ اسی آرٹیکل 38 کی کلاز D میں یہ وعدہ کیا گیا تھا ان کے ذریعے ہر شخص کو کھانا ملے گا عزت کے ساتھ، لباس ملے گا، گھر ملے گا،روٹی، کپڑا، مکان ملے گا، تعلیم ملے گی، علاج ملے گا، انصاف ملے گا، روزگار ملے گا۔ بلا تمیز ہر شخص کو یہ حقوق ملیں گے، بولئے کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟ یہ آرٹیکل 40 تک۔ آئین پاکستان میں سن لیں کل 280 آرٹیکلز ہیں ان میں سے پہلے 40 آرٹیکلز وہ ہیں جو عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر مشتمل ہیں۔ پہلے 40 آرٹیکلز میں انسانی حقوق ہیں، پاکستانی عوام کے حقوق اور وعدے ہیں اس کے بعد 240 آرٹیکل پھر حکومت سے متعلق ہیں کہ صدر و وزیراعظم کیسا، گورنر کیسا، وزیر اعلیٰ کیسا، وفاقی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کیسی، عوام سے متعلق آرٹیکل 40 ہیں۔ 65 سال گزرے اس ملک کی پانچوں اسمبلیوں نے آج کے دن تک ان 40 کے 40 وعدوں میں سے ایک وعدہ پورا نہیں کیا اور ایک وعدے کو بھی پورا کرنے کے لیے آئین کا کوئی قدم نہیں اٹھایا، کیا ان حکومتوں کو اور اس سیاسی عمل کو اور اس نام نہاد جھوٹی جمہوریت کو آئینی جمہوریت کہا جائے؟ کیا یہ حکومتیں آئینی حکومتیں ہیں؟ اگر ان کے خلاف آپ علم بغاوت بلند کرتے ہیں تو یہ کیوں نہیں اٹھیں گے آپ کے خلاف؟ اور میں یہ بتانا چاہتا ہوں غریب کو جو وعدہ ملا وہ تو یہ تھا کہ غریب اور امیر میں کوئی فرق نہیں ہو گا مگر یہ وعدہ آئین کے کاغذوں پر لکھا ہوا ہے آئینی وعدہ جب غریب کے ہاتھ میں آیا تو غریب شہری پاکستان کے خزانے کے پاس گیا، پاکستان کے حقوق کے خزانے کے پاس گیا، پاکستان کی پارلیمنٹ کے پاس گیا، پاکستان کی عدالتوں کے پاس گیا، پاکستان کے حکمرانوں کے پاس گیا، لیڈروں کے پاس گیا یہ پرچہ لے کر کہ یہ آئین میں میرے وعدے کئے گئے، میرا حق مجھے دو، تو سارے اداروں نے کہا کہ funds are insufficient کہ خزانے میں فنڈ نہیں ہیں۔ غریب کو کچھ نہیں مل سکتا، MPA کو ڈیڑھ ارب ہر ایک کو مل سکتا ہے، وزیروں کو پانچ پانچ اور 35، 35 ارب مل سکتے ہیں۔ غریب کے لیے کہا کہ خزانہ خالی ہے۔ ہم انکار کرتے ہیں کہ پاکستان کا خزانہ دیوالیہ ہو گیا ہے غریبوں کے لیے، نہیں یہ خزانہ لٹیروں سے چھیننا ہوگا۔ پاکستان میں قومی وسائل اور مواقع وہ دیوالیہ بینک کرپٹ نہیں ہوئے مگر ان وسائل پر ظالم قابض ہو گئے ہیں تمہیں بڑھ کر انہیں چھیننا ہو گا۔ اپنے جاب، اپنی برابری، اپنی خوشحالی اس میں وسائل کا خاتمہ نہیں ہے، لٹیرے چھین کے لے گئے، تمہیں بڑھ کے ان سے لینا ہو گا۔ لوگو! امید دلا رہا ہوں، یہ وقت ہے اٹھنے کا، اندھیری وادیوں سے اٹھو، ظلم اور ناانصافی کی وادیوں سے اٹھو، برابری، عدل، انصاف اور حقوق کی پہاڑیوں کی چٹانوں تک پہنچو۔ اللہ تمہیں سربلند کر دے گا۔ نفرتوں اور انتہاء پسندی کے ریتلے صحراؤں سے نکلو۔ محبت، رواداری، برداشت اور اعتدال کی عظمتوں تک پہنچو۔ جو سسٹم خدا نے دیا ہے اس کی بنیاد محبت ہے، اس کی بنیاد امید ہے، اس کی بنیاد برابری ہے، اس کی بنیاد عدل و انصاف ہے، اس کی بنیاد اعتدال ہے، اس کی بنیاد نفرت نہیں، لوٹ گھسوٹ نہیں، کرپشن نہیں، انتہاء پسندی نہیں، دہشت گردی نہیں۔ یہ دو الگ کلچر ہیں ایک کلچر خدا نے دیا ہے، ایک کلچر شیطان نے دیا ہے خدا والے بنو اور شیطان والوں سے جنگ کا آغاز کر دو۔ یہ 17 مارچ 2013ء ہماری جدوجہد کا آخری دن نہیں۔ 23 دسمبر سے آج 17 مارچ تک جدوجہد کا شعور بیدار کیا، اصل جدوجہد کا آج سے آغاز ہو رہا ہے۔
امید (hope)
س نظام کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھنا ہے۔ اٹھو اور ظلم کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کر دو، اٹھو پوری قوم کو کھڑا کرو اس وقت تک جب تک عدل و انصاف کا سورج طلوع نہ ہو جائے۔ (آگے ایک وقت بڑی جلدی آنے والا ہے، پورا میڈیا آپ کو اس میں لگا دے گا۔ ٹی وی، اخبارات اس میں الجھا دیں گے۔ پوری قوم ایک مکر اور فریب میں مبتلا ہو جائے گی۔) یاد رکھ لینا! کرپشن، ظلم اور دھاندلی کے گلاس سے گدلا اور گندا پانی پی کر اپنی پیاس کبھی نہ بجھانا۔ میری نصیحت یاد رکھ لو! اس سے امید کے چراغ جلیں گے۔ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے دسترخوان سے حرام کھا کر اپنی بھوک کبھی نہ مٹانا، بھوکے مر جانا مگر دہشت گردی کے دسترخوان سے حرام نہ کھانا۔ مکار سیاسی لیڈروں کے غلط وعدوں اور دھوکوں کی چمک خرید کر، جھوٹے وعدوں کی چمک لے کر اندھیروں میں نہ بھٹکنا۔ ریاست دشمن سیاست اور غریب دشمن نظام انتخاب کا حصہ بن کر جرم و گناہ کو مزید طاقتور نہ بنانا۔ اس غریب دشمن نظام ۔ جو مئی میں آرہا ہے ۔ کا حصہ بن کر اس جرم، دھاندلی، کرپشن کے نظام کو طاقتور نہ بنانا۔ یاد رکھ لیں اگر مقصد فوری طور پر نہ ملے تو کوئی حرج نہیں مگر گدھوں کی طرح، جیسے گدھ ہوتے ہیں، گدھوں کی طرح نیچے گر کر مردار نہ کھانا۔ اے طائر لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی گدھ نہ بننا اور گدھوں کی طرح نیچے اتر کر مردار کھا کر اپنے پیٹ نہ بھرنا بلکہ شہباز بنے رہنا اور شہبازوں کی طرح اپنی پرواز بلند رکھنا، منزل ایک دن تمہارے قدم چومے گی۔ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں گرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور میں قوم کو گرگِس، گدھ نہیں بنانا چاہتا؛ تمہیں شاہین پرواز رکھنا چاہتا ہوں، جو علامہ اقبال نے بننے کو کہا تھا۔ میرا درس اقبال کا درس ہے، میرا درس محمد علی جناح کا درس ہے، میرا درس غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کا درس ہے، میرا درس داتا گنج بخش علی ہجویری کا درس ہے، میرا درس خواجہ اجمیر کا درس ہے، میرا درس یزید کا نہیں حسین کا درس ہے، میرا درس علی اصغر کا درس ہے، علی اکبر کا درس ہے، میرا درس علی شیر خدا کا درس ہے، میرا درس عثمان غنی کا درس ہے، عمر فاروق کا درس ہے، صدیق اکبر کا درس ہے، میرا درس تاجدار کائنات a کا درس ہے۔ ابوجہل و ابو لہب کا درس نہیں۔ منزل ایک نہ ایک دن ضرور ملے گی۔ لوگو ! جو لوگ اس فرسودہ نظام کا حصہ بنیں گے وہ مایوسی کی وجہ سے بنیں گے کہ شاید اور کوئی راستہ نہیں، نہیں ایک راہ بند سو راہ کھل جائیں گے۔ ایک راستے کو بند کریں رب سات سو راستے کھول دے گا۔ اور یاد رکھ لیں جس نظام سیاست نے، جس نظام انتخاب نے آپ کو 65 سال سے محروم رکھا ہے اور آپ کے ملک کو کمزور اور تباہ حال کر دیا ہے اور کرپشن کا راج کر دیا ہے اگر اسی نظام کو آپ دوبارہ ووٹ دے کر، انہی لٹیروں کو پھر طاقت دیں، پھر حکومت میں لائیں تو آپ مجرم ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ جواب دیجئے۔ میں آپ کو سخت امتحان میں ڈالنا چاہتا ہوں، بڑھو گے کہ نہیں، ہاتھ اٹھا کے کہیے، جو لوگ کرپٹ اور ظالم نظام میں ووٹ دیں گے وہ دراصل اس نظام کو قوت دیں گے، اس نظام کو سہارا دیں گے، دھن دھونس اور دھاندلی اور کرپشن پہ مبنی نظام سے یاد رکھ لو اللہ کی عزت کی قسم میں اپنی بصیرت اور ایمانی یقین کی بنیاد پہ کہہ رہا ہوں کہ اس دھن دھونس اور دھاندلی، کرپشن کے نظام سے ملک میں تبدیلی کے لیے اسے جرات کرکے ٹھکرانا ہوگا، حصہ نہیں بننا، ٹھکرانا ہوگا، ٹھکراؤ گے تو ان شاء اللہ رب کی مدد ملے گی۔ آپ سوال کر سکتے ہیں، آپ پوچھ سکتے ہیں مجھ سے کہ یہ جدوجہد کب تک جاری رہے گی؟ اب آپ سوال کر سکتے ہیں، میں دنوں، مہینوں، ہفتوں اور سالوں کی بات نہیں کر سکتا۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک غریبوں کے گھروں کو اجالا نہیں مل جاتا، ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک غریبوں کی اندھیری کوٹھیوں کو اجالا نہیں ملتا۔ میری اور آپ کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بھوکوں کو باعزت طریقے سے نوالہ نہیں مل جاتا، ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کسان اپنی اگائی ہوئی زمین کا خود مالک نہیں بن جاتا۔ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مزدور اپنی تخلیق کا پھل خود نہیں کھاتا اور مل کے منافع کے پچاس فیصد کا حصہ دار خود نہیں بن جاتا۔ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک عدل و انصاف پانی کی طرح ہماری سوسائٹی کو سیراب نہ کر دے۔ ہم اس وقت تک جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک محبت اس ملک سے نفرت کا خاتمہ نہ کر دے۔ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک moderation اور اعتدال پسندی انتہاء پسندی کا خاتمہ نہ کر دے۔ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک امن اور آشتی ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ نہ کر دے، ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک علم و شعور ملک سے جہالت اور ناخواندگی کا خاتمہ نہ کردے۔ ہماری جدوجہد اس وقت تک رہے گی جب تک معاشی خوشحالی غریبوں کے چہروں پر خوشیاں واپس نہ لے آئے۔ مزدورو، محنت کشو، کسانو، چھوٹے تاجرو، ماؤں، بہنو، بیٹیو، عظیم فرزندو! آج اس جلسے کے بعد اس یقین کے ساتھ گھر واپس لوٹو، مایوسی ختم کر کے، اس یقین کے ساتھ واپس لوٹو کہ نظام بالآخر ضرور بدلے گا۔ (نظامی صاحب اور عارف صاحب! میں نے اصل ویژن دینا ہے ابھی، اصل تبدیلی کا خاکہ دینا ہے ملک کا، اصل خاکہ دینا ہے کہ کیا تبدیلی چاہتے ہیں۔) اس یقین سے لوٹو کے نظام بالآخر بدلے گا، انقلابی تبدیلی بالآخر ضرور آئے گی، عوام خوشحال ہوں گے، ملک کا مستقبل روشن ہو گا مگر اس کرپٹ انتخابی نظام کے ذریعے نہیں، اس کرپٹ سیاسی کلچر کے ذریعے نہیں، ان کی دیواروں کو گرانا ہے اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اس نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پنجاب کے میدانوں پر بھی روشنی آئے گی، مجھے یقین ہے سندھ کے ریگستانوں میں روشنی پھوٹے گی، مجھے یقین ہے بلوچستان کے پہاڑوں پہ روشنی پھوٹے گی، مجھے یقین ہے کشمیر کے چوٹیوں پر اجالا آئے گا۔ مجھے یقین ہے خیبرپختونخواہ کی وادیوں پر نور بکھرے گا، عدل وانصاف اور خوشحالی و ترقی کا سورج طلوع ہو گا، ٹھنڈی ہوائیں آئیں گی، تپش جائے گی مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈٹے رہو، تمہارے قدم لڑکھڑائیں نہیں، آنے والے وقتوں میں بدی کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرنا، اس نظام کے خلاف بغاوت پر ڈٹے رہنا ہے تا کہ دنیا دو رنگ دیکھے، ایک دن آنے والا ہے، مئی میں ایک دن ادھر اس گندے نظام کو طاقت دینے والوں کی تصویریں آئیں، ادھر گندے نظام کے خلاف احتجاج کرنے والے لاشوں کی تصویریں آئیں، دنیا سچ دیکھ لے گی کہ حق کے ساتھ کون ہے اور باطل کے ساتھ کون ہے۔
Vision of Pakistan
میں یہ دیکھتا ہوں کہ پاکستان میں جب تک یہ تبدیلیاں نہیں آئیں گی اس کے نظام میں، کبھی عوام کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ پاکستان کے لیے ہمارا role model مدینہ کا role model ہے، جب آقا e نے ہجرت فرمائی اور مدینہ کو سٹیٹ بنایا تو devolution of power دی اور participatory democracy دی۔ شراکتی جمہوریت دی اور اختیار کو نچلے درجے تک منتقل کیا۔ دس دس آدمیوں کے یونٹس پر ان کا سربراہ نقیب بنایا، دس دس نقیبوں کے اوپر پھر ان کا سربراہ عریف بنایا اور سو سو عرفاء پہ مشتمل پھر پارلیمنٹ بنائی اور تمام اختیارات آقا e نے نیچے منتقل کر دیے۔ میں اہم تبدیلیاں suggest کر رہا ہوں۔ ان کے بغیر پاکستان کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اس نظام کو چھوڑنا ہو گا، اس نظام سے نکلنا ہو گا۔ ترکی کو دیکھئے، ترکی کی ساڑھے سات کروڑ آبادی ہے 81 صوبے ہیں، ایران کے ساڑھے چھ کروڑ کے قریب آبادی 30 صوبے ہیں، جاپان کی ساڑھے بارہ کروڑ سے زائد آبادی میں 47 صوبے ہیں، چائنہ کی ایک سو پینتیس کروڑ آبادی 33 صوبے ہیں، ملائشیا کی 3 کروڑ کے قریب آبادی 15 صوبے ہیں، امریکہ کی 30 کروڑ 13 لاکھ آبادی 50 اسٹیٹس ہیں، ویت نام کی 9 کروڑ آبادی اور 58 سٹیٹ ہیں، الجیریا کی ساڑھے تین کروڑ آبادی اور 48 صوبے ہیں، کینیا کی 4 کروڑ کے نزدیک آبادی ہے 26 صوبے ہیں، فرانس کی ساڑھے 6 کروڑ آبادی 26 صوبے ہیں۔ اٹلی کی ساڑھے 6 کروڑ کے قریب آبادی 20 صوبے، روس کی 14 کروڑ آبادی 83 صوبے اور ہماری 18 کروڑ آبادی صرف 4 صوبے۔ اتنا بڑا شرم ناک تماشا اختیارات کو جمع کرنے کا دنیا میں کہیں نہیں۔ میں نے ساری دنیا کا حکومتی نقشہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔ دنیا کے سارے ممالک نے اختیارات چالیس چالیس، پچاس پچاس، ستر سترصوبے بنا کے نیچے تقسیم کر دئیے، مرکز کے پاس امریکہ جیسا ملک صرف 15 وزیر، ساڑھے انیس ہزار لوکل گورنمنٹس پورا امریکہ 1900 مئیر، ناظم چلا رہے ہیں؛ اوبامہ نہیں چلا رہا۔ اوباما امریکہ کے اوپر کے معاملات کو دیکھتا ہے، ملک عوام کے حقوق کو مئیر چلاتے ہیں۔ یہی نظام ترکی کا، یہی نظام جاپان کا، یہی چائنہ کا، یہی ایران کا، یہیں ملائشیا کا سب ملکوں کا یہی نظام۔ ہمارے چار صوبے تا کہ گردنیں اکڑی رہیں، اختیارات بڑھیں۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے تماشا بنا رکھا ہے اور اختیارات یا مرکز کے پاس یا بڑے بڑے چار صوبوں کے پاس، عوام کلیتاً محروم۔ جس نے رحیم یار خان اور صادق آباد سے چلنا ہے وہ عدل و انصاف لینے کے لیے لاہور آئے، ظلم کی انتہا ہے۔ راجن پور سے چلنے والا لاہور آئے۔ بلوچستان کے اندرون سے چلنے والا کوئٹہ جائے، اندرون سندھ سے جانے والا کراچی جائے۔ میں جو ویژن دینا چاہتا ہوں پاکستان کیا نیا ماڈل اس میں پاکستان کے کم سے کم 35 صوبے ہونے چاہئے۔ جب تک 35 صوبے، مطلب ہر ڈویژن صوبہ ہو گا اور فاٹا بھی صوبہ بنے گا، پانا بھی صوبہ بنے گا۔ ہر ڈویژن کو صوبہ اور کمشنر کا فنڈ اس صوبے کے گورنر کو دے دیا جائے، دنیا کے کسی ملک میں انڈیا کے سوا، کسی صوبے میں وزیر اعلیٰ نہیں ہوتا۔ کسی صوبے میں صوبائی وزراء نہیں ہوتے پاکستان کے صوبوں سے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزارتوں کو ختم کرنا ہوگا تا کہ ارب ہا روپے کے فنڈ جو حرام خوری، عیاشی اور سرکاری پروٹوکول پہ جاتے ہیں وہ براہ راست غریبوں میں تقسیم ہو سکیں اور صوبے کا گورنر کمشنر کی جگہ اور ضلعے پر مئیر ہو گا، وی سی کمشنر ختم کر دئیے جائیں اور تحصیل پر ڈپٹی میئر ہوگا۔ عوام کے منتخب نمائندے ان کے حکمران۔ اور مرکز کے پاس صرف پانچ محکمے ہونے چاہیے تا کہ مرکز کی عیاشی بھی ختم کی جائے: صرف سٹیٹ بینک اور کرنسی، دفاع، خارجہ پالیسی، ہائیر ایجوکیشن، اِن لینڈ سکیورٹی اور کاؤنٹر ٹیررزم تاکہ پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم ہو۔ اس طرح کے چند محکمے، پانچ سے سات محکمے مرکز کے پاس باقی سارے محکمے صوبوں کو منتقل کر دئیے جائیں اور صوبوں کے بعد پھر وہ سارے محکمے ضلعی حکومتوں کو منتقل کر دئیے جائیں۔ ٹرانسپورٹ بھی ضلعی حکومت کے پاس، پانی، بجلی، سوئی گیس، واٹر، فوڈ، ایجوکیشن، میڈیکل، سکیورٹی، سڑکیں، پولیس سب اختیارات ضلعی حکومتوں کو دے دئیے جائیں تا کہ وہاں کے ٹیکس وہاں لگیں اور لوگوں کو براہ راست داد رسی مل سکے۔ اور یہ فراڈ بڑے بڑے حکمرانوں کا ختم کر دیا جائے، ان بتوں کو پاش پاش کر دیا جائے۔ اور اس کے لیے میں ایک اہم بات کہنے والا ہوں، ٹھیک ہے ہمارے ملک کا نظام پارلیمانی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ اس پارلیمانی نظام کو بدلو اور صدارتی بناؤ، یہ نہیں کہتا۔ پارلیمانی نظام رہے مگر اس میں ایک مکسچر کرنا ہوگا، صدارتی اور پارلیمانی نظام دونوں کی خوبیوں کو جمع کر کے پارلیمانی نظام کا نیا پاکستانی ماڈل تیار کرنا ہو گا۔ یہ میرا ویژن ہے۔ میں پاکستان کو ایسا دیکھنا چاہتا ہوں۔ صدارتی اور پارلیمانی نظام دونوں کی خوبیوں کو جمع کر کے پاکستان کے سیاسی حالات کے مطابق ایک پاکستانی ماڈل تیار کرنا ہو گا۔ اور وہ کیسے؟ صدر تو جو ہوتا ہے سو ہوتا ہے آئین کے مطابق وزیر اعظم وہ پارلیمنٹ منتخب نہ کرے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام براہ راست ووٹ سے ملک کا وزیر اعظم منتخب کریں۔ سارے لیڈروں کو ٹی وی پہ لایا جائے، ان کی صلاحیتوں کو پرکھا جائے، ان کے کردار کو پرکھا جائے، ان کے منشور پر بحث ہو۔ ان سے خارجہ پالیسی پر debate کرے، ان سے دفاع پر debate کرے، inland سکیورٹی پر بحث کرے، اکانومی پہ debate کرے، regional and geo-political policy پر debate کرے۔ پاکستان، انڈیا، چائنہ relations پر debate کریں، ان کا ویژن دیکھیں۔ ساری قوم سنے اور سن کر فیصلہ کرے اپنا وزیر اعظم کس کو منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ ہر شخص براہ راست ووٹ دے۔ آپ اس قرارداد کو منظور کرتے ہیں یا نہیں؟ نتیجتاً وزیر اعظم وہ قائد ایوان نہیں ہوگا۔ اب ہمارا وزیر اعظم قائد ایوان ہوتا ہے، leader of the house، میرے دئیے ہوئے نظام کے تحت وہ قائد عوام ہو گا، وہ leader of the opposition ہوگا۔ میں وزیر اعظم کو leader of the nation بنانا چاہتا ہوں۔ ہر شخص کے ووٹ سے جیتے تاکہ ہر شخص کا اپنے وزیر اعظم کے ساتھ براہ راست تعلق ہو۔ پھر اس کے بعد جب کابینہ بنے، ہمارے ہاں وہ شخص وزیر صحت بنتا ہے جس کی اپنی صحت ہی کوئی نہیں، جس کو panadol کی گولی کے شاید spelling بھی نہ آئیں۔ وہ شخص وزیر زراعت بنتا ہے جس نے کبھی دیہات کا منہ ہی نہیں دیکھا۔ وہ وزیر دفاع بنتا ہے جو ہوش میں بھی کب آتا ہے؟ جسے دفاع کی الف بے جیم کا نہیں پتا۔ وہ وزیر خارجہ بنتا ہے، ہم پکڑ کے ان پڑھ کو، ناتجربہ کار کو، نااہل کو اٹھا کے وزارت پہ بیٹھا دیتے ہیں اور وہ ٹھوکریں کھا کھا کر وزارت کے دوران سیکھتا ہے اور سیکھنے سے پہلے پھر تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ کیا تماشا بنا رکھا ہے۔ میں اداروں سے پوچھتا ہوں کہ خاموش رہ کر اس تماشے کو کب تک برداشت کرو گے۔ میرا سوال ہر ادارے سے ہے، میرا حق ہے پوچھنا، عوام سے بھی پوچھتا ہوں، اداروں سے بھی پوچھتا ہوں، کیا اس طریقے سے آپ کا ملک ترقی کرے گا؟ آپ کے وزراء اپنے subject کے PhD ہونے چاہے، تجربہ کار لوگ ہونے چاہییں، ٹیکنوکریٹس ہونے چاہییں، specialists ہونے چاہییں، بھلے وہ پارلیمنٹ سے ہوں یا باہر سے ہوں۔ یہ طریقہ امریکہ میں رائج الوقت ہے اور پارلیمنٹ کے ممبران کو ڈویلپمنٹ فنڈ بند کر دئیے جائیں وہ حرام خوری کے لیے نہیں ہیں۔ ان پارلیمنٹ کے ممبران کو ڈی سی، ایس پی، تھانیدار، پٹواری، تحصیلدار ان کی تقرریوں کے اختیارات بند کر دئیے جائیں، سوائے تنخواہوں کے ساری مراعات بند کر دی جائیں۔ دیکھیں 75 فیصد کرپٹ لوگ الیکشن لڑنا چھوڑ دیں گے۔ وہ کہیں گے جب حرام کا پیسہ نہیں ملنا تو خرچ کیوں کریں۔ تو جب وزیر خود نالائق ہوتے ہیں تو حکومت کون چلاتا ہے؟ حکومت چلاتی ہے بیوروکریسی، پھر یہ نالائق لیڈر عمر بھر اسٹیبلشمنٹ کا رونا روتے ہیں کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کرنے کچھ نہیں دیتی، تمہیں کیا کرنے دے، تمہیں کچھ آتا ہو تو کرنے دیں۔ تم تو ان پڑھ ہو، جاہل ہو ، جعلی ڈگریوں کے لوگ ہو، کرپٹ ہو، تمہیں تو تجربہ نہیں ہے، تو بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ تمہیں کیا کرنے دے؟ اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو لائق لوگوں کو چن کر ملک کا وزیر بناؤ۔ دانش مند لوگوں کو لگاؤ اور ایم این اے کی موجودہ پوزیشنوں کو ختم کرو، انہیں صرف legislator بناؤ، قانون سازی کریں، تنخواہ لیں اپنے گھر جائیں۔ اس ویژن کا پاکستان اس میں غریب عوام کے کچھ حقوق دینا چاہتا ہوں لوگوں کو۔ اس ویژن کے تحت زرعی اراضی جاگیرداریت کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور زرعی اراضی کی حد فی خاندان 50 ایکڑ مقرر کر دی جائے، اس سے زیادہ کسی کو اجازت نہ ہو جاگیر دار بننے کی، سرمایادار بننے کی اور بے زمین کسان، مزارعین اور ہاری جتنی زمین بنجر ہے اس کو آباد کریں اس کے مالک ہو جائیں۔ جو زمین آباد کرے وہی مالک ہو۔
- یہ میرا پاکستان ہے اور یہ قائداعظم کا پاکستان ہے اور یہ آئین پاکستان کا پاکستان ہے۔ آرٹیکل 253-A اور آرٹیکل 38-A میں لکھا ہے۔
- میرے پاکستان کے ویژن میں ہر نوجوان کو روزگار ملے ،عیاشیاں ختم ہوں، صدر ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤس، چیف منسٹر ہاؤس، اربوں روپے کی عیاشیاں، فنڈ ختم، سارے عوام کو دیں۔
- ہر نوجوان کو روزگار دیں جس کو روزگار نہ ملے اسے دس ہزار ماہانہ الاؤنس دیں۔ اس پاکستان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔
- تیسرا ہر بے گھر خاندان کو پانچ مرلے کا پلاٹ مفت دیا جائے اور آسان قسطوں پر قرض دیں کہ گھر بنا سکیں۔ میں پاکستان میں ہر غریب خاندان کو اپنے گھر کا مالک دیکھنا چاہتا ہوں۔
- استحصالی، سرمایہ داریت کا خاتمہ چاہتا ہوں تاکہ ملوں، فیکٹریوں کے مزدور اس کے منافع کے پچاس فیصد حصے کے مالک بن جائیں۔
- دہشت گردی کا کلیتاً خاتمہ اور پاکستان کو امن کا مسلمانوں کے لیے بھی اور غیر مسلموں کے لیے بھی امن کا گہوارا دیکھنا چاہتا ہوں۔
- مقامی حکومتوں کو سارے اختیارات منتقل کرنا چاہتا ہوں۔ ایس ایچ او، یہ پولیس کلچر ختم، ضلعی حکومتوں میں عوام کا منتخب نمائندہ ایس ایچ او بنے اور عوام کے نمائندے ایس ایچ او بنیں۔
- اور پورے ملک میں دوہرا نظام تعلیم اس بت کو ختم کرنا چاہتا ہوں کہ غریب کا بچہ ہمیشہ کلرک رہے اور امیر کا بچہ وزیر بنے۔ نہیں ایک نظام تعلیم ہو، امیر بھی وہی پڑھے گا اور غریب بھی وہی پڑھے گا۔
- خواتین کو برابر حقوق دینا چاہتا ہوں، معاشی تحفظ دینا چاہتا ہوں۔
- یونین کونسل، تحصیل کی سطح پہ عدالتوں کو فروغ دینا چاہتا ہوں اور ہر ڈویژن میں ہائی کورٹس کو لے جانا چاہتا ہوں۔
- امیروں پر ٹیکس زیادہ اور متوسط طبقے پر کم اور کل غریبوں پر ٹیکس ختم کرنا چاہتا ہوں۔
- سرکاری اور غیر سرکاری ملازم ان کی تنخواہوں کا، چھوٹے بڑے تنخواہوں کا فرق مٹانا چاہتا ہوں۔
- کرپٹ لیڈر، افسر اور جج ان ساروں کا احتساب چاہتا ہوں۔ اور لوٹی ہوئی دولت قوم کو واپس دلانا چاہتا ہوں۔
- صدر وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنا چاہتا ہوں۔
- غریبوں کو بجلی، پانی، گیس اور فوڈ۔ ان کے بلوں میں پچاس فیصد ٹیکس ختم کر کے رعایت دینا چاہتا ہوں۔
- اور متناسب نظام انتخاب رائج کرنا چاہتا ہوں، متناسب، پارٹی لسٹ سسٹم جس میں ووٹ constituency کے شہنشاہ کو نہ ڈالے جائیں بلکہ پارٹی لیڈر کو، پارٹی منشور کو، قومی ایشوز کو، نیشنل پالیسیز کو ڈالے جائیں تاکہ صحیح قیادت منتخب ہونے کا موقع آجائے۔ اس تمام situation میں ایسے پاکستان کو بنانے کے لیے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
جو نظام نہیں بدلا اور یہ انتخابات کا نظام یہ میرے ویژن کا پاکستان لائے گا؟ الیکشن کمیشن نے جو فارم چھاپے ہیں، آپ حیران ہوں گے، جس پر شور مچا ہوا ہے کہ بدعنوانوں کو نکال دیں گے، اس کے اندر ایک فراڈ ہے، ایک جھوٹ ہے، دجل ہے، فریب ہے۔ ساروں کا مک مکا، الیکشن کمیشن کےnomination papers جو انہوں نے نئے بنائے ہیں، جس پر بڑا شور و غوغا ہے ملک میں اس کے صفحہ نمبر 2 پر سیکشن 4 اس کی clause ایک ہے، explanation کی۔ اس میں لکھ دیا ہے کہ جو شخص جتنا بڑا قرض لے کے اربوں روپے کا قرض کھا جائے، اگر کسی کورٹ سے stay کی پرچی لے آئے تو وہ الیکشن کے لیے اہل ہے اسمبلی جا سکتا ہے۔ stay کی پرچی چاہئے۔ الیکشن کمیشن کے پیپرز۔ میں پوری قوم کو بتا رہا ہوں اور پوری قوم کا میڈیا یہ الیکشن کمیشن کے nomination papers صفحہ نمبر دو اور صفحہ نمبر۳ پوری قوم کو بتائے کتنا بڑا دجل اور فراڈ ہو رہا ہے۔ اس کے کلاز 3 میں درج ہے کہ ٹیکس چور بیس سال سے بھی جس نے ٹیکس نہ دیا ہو، لاکھوں کروڑوں کا ٹیکس ایک پائی بھی نہ دیا ہو ٹیکس کی کورٹ سے ایک stay کی پرچی لے آئے تو کوئی گرفت نہیں وہ الیکشن لڑ سکتا ہے، اسمبلی میں جا سکتا ہے۔ ایک stay کی پرچی لانے پر قرض خور بھی گزر گئے، ٹیکس چور بھی گزر گئے، کئی چور دروازے تھے۔ اور صفحہ نمبر 3 کلاز 4 یوٹیلٹی بل جتنا بھی نادہندہ ہو اگر stay لے کر آ جائے، کسی عدالت کی ٹربیونل کی پرچی لے آئے تو اس کو بھی معاف ہے۔ صرف ان کو پکڑا جائے گا ، روکا جائے گا جو اربوں کے قرض بھی لیں اور اتنے بیوقوف اور گدھے ہوں کہ کسی عدالت سے stay کی پرچی بھی نہ لے سکیں تو گدھے ہونے کی وجہ سے اسے روکا جائے گا کہ پاگل کے بچے تم نے دس کروڑ قرض کھایا ایک ارب کا قرض کھایا، دس ارب روپے کا قرض کھایا اور پانچ دس لاکھ روپے دے کر ان بینک کی کورٹ سے stay بھی نہیں لاسکا؟ تم اتنے گدھے ہو کہ تم اسمبلی میں جانے کے قابل نہیں ہو تو ٹیکس چوری گناہ نہیں، stay نہ لینا گناہ ہے، جو stay لے آئے وہ معاف ہے۔ الیکشن کمیشن چوروں کے stay دینے کے لیے بیٹھا ہے، ٹیکس چوروں کو stay دے دیا، قرض خوروں کو stay دے دیا۔ میں نے الیکشن کمیشن کی nomination فائل دکھا دی پوری قوم کو۔ محاسبہ کرو ان سے یہ کس قسم کا الیکشن کرائیں گے۔ لہٰذا میں ایمانداری سے دیکھتا ہوں پوری قوم سن لے ایسے الیکشن کمیشن کے تحت اور ایسے نظام کے تحت ہونے والے الیکشن دھاندلی ہو گی، کرپشن ہو گی، انہی لوگوں کو پلٹا کر پھر حکومت میں لایا جائے گا اور میری بات سن لو پھر معلق (hung) پارلیمنٹ بنے گی، مستحکم حکومت نہیں بنے گی، پھر انہی لٹیروں کا بازار لگے گا، دیکھ لینا یہی اسلام آباد۔ میرے لفظوں کو یاد رکھنا، انہی چوروں لٹیروں کا بازار لگے گا، یہی کرپشن ہوگی، یہی hung پارلیمنٹ ہوگی، جمہوریت کے منہ پہ طمانچہ ہوگا اور یہ الیکشن اس قوم کے لیے بہت بڑا جرم ہوگا۔ ظلم ہونے کو جا رہا ہے۔ سو پاکستان عوامی تحریک اس جر م میں حصہ دار بننے کے لیے تیار نہیں ہے، ہم مسترد کرتے ہیں۔
تبدیلی ۔ مگر کیسے؟
پاکستان عوامی تحریک اس کرپٹ الیکشن سسٹم کا حصہ دار بننے کو تیار نہیں۔ سنو !میں نے جو نعرہ پہلے دن لگایا تھا اللہ کی عزت کی قسم! میں آج بھی اسی نعرے پر قائم ہوں۔ جو پیغام پہلے دن دیا تھا آج بھی اسی پیغام پہ کھڑا ہوں۔ دنیا بدل جائے مگر میں اپنا اصول نہیں بدلوں گا۔ میں اپنا نظریہ نہیں بدلوں گا، اپنا کردار نہیں بدلوں گا۔ لوگو! میں 23 دسمبر کو بھی تمہارے ساتھ کھڑا تھا، آج بھی تمہارے ساتھ کھڑا ہوں، ہم وفا کریں گے۔ ہم کیا کریں گے؟ آخری جملہ جو crux ہے گفتگو کا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلہ دیا تھا 8 جون 2012ء کو جسے لانگ مارچ ڈکلریشن کا حصہ بنایا گیا۔ اس کے اندر شامل ہے کہ Vote for None کا کالم بنایا جائے۔ لوگوں کو موقع دیا جائے جو کسی ایک امیدوار کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے تو ایک کالم بنایا جائے کہ میں کسی کو ووٹ نہیں دیتا تاکہ پتہ چلے کہ ان سب کو مسترد کرنے کے لیے بھی بہت سے لوگ ہیں۔ وہ کالم نہیں بنایا جا رہا، مجبور کیا جا رہا ہے یا مسلم لیگ نون کو ووٹ دو یا پیپلز پارٹی کو دو، فلاں کو دو یا فلاں کو دو۔ قوم کھل کر اپنے ضمیر کا اظہار نہیں کر سکتی۔ جس دن الیکشن ہوگا اس دن یاد رکھ لو غیور پاکستانیو کروڑوں پاکستانی سنیں، پنجاب کے گھر گھر بیٹھنے والے، خیبرپختونخواہ والے، سندھ اور بلوچستان والے جس دن الیکشن ہو گا اس دن ہر شہر میں ہزاروں لاکھوں لوگ اس کرپٹ نظام کے خلاف پر امن دھرنا دیں گے۔ ہر شہر میں دھرنا ہوگا اس نظام کے خلاف دھرنا ہوگا، اس نظام کے خلاف دھرنا ہوگا اور بالآخر اس نظام کو مرنا ہوگا۔ ہم اس نظام کے خلاف پرامن احتجاج کریں گے، صبح سے شام تک۔ بیٹھیں گے یا نہیں؟ ورلڈ میڈیا کو دکھائیں گے یا نہیں کہ This is corrupt political system, and electroral reforms have not been enforced. We are protesting peacefully against the corruption. ہم کر پشن کے خلاف دھرنا دے رہے ہیں، یہ Vote for None ہوگا، سپریم کورٹ پر عمل ہو رہا ہے۔ یہ ہوگا Vote for None دھرنا ہوگا۔ آج سے پولنگ ڈے کے دن کی تیاریاں شروع کرو، گھر گھر جائیں، campaign چلائیں، پارٹیاں اپنے امیدواروں کی campaign چلائیں۔ آپ اس نظام کے خلاف اور کرپشن کے خلاف بغاوت کی campaign چلائیں، لوگو ں کو motivate کریں۔ اور جس دن پولنگ ہو ہر شہر پرامن طریقے سے؛ law and order situation create نہیں کرنی، پولنگ اسٹیشنوں پر دھاوا نہیں بولنا، حملہ نہیں کرنا، clash نہیں کرنا، دور پولنگ اسٹیشن سے ہٹ کر کسی ایک شاہراہ پر ہزار ہا لوگ ہر ہر شہر میں دھرنا دیں تا کہ دنیا اور میڈیا دیکھے کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اس کرپٹ سسٹم کو مسترد کر دیا ہے۔ PAT کی تنظیم سازی کریں اور یہ عمل ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر پر نظام بدلو دھرنا دینا ہو گا اور اسی دھرنے کی شکل میں ہماری انقلاب کی جد و جہد آگے چلے گی۔ اور یاد رکھ لیں اس الیکشن سے بننے والی حکومتیں نہ صاف ہوں گی نہ شفاف ہوں گی، نہ مستحکم ہوں گی، دہشت گردی بڑھے گی، خون خرابہ بڑھے گا، کرپشن بڑھے گی، ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالیں گے اور یہ اسمبلیاں پھر ٹوٹیں گی۔ ہم اس پورے تماشے کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ جنہوں نے ٹیکس چوری کیا ہے وہ ممبران پارلیمنٹ بنیں، جنہوں نے قرضے کھائے ہیں وہ ممبران پارلیمنٹ بنیں۔ چونکہ انتخابی اصلاحات پہ عمل نہیں ہوا، نظام میں وہ تبدیلیاں جن کا حکومت نے وعدہ کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے وعدہ کیا تھا وہ سب وعدے سے پھر گئے۔ ہم پر امن طریقے سے اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے احتجاج کریں گے اور: پولنگ ڈے کرپشن کا مرنا اور اس نظام کے خلاف دھرنا۔ نعرہ لگائیں: پولنگ ڈے دھرنا اس نظام کو ہے مرنا ہر گھر پر جھنڈے لگاؤ۔ اس تحریک کو عام کرو، میرے پیغام کو گھر گھر پہنچاؤ۔ انقلاب کی فکر کی شمعیں ہر جگہ جلا دو۔ انقلاب کا سویرا ان شاء اللہ طلوع ہوگا۔ غریبوں کے مقدر کی تاریک رات میں اِن شاء اللہ روشنی آئے گی۔ غریبوں کے مایوس چہروں پر خوشیاں آئیں گی اور ظلم و جبر اور کرپشن کے نظام کو موت آئے گی، آخری فتح پاکستان کے عوام کی ہوگی، پاکستان کی ہوگی اور اللہ رسول a کی مدد سے اس ملک کے محروموں، مظلوموں، کمزوروں کی ہو گی۔ اب میں چاہتا ہوں کہ پولنگ ڈے کے دھرنے کو تاریخی دھرنا بنا دیں کہ ساری دنیا کی لامثال تاریخ بن جائے۔ آج سے کام شروع کر دیں۔ مبارک۔ ۔۔۔ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ پاکستان زندہ باد اسلام پائندہ باد