پاکستان عوامی اتحاد
پاکستان کی سیاست میں ایک کثیر الجماعتی اتحاد جس میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر چھوٹی سیاسی پارٹیاں بھی شامل تھیں۔
1997ء سے 1999ء تک قائم ہونے والی نواز شریف کی حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کا راستہ ہر طرف سے تنگ کرنا شروع کر دیا اور تاریخی سیاسی مقدمات قائم کیے گئے اور امیرالمومنین بننے کیلئے راستے ہموار ہونے لگے، تب شہید جمہوریت بینظیر بھٹو نے پاکستان عوامی تحریک کے 1989ء کے الیکشن میں ووٹ بنک کی بنیاد پر ڈاکٹر طاہر القادری کی صدارت میں 17 جماعتوں پر ایک وسیع اتحاد بنام ”پاکستان عوامی اتحاد“ بنایا۔ گو یہ اتحاد اپنے قیام کے وقت ”گو نواز گو“ کے ایجنڈے کے تحت معرض وجود میں آیا تھا مگر بعد ازاں آگے چل کر 4 نکاتی "اسلامک سوشل آرڈر" جاری کیا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ نئی حکومت بنانے تک یہ اتحاد قائم رہے گا۔
عوامی اتحاد کے تحت مشترکہ عوامی جلسوں میں خاطر خواہ فائدہ PAT کو ہونے لگا۔ PPP کا مایوس ورکرزکسی نئے بھٹوکی تلاش میں تھا۔ جب انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کو عوامی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے سنا تو اس میں انہیں بھٹوکی عظیم انقلابی و سیاسی قیادت نظر آئی۔ پی پی پی کا مایوس کارکن پی اے ٹی میں شامل ہونے لگا۔ محترمہ جلاوطن کردی گئی تھیں، اس لیے انہیں پی پی پی کے وجود کے خاتمے کے آثار نظر آنے لگے تو اس سے قبل کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو اتحاد سے نکالتیں، ڈاکٹر طاہرالقادری نے انہیں اتحاد سے الگ کرنے کا اعلان کردیا۔7 نکاتی عوامی ایجنڈے پر جی ڈی اے بنایا گیا۔ جب وزیراعظم نوازشریف نے کارگل کے محاذ پرکشمیرکی جیتی ہوئی جنگ فوجوں کی واپسی کے حکم نامے جاری کرنے پر ہار دی تب گو نواز موومنٹ میں پی اے ٹی کے ہزاروں کارکنوں نے قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں اور ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔
12 اکتوبر کے فوجی انقلاب پر جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کا پاکستان عوامی تحریک نے صرف اس لیے ساتھ دیا کہ سیاسی لٹیروں کا احتساب کرکے قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں پہنچائی جائے اور قوم کو صالح، ایماندار، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت میسر آجائے۔ پاکستان عوامی تحریک نے پاکستان عوامی اتحاد، جی ڈی اے، صدارتی ریفرنڈم اور لوکل باڈیز الیکشن میں اپنا فعال کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے قوم کو متبادل قیادت نظر آنے لگی۔