منہاج پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search

ایک مثالی معاشرے کے قیام اور ترقی کےلیے خواتین کے پڑھے لکھے ہونے کی اہمیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے زیور علم سے آراستہ، عصر جدید کے تقاضوں سے واقف، با عمل اور با کردار عفت و عصمت کی پاسبان عورت ہی پاکیزہ اور بہترین سوسائٹی کو جنم دیتی ہے۔ اسی لیے نپولین نے کہا تھا تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔

پس منظر

ایک طرف جدید علوم کی درس گاہیں ہیں جو بے راہ روی کو پھیلا رہی ہیں تو دوسری طرف دینی مدارس ہیں جو علوم جدیدہ کے حصول کو اپنے لیے زہر قاتل تصور کر رہے ہیں۔ ان حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد بانی تحریک منہاج القرآن نے پاکستان میں ایک عظیم تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا جسکے تحت قائم ہونے والے سینکڑوں تعلیمی اداروں میں علوم جدیدہ و قدیمہ کے درمیان حسین امتزاج پیدا کیا گیا ہے تا کہ ان اداروں سے فارغ و تحصیل طلباء طالبات نہ صرف قرآن وسنت کے علوم میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ دور جدید کے تقا ضوں سے بھی گہری واقفیت کے حامل ہوں۔اس طرح پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ایک عظیم فکری، نظریاتی اور انقلابی سوچ کی بنیاد رکھ دی۔ان مقاصد کے حصول کےلیے 1994ء میں منہاج کالج برائے خواتین لاہور کا قیام عمل میں آیا۔

مقصد قیام

  • قرآنی تعلیمات کی ایسی ترویج واشاعت جو عالم اسلام میں عظیم فکری، عملی انقلاب کی بنیاد بن سکے۔
  • کتاب وسنت کا ایسا فکری مطالعہ جس سے امت مسلمہ کہ درپیش چیلنجز کا یقینی اور قابل عمل حل میسر آسکے۔
  • اخلاقی و روحانی تربیت کا ایسا مؤثر اہتمام جسکے ذریعے معاشرے میں روحانی انقلاب پیدا کیا جا سکے۔
  • دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید عصری وسائنسی علوم کا ایسا مطالعہ جس سے محدود سوچ اور گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کر امت کے اجتماعی مفاد کے تحفظ کا داعیہ بیدار ہو۔
  • ایسے نظام تعلیم و تربیت کا احیاء جس سے جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ ممکن ہو۔

ارتقائی سفر

کالج اپنی ابتداء سے لیکر تاحال ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ابتداء میں میٹرک پاس طالبات کےلیے ایف اے کے ساتھ تین سالہ علوم شریعہ کے کورس کا اجراء کیا گیا۔ پہلی کلاس کا آغاز مرکزی سیکرٹریٹ 365 ۔ایم ماڈل ٹاؤن کے غوثیہ بلاک کی عمارت سے ہوا پھر 1995ء میں کالج کو اسکی موجودہ عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔

یہاں اکیڈمک بلاک اور ہاسٹل ایک ہی عمارت میں واقع تھے۔ بعد ازاں 2000ء میں 45لاکھ روپے کی خطیر رقم سے 18 کمروں پر مشتمل خوبصورت اکیڈمک بلاک الگ تعمیر کروایا گیا جو تا حال موجودہ ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ کالج نے اپنے ارتقائی مراحل میں جن نئے کورسز اور ڈگریوں کا اجراء کیا انکی تفصیل درج ذیل ہے۔

  • ابتداء میں تین سالہ علو م شریعہ کے کورس کے ساتھ ساتھ ایف اے لاہور بورڈ آفر کیا گیا۔
  • مذکورہ کورس کی تکمیل پر 1997 میں تین سالہ شریعہ کورس کو پانچ سالہ کورس میں تبدیل کر دیا گیا اور ساتھ BA کی کلاس کا اجراء کیا گیا۔
  • 1999ء میں طالبات اور والدین کے اصرار پر شھادۃالعالیہ کو چار سال بمع BA کر دیا گیا۔
  • 2000ء میں شھادۃ العالیہ اور BA کرنے والی طالبات کےلیے ایم اے علوم شریعہ (P.U.) کے کورس کا اجراء کیا گیا۔
  • 2000ء سے ہی ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا آغاز کیا گیا۔

پرنسپلز

  • محترمہ فردوس کیانی (94-10-04 تا 96-04-01)
  • محترم احمد نواز انجم (96-06-01 تا 97-04-24)
  • محترم انور رندھاوا (97-00-27 تا 97-10-03)
  • محترم مسکین فیض الرحمن (97-04-27 تا 97-10-07)
  • محترم احمد نواز انجم (98-06-08 تا 99-06-03)
  • محترم پروفیسر محمد رفیق سیال (1999-06-03 تا 2000-12-31)
  • محترمہ فاخرہ جبیں ہاشمی (2001-01-01 تا 2001-01-26)
  • محترمہ یاسمین ظفر (2003-09-30 تا 2003-10-27)
  • پروفیسر محمد اشرف چوہدری (2003-10-01 تا 2003-11-31)
  • محترمہ فاخرہ جبیں ہاشمی (2003-12-01)

تربیتی نظام

کالج کی طالبات کیلئے باقاعدہ ایک نظام تربیت تشکیل دیا گیا ہے جس مین درج ذیل امور کی پابندی کروائی جاتی ہے۔

  • نصاب میں تصوف کو بطور مضمون شامل کیا گیا ہے تا کہ رسمی تصوف کی بجائے حقیقی تصوف کی تعلیم کو طالبات کی زندگیوں کا حصہ بنایا جائے۔
  • عملی تصوف کے اجراء کےلیے ہاسٹل میں قیام پذیر طالبات کو نماز تہجد کا پابند بنایا گیا ہے اور روزانہ صبح کا آغاز محفل ذکر ونعت سے ہو تا ہے۔
  • ہر قمری ماہ کی 13، 14، 15 کو ایام بیض کے روزے رکھوائے جاتے ہیں۔
  • ہفتہ وار شب بیداری کا اہتمام۔
  • ہفتہ وار ویڈیو لیکچرز کا اہتمام۔ جس میں طالبات بالواسطہ قائد تحریک کے خطابات سے استفادہ کرتی ہیں۔
  • ہر تین ماہ بعد سہ روزہ تربیتی کیمپ اور نفلی اعتکاف کا اہتمام جس میں طالبات کی معمول کی کلاسز بند کر دی جاتی ہیں اور طالبات کےلیے فکری ونظریاتی لیکچرز اور روحانی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
  • سال میں متعدد بار قائد محترم براہ راست طالبات کو تربیتی لیکچرز دیتے ہیں۔

تدریسی عملہ

ابتداء میں کل وقتی اساتذہ کی تعداد چار تھی جبکہ بقیہ اساتذہ کی کمی کو جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے وزٹنگ لیکچررز کے ذریعے پورا کیاگیا۔ طالبات کے اضافہ کے ساتھ تدریسی سٹاف میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔

تدریسی سٹاف کو دو شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

فیکلٹی آف شریعہ

فیکلٹی آف شریعہ کی ذمہ داری شرعی اور دینی علوم وفنون کی تعلیم و ترویج اور بچیوں کی اخلاقی تربیت ہے۔ یہ فیکلٹی ڈائریکٹر شریعہ اینڈ ٹریننگ، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور پانچ کل وقتی لیکچرز پر مشتمل ہے اور کچھ وزٹنگ لیکچرارز بھی اپنی خدمات دے رہے ہیں۔

فیکلٹی آف آرٹس

اس فیکلٹی میں اکیس اساتذہ کرام اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ فیکلٹی آف آرٹس کی ذمہ داری تمام عصری مضامین پڑھانا ہے۔ تمام سٹاف کوآلیفائڈ اور محنتی ہے اور طالبات کے ساتھ مشفقانہ رویہ کے ساتھ پیش آتا ہے۔

ہم نصابی سرگرمیاں

طالبات کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سر گرمیوں میں حصہ لینے کے بھرپور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ ان میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جا سکے۔ اس مقصد کے حصول کےلیے کالج کی علمی و ادبی تنظیم بزم منہاج سرگرم عمل ہے جو کالج اور بین الکلیاتی سطح پر مقابلہ کا انعقاد کرتی ہے۔ بزم منہاج کے تحت درج ذیل شعبے کام کر رہے ہیں:

  • منہاج قاریات فورم: جس میں طالبات کو فن تجوید و قراءت کے مطابق قرآن پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔
  • منہاج نعت کونسل: اسکے ذریعے طالبات میں نعت پڑھنے اور سننے کا شوق بیدار کیا جاتا ہے کیونکہ نعت فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہم ذریعہ ہے
  • منہاج سپیکرز فورم: طالبات کو مختلف زبانوں میں فن تقریر کےلیے تیار کیا جاتا ہے۔
  • منہاج سپورٹس سوسائٹی: ایک صحت مند فرد ہی صحت مند معاشرہ تشکیل دیتا ہے کے اصول کے مطابق کھیلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن ایتھلیٹکس اور دیگر سپورٹس کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ نیز ہر سال باقاعدگی سے سالانہ سپورٹس ڈے منایا جاتا ہے۔

فارغ التحصیل طالبات کی خدمات

اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد بہت سی طالبات نہ صرف گورنمنٹ سکولز و کالجز میں تدریسی فرائض سرانجام دے رہی ہیں بلکہ تحریک منہاج القرآن کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ 30 سے زائد طالبات عملاً فیلڈ میں تنظیمی ذمہ داریاں باحسن وخوبی نبھا رہی ہیں۔

تدریسی خدمات

منہاج کالج برائے خواتین کی فیکلٹی آف شریعہ کی زیادہ سٹاف ممبرز اسی کالج سے سند فراغت حاصل کر کے یہاں طالبات کی تعلیمی پیاس بجھا رہی ہیں۔ ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:

  • اسماء منظور
  • شازیہ بٹ
  • سعدیہ الماس
  • عابدہ نسیم
  • فرح ناز
  • بشریٰ ریاض
  • نیبہ نذیر
  • شمع مشتاق
  • سمعیہ بی بی
  • ام کلثوم

تنظیمی خدمات

منہاج کالج برائے خواتین سے بہت ساری فارغ التحصیل طالبات عملاً تنظیمی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:

  • مس فرح ناز
  • مس شازیہ بٹ
  • مس بشریٰ ریاض
  • مس شمع مشتاق
  • مس شازیہ غلام قادر
  • مس جویریہ حسن
  • مس تبسم چٹھہ
  • مس عالیہ لیاقت
  • مس زاہدہ تبسم
  • مس سعدیہ دانش
  • مس سمیرا ارشد

مستقبل کے منصوبہ جات

  • B.A اور شھادۃ العالیہ حاصل کرنے والی طالبات کیلئے شھادہ العالمیہ (ایم اے اسلامیات وعربی) کا آغاز کیا جائےگا۔
  • ایم اے جرنلزم اور ایم اے عربی کے اجراء کا پروگرام بھی آئندہ منصوبہ کا حصہ ہے۔
  • ایم اے علوم اسلامیہ / عربی یا شھادہ العالمیہ کی ڈگری رکھنے والی طالبات کےلئے ایم فل علوم اسلامیہ / عربی کا اجراء کیا جائے گا۔

کالج میں داخلوں کی تعداد

کالج میں علوم شریعہ وعصریہ دونوں کی تعلیم لازم وملزم ہے اسلیے طالبات کوصرف سال اول یعنی ایف اے پارٹ ون میں داخلہ دیا جاتا ہے جبکہ چند مخصوص سیٹوں پر سال سوم اور ایم اے پارٹ ون میں بھی داخلے دئیے جاتے ہیں۔

سال اول میں از آغاز تا حال داخلوں کی تعداد کچھ یوں رہی ہے۔

سال تعداد سال تعداد 1994ء 200 2000 138 1995ء 230 2001 162 97-1996ء 216 2002 208 1998ء 96 2003 245 1999ء 208 2004 116

گذشتہ پانچ سالوں کے نتائج

F.A لاہور بورڈ سال کل طالبات پاس فیل رزلٹ فیصد 2000ء 74 62 12 %83 2001ء 81 74 7 %91 2002ء 79 77 2 %97 2003ء 93 81 12 %87 2004ء 132 95 37 %72

B.A گذشۃ تمام سیشن کا رزلٹ سال کل تعداد پاس فیل رزلٹ فیصد 1999ء 21 15 6 %72 2000ء 32 18 15 %57 2001ء 61 58 3 %95 2002ء 46 42 4 %91 2003ء 52 29 23 %56 2004ء 52 32 8 %61 2005ء 50 27 23 %54

M.A علوم شریعہ (PU) سال کل طالبات پاس فیل رزلٹ فیصد 2001ء 15 15 0 %100 2002ء 6 6 0 %100 2003ء 9 9 0 %100 2004ء 9 9 0 %100

کالج سے منسلک شعبہ جات

کالج سے درج ذیل شعبہ جات منسلک ہیں اور اسکی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں:

  1. تحفیظ القرآن گرلز انسٹیٹیوٹ
  2. منہاج گرلز ماڈل سکول
  3. ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ

تحفیظ القرآن گرلز انسٹیٹیوٹ

شعبہ تحفیظ کا آغاز 1994ء میں ہوا۔ 1994ء تا 2005ء تک شعبہ تحفیظ کے انچارج کی ذمہ داریاں درج ذیل احباب نے سرانجام دیں:

  • قاریہ آسیہ ریاض
  • قاری احمدصاحب
  • قاری اختر بلوچ
  • قاری عامر خان
  • قاری عطاالمصطفیٰ
  • قاریہ مریم تنویر

ابتداء میں ایک کلاس سے آغاز کیا گیا پھر بتدریج ہر سال ایک ایک کلاس کا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج اسکی کلاسز کی تعداد چھ ہے اور کل '140 طالبات زیر تعلیم ہیں۔

ابتدائی سالوں میں شعبہ تحفیظ سے ہر سال تقریباً 20 سے 45 طالبات حفظ مکمل کرتی رہی ہیں پھر بتدریج ہر سال حفظ مکمل کرنے والی طالبات میں اضافہ ہوتا رہا۔

1994ء سے 2005ء تک حفظ کرنے والی طالبات کی تعداد سال تعداد سال تعداد 1994ء 21 2000 68 1995ء 20 2001 78 1996ء 45 2002 55 1997ء 85 2003 77 1998ء 30 2004 66 1999ء 100 2005 105

اساتذہ کرام

طالبات کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا ہے اسوقت آٹھ خواتین اساتذہ بہت محنت اور لگن سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ آغاز سے تاحال شعبہ تحفیظ میں اہم ذمہ داریاں سنبھالنے والی ٹیچرز کے نام

  • قاریہ آسیہ ریاض (انچارج بزم)
  • مس فضل جان
  • مس عطیہ اقبال (نائب انچارج بزم)
  • مس نسیم صاحبہ
  • مس شاہدہ اشرف
  • مسز مریم تنویر (انچارج شعبہ تحفیظ ۔موجودہ)
  • مس عائشہ رشید (نائب انچارج شعبہ تحفیظ ۔موجودہ)
  • مس ثریا جاوید (انچارج بزم ۔موجودہ)
  • مس ہما اقبال (نائب انچارج بزم۔موجودہ)

منہاج گرلز ماڈل سکول

شعبہ حفظ سے حفظ مکمل کرنے والی طالبات اور انکے والدین کے پر زور اصرار پر 1997ء میں ماڈل سکول قائم کیاگیا۔ اس لیے ابتدائی کلاس صرف انہی حافظات پر مشتمل تھی جنہیں جماعت ہشتم کا امتحان دلوایا گیا بعد ازاں اسکو چھٹی تا میٹرک باقاعدہ سکول کا درجہ دے دیا گیا۔ اس وقت اس سکول میں 10 سے زائد معلمات طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔

سکول کی عمارت

ابتدائی کلاس کا اجراء خدیجہ ہاسٹل کی عمارت کے ایک کمرے سے کیا گیا۔ 1998ء میں نئے کمرے تعمیر کیے گئے جو رہائشی و تدریسی مقاصد کےلیے استعمال ہوتے رہے۔ 2004ء میں ماڈل سکول کو ایک الگ بلڈنگ فراہم کی گئی ہے۔


ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ

طالبات کی عملی تربیت کے سلسلہ میں 2000ء میں ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیا ہے جس میں سلائی کڑھائی، کشیدہ کاری کھانا پکانے کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ انکی گھریلو اور معاشرتی زندگی کوزیادہ بامقصد بنایا جا سکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اپنی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ بامقصد بنائیں اور دین اسلام کی خدمت کو اپنا مشن بنا لیں۔