"ابو البرکات سید احمد قادری، علامہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
منہاجین (تبادلۂ خیال | شراکت) م |
منہاجین (تبادلۂ خیال | شراکت) م (علامہ ابو البرکات سید احمد قادری بجانب ابو البرکات سید احمد قادری، علامہ منتقل) |
(کوئی فرق نہیں)
|
تجدید بمطابق 11:27، 4 جولائی 2010ء
از سر نو |
اس مضمون کو انسائیکلوپیڈیا طرز پر از سر نو منظم انداز میں لکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ اس میں ترمیم کر کے اسے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ |
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا سلسلۀ سند آپ کے ذریعے صرف ایک واسطے سے اعلی حضرت الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی سے جا ملتا ہے۔
شیخ الحدیث علامہ ابو البرکات سید احمد قادری 1886ء کو بھارت کے شہرالور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سید دیدار علی شاہ کے قائم کردہ مدرستہ قوت الاسلام (الور ) میں حاصل کی اورصرف ونحو ، اصول ، منطق اور فلسفہ کی کتابیں پڑھیں ۔پھر حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے مدرسہ اہل سنت مراد آباد میں داخلہ لیا اور درس نظامیہ کی آخری موقوف علیہ کتابیں پڑھیں اور مناظرہ توقیت فلکیات اور فلسفہ کے ساتھ ساتھ فن طب میں بھی مہارت حاصل کی۔
جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے والد سید دیدار علی شاہ سے دور ہ حدیث پڑھا اور احادیث کی خصوصی ا سناد وتمام سلاسل اولیا ءکے معمولات وظائف کی اجازت وخلافت حاصل کی ۔ 1915ءمیں بریلی شریف حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ اعلی حضرت الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی کے زیر تربیت رہے - اعلی حضرت نے تمام علوم عالیہ اسلامیہ قرآن وحدیث وفقہ کی خصوصی اسناد اپنے دست خاص سے لکھ کر عنایت فرمائیں۔ 1920ءکے آغاز میں جب حضرت سید دیدار علی شاہ مستقل سکونت کے ارادہ تشریف لائے تو آپ کی جگہ حضرت ابو البراکات جامع مسجد آگرہ کے خطیب ومفتی مقرر ہوئے ۔1933ءمیں جامع مسجد مزار حضرت داتا گنج بخش کی خطابت کے لئے آپ لاہور تشریف لائے۔ اسی دوران میں دارالعلوم حزب الاحناف کی ابتدا ہوئی تو مولانا ابوالبرکا ت کو اس مدرسے میں مدرس مقرر کیا گیا۔ آپ کے علم وفضل کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور دوسرے شہروں سے طالبان علوم دینیہ لاہور پہنچنے لگے اور آپ کے علم وفضل سے استفادہ کرنے لگے ۔ تحریک پاکستان کی حمایت ونصرت کا مرحلہ آیا تو آپ نے دو قومی نظریہ اور قرار داد پاکستان کی بھر پور حمایت کی ۔ کانگرسی علماءکی تردید اور نظریہ پاکستان کی تائید کے لئے اپنے دارالعلوم کے سالانہ جلسوں کو وقف کر دیا ۔ ۳۰اپریل۱۹۴۶ءآل انڈیا سنی کانفرنس کا بنارس میں انعقاد ہوا اور پاکستان کی حمایت میں پر زور قرار داد منظور کی گئی اس قرار داد پر مولانا ابوالبرکات کے علاوہ تقریباًدو ہزار قرار علماءاور مشائخ نے دستخط کئے ۔ قیام پاکستان کے بعد نظام مصطفی کے قیام ونفاذاور اہل سنت کی تعمیر وتنظیم کے لئے ہر ممکن سعی فرمائی ۔۱۹۴۹ءمیں جب پہلی دستور ساز اسمبلی قائم ہوئی تو آپ نے قرار داد مقاصد کی تربیت میں حصہ لیا اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ وقیام کے لئے ہر ممکن کوشش کی ۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جب جھنگ سے لاہور تشریف لائے تو اکثرو بیشتر آپ کے دروس میں حاضر ہوتے۔
شریعت کی پابندی اور سنت رسول اللہﷺکی پیروی ان کی طبیعت ثانیہ تھی ۔ ہر بات اور ہر کام میں احکام شریعت کا خیال رکھتے تھے ۔آپ نے ۱۹۷۸ءمیں وفات پائی اور مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف گنج بخش روڈ نزد مزار حضرت داتا گنج بخش کے احاطے میں آسود خاک ہوئے ۔ حضرت ابوالبرکات کا شمار ان معدودے چند علماءکرام میں ہوتا ہے جن کی علمی فضیلت ‘ تقوی وطہارت اور عظمت کردار کو اپنے پرائے سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپ آسمان علم وحکمت کے مہردرخشاں تھے جس کی ضیاءپاشیوں سے ہزار طالبان رشد وہدایت فیض یاب ہوئے ۔ آپ اپنے ان اوصاف حمیدہ کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے -