پاکستان عوامی تحریک

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search

25 مئی 1989ء کو موچی دروازہ لاہور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان عوامی تحریک کے قیام کا اعلان کیا اور 1990ء کے قومی انتخابات میں ملک بھر سے اپنے نمائندے کھڑے کیے۔ ان الیکشن میں تحریک کو کوئی سیٹ تو نہیں ملی مگر کراچی سے خیبر تک ہر حلقے میں اپنا انتخابی ووٹ بنک قائم کر دیا۔ چونکہ قیام پاکستان سے ہی ملک کے سیاسی و انتخابی ڈھانچے پر اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول ہے، جو اس تنظیمی ڈھانچے کی بدولت اپنی من پسند شخصیات اور پارٹیوں کو لانے کے لئے ہر انتخاب میں ایک سیاسی کھیل و تماشے کے ذریعے پری پول نتائج کے لئے رائے ہموار کر دیتی ہے۔ یہ ان دیکھی قوتیں ڈاکٹر طاہر القادری جیسی شخصیت کو سیاسی قائد و لیڈرکس طرح برداشت کرسکتی تھیں، جن کی جدوجہد کی آخری منزل مصطفوی انقلاب ہے۔

1993ء کے انتخابات سے قبل پاکستان عوامی تحریک کی قیادت نے سیاسی و دینی جماعتوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کی تاکہ قوم کو ایک متبادل قیادت میسر آ سکے۔ ساری قوتیں ان دیکھی قوتوں کے قائم کردہ اتحادیوں میں بٹ گئی۔ اس کے بعد PAT کی جنرل کونسل نے یہ فیصلہ کیا کہ ملک میں رائج انتخابی سیاست سے انقلاب کی منزل کو نہیں پہنچا جا سکتا، لہٰذا انتخابی سیاست سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے غریب عوام میں شعور بیدارکیا جائے، جو سرمایہ داریت اور جاگیرداریت کے خول میں قید ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک نے 4 سال کی قلیل مدت میں ملک بھر میں سیکڑوں عوامی تعلیمی مراکز، پرائمری و سیکنڈری اسکولز قائم کر کے ایک وسیع تعلیمی و عوامی شعورکی بالیدگی کیلئے نیٹ ورک قائم کر دیا۔

1997ء سے 1999ء تک قائم ہونے والی نواز شریف کی حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کا راستہ ہر طرف سے تنگ کرنا شروع کر دیا اور تاریخی سیاسی مقدمات قائم کیے گئے اور امیرالمومنین بننے کیلئے راستے ہموار ہونے لگے، تب شہید جمہوریت بینظیر بھٹو نے پاکستان عوامی تحریک کے 1989ء کے الیکشن میں ووٹ بنک کی بنیاد پر ڈاکٹر طاہر القادری کی صدارت میں 17 جماعتوں پر ایک وسیع اتحاد بنام ”پاکستان عوامی اتحاد“ بنایا۔ اتحاد کے وقت جو”گو نوازگو“ کے ایجنڈے کے تحت معرض وجود میں آیا تھا، جس نے آگے چل کر 4 نکاتی اسلامک سوشل آرڈر جاری کیا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ نئی حکومت بنانے تک یہ اتحاد قائم رہے گا۔ عوامی اتحاد کے تحت مشترکہ عوامی جلسوں میں خاطر خواہ فائدہ PAT کو ہونے لگا۔ PPP کا مایوس ورکرزکسی نئے بھٹوکی تلاش میں تھا۔ جب انہوں نے طاہر القادری کو عوامی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے سنا تو اس میں انہیں بھٹوکی عظیم سیاسی قیادت نظر آئی۔ پی پی پی کا مایوس کارکن پی اے ٹی میں شامل ہونے لگا۔ محترمہ جلاوطن کردی گئی تھیں، اس لیے انہیں پی پی پی کے وجود کے خاتمے کے آثار نظر آنے لگے تو اس سے قبل کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو اتحاد سے نکالتیں، ڈاکٹر طاہر القادری نے انہیں اتحاد سے الگ کرنے کا اعلان کردیا۔7 نکاتی عوامی ایجنڈے پر جی ڈی اے بنایا گیا۔ جب وزیراعظم نواز شریف نے کارگل کے محاذ پرکشمیرکی جیتی ہوئی جنگ فوجوں کی واپسی کے حکم نامے جاری کرنے پر ہار دی تب گو نواز موومنٹ میں پی اے ٹی کے ہزاروں کارکنوں نے قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں اور ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔

12 اکتوبر کے فوجی انقلاب پر فوجی حکومت کا پاکستان عوامی تحریک نے صرف اس لیے ساتھ دیا تاکہ قوم کو صالح، ایماندار، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت میسر آجائے۔ پاکستان عوامی تحریک نے پاکستان عوامی اتحاد، جی ڈی اے، صدارتی ریفرنڈم اور لوکل باڈیز الیکشن میں اپنا فعال کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے قوم کو متبادل قیادت نظر آنے لگی۔

2002ء کے عام انتخابات میں پاکستان عوامی تحریک نے انتخابی میدان نہ چھوڑا اور جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیرہ شاہی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ چونکہ پاکستان عوامی تحریک کے پاس وننگ ہارسز نہیں تھے، جو اپنی سرمایہ داریت، جاگیرداریت اور بے پناہ بڑی انویسٹمنٹ سے الیکشن جیتتے ہیں لہٰذا پاکستان عوامی تحریک نے انتخابی ٹکٹ اپنے نظریاتی، غریب و متوسط طبقے کو اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر تقسیم کئے۔ تمام مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود PAT کے چیئرمین لاہور کے حلقے NA-127 سے کامیاب ہوئے۔ اس طرح 2002ء کے الیکشن میں پری پول رگنگ کا کھیل رنگ لایا اور ایک ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ وجود میں آئی۔

ملک اور عوام کو مشکلات اور بھنور سے نکالنے کیلئے عام انتخابات میں پاکستان عوامی تحریک ”عوام سب سے پہلے“ کے نام سے 186 صفحات پر ایک مکمل اور جامع انقلابی منشور قوم کو دیا جس کی سات ترجیحات مقررکی گئیں۔

  1. تعلیم
  2. معیشت
  3. غربت
  4. صحت
  5. انصاف
  6. امن و امان
  7. ٹیکنالوجی

علاوہ ازیں ملک کے32 شعبوں کو فعال بنانے کے لئے اس کا عملی حل پیش کیا گیا۔

15 اکتوبر 2004ء کو ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جمہوریت کے نام پرکئے جانے والے مذاق کو بے نقاب کر کے بحیثیت رکن قومی اسمبلی استعفیٰ دے دیا۔ یہ اقدام فی الواقع تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا استعفیٰ 85 صفحات پر مشتمل تھا جو قومی دستاویزکے طور پر قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جو پس پردہ سازشوں کو بے نقاب کرتا ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے تحریک کی تنظیمات کو پانچ سالہ تنظیمی ٹارگٹ دے کر تجدید احیائے دین کی تکمیل کے لئے جلاوطنی اختیار کر لی۔ آج قائدکی عدم موجودگی میں تحریک کے کارکن، رفقاء اور وابستگان گلی گلی کوچہ کوچہ پھیلے ہوئے ہیں اور مصطفوی انقلاب بپا کرنے کیلئے عوامی شعور بیدارکر رہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری ایک روشن خیال قائد کے طور پر قوم کے سامنے آئے۔ انہوں نے پاکستان عوامی تحریک میں کلچرل ونگ اور اقلیتی ونگ بھی قائم کیا۔ کلچرل ونگ کے صدر ملک کے مایہ ناز فلمسٹار ندیم بیگ، چیف آرگنائزر ہدایتکار سید نور اور جنرل سیکرٹری فردوس جمال ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک کی جنرل کونسل نے 2008ء کے عام انتخابات کو پری پول الاٹمنٹ قرار دے کر اس سے مکمل طور پر لاتعلقی و علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے موجودہ نظام انتخابات کے متبادل متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام رائج کرنے کی تجویز دی۔ تحریک کے مستقبل کا پلان اور لائحہ عمل طے کیا گیا۔ پاکستانی عوام ڈاکٹر طاہر القادری کی وطن واپسی کا بڑی بے چینی سے انتظارکر رہے ہیں۔