فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
Fmri.gif

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مد ظلہ العالی نے جب قرآن و سنت کی فکر پر مبنی تحریک کا آغاز کیا تو ساتھ ہی علمی و تحقیقی کام بھی شروع کر دیا۔ یوں تحریک منہاج القرآن کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ یہ اپنے آغاز سے ہی تحریر و تقریر دونوں ذرائع کو بروئے کار لا کر تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ شیخ الاسلام نے سب سے پہلے جس موضوع پر قلم اٹھایا وہ ”نظام مصطفی .... ایک انقلاب آفریں پیغام“ کتاب تھی۔ رفتہ رفتہ تحریک کا کام بڑھتا گیا۔ آپ نے شادمان لاہور کی رحمانیہ مسجد میں درس قرآن سے دعوت کے فروغ کا سلسلہ شروع کیا۔ آغاز میں یہ دروس قرآن علیحدہ علیحدہ چھپتے رہے۔ تاہم کتب کی ترتیب و تدوین کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

  • 1981ء میں آپ کا پہلا اور باقاعدہ علمی و تحقیقی شاہکار ”تسمیۃ القرآن“ منظر عام پر آیا۔
  • 1982ء میں ”سورۃ فاتحہ اور تعمیر شخصیت“ کے علاوہ آپ کی فکر انگیز کتاب ”اسلامی فلسفہ زندگی“ یکے بعد دیگرے شائع ہوئیں جنہوں نے اہل علم و فکر کے وسیع حلقے کو متاثر کیا۔
  • 1985ء میں آپ کی کتاب ”اجزاے ایمان“ شائع ہوئی جو آپ کے خطبات جمعہ کا مرتبہ مجموعہ تھی، اسے بعد ازاں ”ارکان ایمان“ سے موسوم کیا گیا۔

اس دوران میں ”فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟“، ”ایمان اور اسلام“ اور چند انگریزی کتابچے زیور طبع سے آراستہ ہوئے۔ علاوہ ازیں ملک کے طول و عرض میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کے خطبات، دروس اور لیکچرز کا سلسلہ بھی بفضلہ تعالیٰ کافی بڑھ چکا تھا۔ اس تمام علمی و تحقیقی اور فکری مواد کی مستقل بنیادوں پر مطبوعہ صورت میں اشاعت کے لیے بانی تحریک کی زیر نگرانی مؤرخہ 7 دسمبر 1987ء کو منہاج القرآن رائٹرز پینل کی بنیاد رکھی گئی، اور اس علمی و تحقیقی مرکز کو بانی تحریک کے والد گرامی حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمہ اللہ سے موسوم کیا گیا۔

مقاصد قیام

فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے وقت اس کے درج ذیل مقاصد متعین کیے گئے:

  • اسلام کے حقیقی پیغام کی تبلیغ و اشاعت
  • تحریک منہاج القرآن کی فکر کی ترویج
  • نئی نسل کو بے یقینی، اخلاقی زوال اور غیر مسلم اقوام کی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کے لیے اسلامی تعلیمات کی جدید ضروریات کے مطابق اشاعت
  • مذہبی اذہان کو علم کے میدان میں ہونے والی جدید تحقیقات سے روشناس کرانا
  • راہ حق سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو اپنا صحیح ملی تشخص باور کرانا
  • مسلم امہ کو درپیش مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا
  • نوجوان نسل کو دین کی طرف راغب کرنا
  • تحریک منہاج القرآن سے وابستہ افراد کی علمی و فکری تربیت کا نظام وضع کرنا اور تربیتی نصاب مدون کرنا
  • تحریک منہاج القرآن سے وابستہ تمام اہل قلم کو مجتمع کرنا اور ان کی صلاحیتوں کو تحریک کے پلیٹ فارم پر جہاد بالقلم کے لیے بروئے کار لانا
  • ملکی و بین الاقوامی سطح پر تمام اہل قلم تک تحریک کی دعوت بذریعہ قلم پہنچانا اور انہیں مصطفوی مشن کے اس پلیٹ فارم پر جمع کرنا
  • تحریک کی دعوت بذریعہ قلم پھیلانے کے لیے اس کے اساسی و فکری موضوعات پر مضامین اور تحقیقی مقالات تیار کرنا اور انہیں ذرائع ابلاغ تک پہنچانا
  • تحریک کی دعوت بذریعہ قلم پھیلانے کے لیے علمی اور فکری موضوعات پر کتب تصنیف کرنا اور تحقیقی ضروریات پورا کرنا
  • قائد تحریک کے مختلف دینی، سماجی، اقتصادی، سیاسی و سائنسی، اور اخلاقی و روحانی موضوعات پر فکر انگیز ایمان افروز خطابات کو کتابی صورت میں مرتب کروانا
  • ریسرچ اسکالرز سے اہم موضوعات پر تحقیقی مواد تیار کروانا اور اسے شائع کروانا
  • جدید اسلوب تحقیق اور عصری تقاضوں کے مطابق اسلامی ورثہ کو نسل نو کی طرف منتقل کرنا

شعبہ جاتی ارتقاء

ابتداءً جب شعبہ تحقیق و تدوین قائم ہوا تو اس میں کچھ عرصہ کے لیے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے لیکچرر محترم محمد صدیق قمر، علامہ ظہور الہٰی، علامہ محمد امین مدنی اور پروفیسر مستنیر علوی نے جز وقتی خدمات سرانجام دیں۔ بعد ازاں دسمبر 1987ء میں حضرت شیخ الاسلام نے ڈاکٹر علی اکبر الازہری کی باقاعدہ تقرری بطور پہلے ریسرچ سکالر فرمائی۔ ڈاکٹر علی اکبر قادری اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹیل کالج میں ریگولر ایم۔ اے عربی کر رہے تھے اور انہوں نے ملکی سطح کے متعدد تحریری مقابلوں میں اول پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔ ان کی صلاحیت، دل چسپی اور مشن سے وابستگی اور محبت کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو مکمل طور پر ان کے سپرد کر دیا، جبکہ ریسرچ کے پہلے باقاعدہ ڈائریکٹر رانا جاوید مجید قادری (اس وقت کے چیف ایڈیٹر ماہنامہ منہاج القرآن) مقرر ہوئے۔

1988ء کا سال تحریک منہاج القرآن کی ملک گیر شہرت اور بیرون ملک سرگرمیوں میں انقلابی پیش رفت کا سال تھا۔ چنانچہ اسی سال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے درج ذیل شعبہ جات بھی قائم ہوئے:

  1. لائبریری
  2. شعبہ نقل نویسی
  3. شعبہ تحقیق و تدوین
  4. شعبہ تراجم
  5. شعبہ کتابت و ڈیزائننگ

1988ء سے 2000ء تک FMRi میں جن حضرات نے بطور ڈائریکٹر یا انچارج اپنی خدمات سرانجام دیں ان کے اسمائے گرامی بالترتیب یہ ہیں:

2000ء میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو وسعت دی گئی اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو مرکزی لائبریری سمیت سیکرٹریٹ کی مرکزی عمارت سے جامع مسجد منہاج القرآن کی بیسمنٹ (صفہ بلاک) میں منتقل کردیا گیا، جہاں ایک شاندار لائبریری ہال اور درج ذیل تین شعبوں کا اضافہ ہوا:

  1. شعبہ کمپوزنگ
  2. شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی
  3. شعبہ ادبیات

انسٹیٹیوٹ کی یہاں منتقلی کے بعد حسب گنجائش مختلف شعبوں میں پہلے سے زیادہ افراد کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس دوران میں FMRi کے ڈائریکٹر شیخ عبدالعزیز دباغ اور بعد ازاں قمر الزمان شیخ رہے۔ اسی اثناء میں ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے اپنی خدمات انسٹی ٹیوٹ کے لیے پیش کیں۔ قبل ازیں وہ صوبہ سرحد میں تحریک منہاج القرآن کے نوجوان رہنما اور صوبائی ناظم تحریک جیسے کلیدی عہدوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمت کر رہے تھے۔ ڈاکٹر تنولی نے چونکہ قیام پشاور کے دوران میں بھی ”قرآنی فلسفہ انقلاب“ جیسے گراں قدر خطابات کو مرتب کر کے کتابی شکل دی تھی، علاوہ ازیں ”فرمودات قائد“، ”اردو ترجمہ قرآن کی تاریخ میں عرفان القرآن کا امتیازی مقام“ اور ”من بولتا ہے“ جیسی کتب بھی مرتب کی تھیں، ان کی ان خدمات، صلاحیت اور لگن کی بنیاد پر حضرت شیخ الاسلام نے 2003ء میں انہیں انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر سے ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں تفویض کر دیں۔ تحریک منہاج القرآن کی مرکزی نظامتیں جب از سر نو تشکیل پائیں تو ان میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ باقاعدہ نظامت تحقیق و تبلیغات قرار پایا، جس کے پہلے ناظم ڈاکٹر طاہر حمید تنولی مقرر ہوئے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر کرامت اللہ مرحوم (اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فراغت کے بعد) تعینات ہوئے، جو منہاج یونیورسٹی لاہور کے کالج آف شریعہ کے پرنسپل کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر ریسرچ کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے۔ اس عرصہ میں ناصر اقبال ایڈووکیٹ انتظامی امور بحسن و خوبی سر نجام دیتے رہے۔ بعد ازاں انسٹی ٹیوٹ کے پہلے ریسرچ اسکالر اور ماہنامہ منہاج القرآن کے مدیر اعلی ڈاکٹر علی اکبر الازہری ڈاکٹریٹ کی تکمیل کے بعد بطور ڈائریکٹر ریسرچ FMRi تعینات ہوئے، جب کہ محمد فاروق رانا (منہاجین کو ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ کی ذمہ داری سونپی گئ، جو تاحال اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔ انتظامی امور کو احسن طریق پر چلانے کے لیے پروفیسر محمد اشرف چودھری تعینات ہوئے، جو مئی 2008ء تک ڈائریکٹر لائبریری اینڈ ایڈمنسٹریشن FMRi کے طور پر اپنے فرائض نہایت جاں فشانی سے سرانجام دیتے رہے ہیں۔ پروفیسر نصر اللہ معینی کی مشن کے ساتھ دیرینہ وابستگی، محبت اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جولائی 2008ء میں بطور ڈائریکٹر ریسرچ تعینات کیا گیا۔

ان تمہیدی سطور کے بعد اب آئیے انسٹی ٹیوٹ کے شعبوں کی بتدریج کارکردگی اور افراد کی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں:

شعبہ جات

فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (FMRi) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں تحقیق و تدوین کے تمام مراحل .... تحقیق و تدوین، مواد کی تیاری اور کمپوزنگ سے لے کر کتب کی پیسٹنگ تک .... ایک ہی چھت تلے مکمل کیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس کی کئی ذیلی شعبہ جات ہیں، جن کا تعارف درج ذیل ہے:

شعبہ تحقیق و تدوین

جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ 1988ء میں قائم ہونے والے شعبہ جات میں یہ شعبہ سرفہرست تھا، جس میں پہلے باقاعدہ ریسرچ سکالر کی تقرری ڈاکٹرعلی اکبر قادری کے حصے میں آئی۔ 1988ء سے 1992ء تک ان کے ہمراہ اس شعبے میں ضیاء اللہ نیر، پروفیسر محمد الیاس قادری، ڈاکٹرمحمد نواز الازہری، ڈاکٹر نعیم انور نعمانی، ڈاکٹرمحمد ارشد نقشبندی، علامہ محمد الیاس اعظمی، علامہ محمد رمضان قادری نے مختلف اوقات میں معاونت کی۔ ضیاء اللہ نیر کے علاوہ دیگر جملہ حضرات اس وقت جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی منتہی کلاسوں کے طلبا تھے، جو حصول علم کے ساتھ ساتھ تدریسی اور تحقیقی خدمات سرانجام دیتے تھے۔ 1992ء میں جب ڈاکٹر علی اکبر قادری اور ڈاکٹر محمد نواز الازہری سکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مصر چلے گئے تو شعبے میں ڈاکٹر نعیم انور نعمانی کے ساتھ محمد علی قادری، محمد تاج الدین کالامی، محمد افضل قادری اور عبدالجبار قمر کا تقرر بطور ریسرچ اسکالر ہوا۔ بعد ازاں اس میں پروفیسر محمد رفیق نقشبندی، علامہ سہیل احمد صدیقی، ریاض حسین چودھری اور عبدالستار منہاجین کی کل وقتی خدمات حاصل کی گئیں۔ تینوں حضرات خصوصاً ریاض حسین چودھری نے ”سیرۃ الرسول“ کے تاریخی پراجیکٹ پر حضرت شیخ الاسلام کی نگرانی میں نہایت جانفشانی سے کام کیا۔

اس شعبہ میں زیادہ تر منہاج یونیورسٹی لاہور کے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک اسٹڈیز (COSIS) کے فضلاء علوم اسلامیہ میں تخصص کی بناء پرکل وقتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس وقت محمد تاج الدین کالامی، محمد علی قادری، محمد افضل قادری، محمد فاروق رانا، محمد حنیف، حافظ فرحان ثنائی، حافظ ظہیر احمد الاسنادی، اجمل علی مجددی اور حسنین عباس کے علاوہ جامعۃ الازہر (قاہرہ، مصر) اور جامعہ اسلامیہ (بغداد، عراق) جیسے عظیم علمی مراکز سے علم کی پیاس بجھا کر آنے والے ڈاکٹر علی اکبر قادری الازہری، ڈاکٹر محمد ظہور اللہ الازہری، ڈاکٹرمحمد نواز الازہری، ڈاکٹرفیض اﷲ بغدادی، حافظ محمد ضیاء الحق رازی اور حافظ مزمل حسین بغدادی بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

منہاج یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل فضلاء نے قائد تحریک کا دست و بازو بنتے ہوئے اس شعبہ میں شبانہ روز محنت کی۔ آج شعبہ تحقیق و تدوین کا خواتین و حضرات پر مشتمل مستعد ریسرچ اسٹاف حضرت شیخ الاسلام مد ظلہ العالی کا عظیم انقلابی پیغام اعلی معیاری مطبوعات اور انٹرنیٹ کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے شب و روز پوری دل جمعی اور تن دہی سے مصروف عمل ہے۔ FMRi کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتب میں تحقیق و تخریج کا معیار ملک بھر کے کسی بھی اشاعتی ادارے کے مقابلے میں معیاری، وقیع اور محققہ ہوتا ہے۔ اس شعبہ کی اعلٰی کارکردگی کی بدولت تحریک منہاج القرآن کی علمی خدمات کو ملک کے علمی حلقوں میں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

منہاج یونیورسٹی لاہور کے کالج برائے خواتین کی فاضلات اور دیگر محققات بھی دینی جذبے اور پوری لگن سے اس شعبے میں شب و روز مصروف عمل ہیں۔ اس حوالے سے فریدہ سجاد، مصباح کبیر اور نازیہ عبد الستار و دیگر فاضلات خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ جب کہ رافعہ علی، آسیہ سیف قادری اور کوثر رشید بھی اس ٹیم کا حصہ رہی ہیں۔ خواتین اسکالرز کی کاوشوں سے حضرت شیخ الاسلام کی زیر نگرانی چند کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔

اس شعبہ میں مستقل بنیادوں پر کام کرنے والے محققین کے علاوہ فاصلاتی اسکالرز کو بھی welcome کیا جاتا ہے۔ وہ افراد جو اپنی مصروفیات کے باعث باقاعدگی سے انسٹی ٹیوٹ میں نہیں آسکتے وہ بھی اپنی تحقیقی خدمات کے ذریعے اس عظیم کام میں شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ملک پاکستان سے باہر قیام پذیر افراد بھی اعزازی طور پر تحقیقی خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ نیز منہاج یونی ورسٹی کے کالج آف شریعہ کے اساتذہ کرام بھی اس شعبہ کے مختلف تحقیقی امور میں خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں، جن میں پروفیسر محمد نواز ظفر، مفتی عبد القیوم خان ہزاروی، محمد الیاس اعظمی، ممتاز الحسن باروی، شبیر احمد جامی و دیگر شامل ہیں۔

شعبہ تحقیق و تدوین میں تحقیقی تربیت حاصل کرنے کے لیے بھی متلاشیان علم آتے ہیں۔ یہاں اندرون و بیرون ملک سے MPhil اور PhD کے طلباء اپنے موضوعات سے متعلق رہنمائی اور تحقیقی مواد کے حصول کے لیے بھی آتے ہیں، جنہیں مطلوبہ کتب تک بآسانی رسائی کے ساتھ ساتھ خوش گوار ماحول بھی ملتا ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

ریسرچ ریویو کمیٹی

بحمد اللہ تعالی تحریک منہاج القرآن دنیا کے نوے کے قریب ممالک میں وجود رکھتی ہے۔ ان ممالک میں دعوتی و تنظیمی امور کی نگرانی کے لیے حضرت شیخ الاسلام وقتاً فوقتاً دورہ جات کرتے ہیں۔ نیز مختلف ممالک میں حکومتی و ذیلی سطحوں پر منعقد ہونے والی کانفرنسز اور سیمینارز میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ لہٰذا حضرت شیخ الاسلام کی پاکستان میں عدم موجودگی کے دوران میں تحقیقی امور کی نگرانی کے لیے 2006ء میں ریسرچ ریویو کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کمیٹی کے سربراہ ناظم اعلی تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی ہیں، جب کہ دیگر اراکین یہ ہیں:

1۔ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

2۔ ڈاکٹر علی اکبر الازہری

3۔ پروفیسر محمد نصر اللہ معینی

4۔ ڈاکٹر ظہور اللہ الازہری

5۔ محمد افضل قادری

6۔ محمد فاروق رانا

7۔ فیض اللہ بغدادی

ریسرچ ریویو کمیٹی کے ذمہ تمام اسکالرز سے ریسرچ پراجیکٹس کی رپورٹس لینا، انہیں ہدایات دینا اور ان کا فالو اپ کرنا ہوتا ہے۔ کمیٹی کی پندرہ روزہ میٹنگ منعقد ہوتی ہے، جس میں پراجیکٹس پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بعد ازاں کمیٹی کی سفارشات حضرت شیخ الاسلام کو بذریعہ ای میل ارسال کی جاتی ہیں جو ان کی توثیق کے بعد لاگو کر دی جاتی ہیں۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

2۔ لائبریری

فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ریسرچ اسکالرز کے استفادہ کے لیے ایک شاندار اور وسیع لائبریری ہے۔ جس میں قریباً اکتیس ہزار کتب کا نادر و نایاب ذخیرہ موجود ہے۔ اس حوالہ جاتی اور تحقیقی مواد پر مشتمل کتب خانہ میں ایم۔ فل اور ڈاکٹریٹ کی سطح کی تحقیق کرنے والے طلباء کے لیے مفید علمی مصادر و ماخذ دستیاب ہیں۔ عالم عرب اور دنیاءے مغرب میں اسلام پر شائع ہونے والی تصانیف اور تحقیقی مواد کو اس لائبریری کے لیےحاصل کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے فکری و سنجیدہ تحقیقی کام کی وجہ سے یہ حوالہ جاتی لائبریری نہ صرف شہر لاہور میں منفرد علمی و تحقیقی مقام کی حامل بن چکی ہے بلکہ قومی سطح کے چند فعال تحقیقی اداروں میں بھی اس کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ بایں وجہ FMRi میں کیے جانے والے تحقیقی کام کا معیار الحمد للہ بین الاقوامی سطح کے معیار سے کسی طرح بھی کم نہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کے والد گرامی ڈاکٹر فرید الدین قادری کے زیر مطالعہ رہنے والی تمام ذاتی کتب اس لائبریری میں ”مکتبہ فریدیہ قادریہ“ کے نام سے ایک الگ سیکشن میں موجود ہیں۔ ”مکتبہ فریدیہ قادریہ“ کی 1600 کتب کا یہ نایاب ذخیرہ لائبریری ہذا کے قیام کی بنیاد ہے۔ ان کتب کی اہمیت و ندرت کے پیش نظر اس مکتبہ کو archive کا درجہ حاصل ہے۔ مذکورہ مکتبہ میں قرآن و حدیث، سیرت طیبہ، فقہ و اصول فقہ، تصوف، طب اور میڈیکل سائنس جیسے کئی موضوعات پر نادر کتب دستیاب ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی جب عرب و عجم کے کسی بھی ملک کے دورے پر جاتے ہیں، تو ان کا بیشتر وقت وہاں کے کتب فروشوں کی بڑی بڑی دکانوں میں گزرتا ہے جہاں سے آپ ہر دفعہ لاکھوں روپے کی مفید اور قیمتی کتب انسٹی ٹیوٹ کی اس لائبریری لیے خرید کر لاتے ہیں۔ اس وقت لائبریری میں علم التفسیر، علم الحدیث، علم الفقہ، سیرت طیبہ، تصوف، لٹریچر، تاریخ، سوانح اور دیگر موضوعات پر عربی کتب کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ لائبریری میں ذخیرہ کتب کی تعداد کا پنج سالہ ریکارڈ درج ذیل ہے:

 	آغاز 	اضافہ 1990ء 	اضافہ 1995ء 	اضافہ 2000ء 	اضافہ 2005ء 	اضافہ 2006ء 	اضافہ 2007ء

تعداد کتب 1600 1375 8325 5900 7300 4050 2450 ٹوٹل 1600 2975 11300 17200 24500 28550 31000

FMRi کی لائبریری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مغربی ممالک کی لائبریریوں کی طرح یہ صبح نو بجے سے رات گیارہ بجےتک کھلی رہتی ہے۔ لائبریری میں کتب کی درجہ بندی جدید طریقے سے کی گئی ہے ۔لائبریری میں جدید علوم پر کتب کا گراں قدر ذخیرہ موجود ہے جن میں قرآن و حدیث اور فقہ و تصوف کے علاوہ دیگر سیکڑوں مضامین پر مختلف النوع کتب پائی جاتی ہیں۔

لائبریری کے وسیع و عریض ہال، جہاں تشنگان علم کے لیے حضرت شیخ الاسلام کے لیکچرز، سیمینارز، اور دیگر پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔

ماضی میں لائبریری کے معاملات کی نگرانی پر جو لوگ مامور رہے ان میں علی اختر اعوان، حافظ محمد احسان، محمد رمضان نقشبندی، محمد حسین آزاد، غلام مصطفی عابد علوی، محمد افضل قادری، آصف اقبال، ندیم حسین نقوی، حافظ محمد حسن اور عبد الباسط قادری المکی، محمد احمد رضا مختلف اوقات میں بطور لائبریرین / اسسٹنٹ لائبریرین خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مئی 2008ء تک تقریباً اڑھائی سال پروفیسر محمد اشرف چودھری بطور ڈائریکٹر لائبریری اینڈ ایڈمنسٹریشن FMRi خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی زیر نگرانی لائبریری اور انسٹی ٹیوٹ کے انتظامی معاملات میں خاصی پیش رفت ہوئی۔ آج کل لائبریری آٹو میشن کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ عبد الجبار قمر 1994ء سے مختلف حیثیتوں سے لائبریری میں ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ آج کل وہ لائبریری انچارج کے عہدہ پر فائز ہیں۔ وہ ایم اے عربی و اسلامیات کے علاوہ ایم اے لائبریری سائنس کی پیشہ ورانہ ڈگری ہولڈر ہیں۔ جب کہ محمد نوید اقبال اسسٹنٹ لائبریرین بی ایل ایس کی پیشہ ورانہ ڈگری رکھتے ہیں، جب کہ سید مبشر حسین نظامی لائبریری اسسٹنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز محمد علی لائبریری اٹنڈنٹ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

3۔ شعبہ ترجمہ

اس شعبہ کے ذمہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تصنیفات کو اردو سے انگریزی اور عربی میں میں منتقل کرنا ہے۔ مختلف اوقات میں پروفیسر افتخار احمد شیخ، پروفیسر محمد رفیق، عاصم نوید، یونس علی بٹر اور محمد فاروق رانا اس شعبہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ جاوید اقبال طاہری خصوصی طور پر برطانیہ سے تشریف لائے تھے اور اس شعبہ میں خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ آج کل شیخ عبد العزیز دباغ اس شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے فرائض نبھا رہے ہیں۔ محمد حنیف اور امانت علی چودھری ان کے معاون ہیں۔ اس ٹیم کے ذمے حضرت شیخ الاسلام کے ترجمہ قرآن حکیم ”عرفان القرآن“ کو انگریزی قالب میں ڈھالنا تھا جسے انہوں نے کمال جانفشانی اور محنت سے بتوفیق الہی پورا کیا۔ انہوں نے دیگر کئی کتب کے انگریزی تراجم بھی مکمل کیے ہیں، جیسے ”المنھاج السوی من الحدیث النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“، ”کتاب التوحید“، ”کتاب البدعۃ“ وغیرہ۔ جب کہ امانت علی چودھری تحریک منہاج القرآن کی پریس ریلیزز کے انگریزی ترجمہ اور دیگر متعلقہ امور بھی بجا لاتے ہیں۔

اس شعبہ میں فاصلاتی مترجمین بھی خدمت سرانجام دیتے ہیں، جن میں اسلام آباد میں PhD کے لیے قیام پذیر محمد نواز الازہری قائد کی تصنیفات کو عربی کے قالب میں ڈھالنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کئی کتب کا عربی ترجمہ مکمل کر لیا ہے، مثلا ”مقدمہ سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“، ”کتاب التوحید“، ”اسلام میں انسانی حقوق“، ”سورۃ فاتحہ اور تعمیر شخصیت“، ”اسلامی فلسفہ زندگی“، وغیرہ۔

بیرون ملک قیام پذیر مترجمین بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس کار خیر میں حصہ لیتے ہیں۔ جیسے برطانیہ میں قیام پذیر ڈاکٹر زاہد اقبال، جاوید اقبال طاہری اور تحسین خالد اور جرمنی میں موجود فاروق ارشاد حسب استطاعت حصہ ڈال رہے ہیں۔ ضیاء اللہ نیر انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے پر بھی مامور ہیں۔

حضرت شیخ الاسلام کی تصانیف کا عربی اور انگریزی زبانوں میں تراجم کے علاوہ دیگر علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ کا کام بھی جاری ہے۔ آپ کی تصانیف کا سندھی اور پشتو کے ساتھ ساتھ German، Danish، Korean اور Norwegian زبانوں میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

4۔ شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی

اس وقت انسٹی ٹیوٹ میں اڑھائی درجن کمپیوٹرز کا نیٹ ورک موجود ہے، جہاں تمام ریسرچ اسکالرز اپنے تحقیقی امور تیزی سے مکمل کرتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے ریفرنس سیکشن میں موجود ہزاروں ڈیجیٹل عربی کتب پر مشتمل ذخیرہ کے حوالے سے جہاں متعدد ریسرچ اسکالرز شب و روز کی محنت شاقہ سے تحقیق کا معیار بلند کرتے ہیں وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس استعمال کی بدولت تحقیق و جستجو کو سرعت رفتار بھی ملتی ہے۔ علاوہ ازیں تحقیقی مقاصد کے لیے ڈیجیٹل انسائیکلوپیڈیاز اور لغات بھی موجود ہیں جن سے استفادہ کی بدولت جدید تحقیقی اسلوب سے کماحقہ آگہی حاصل ہوتی ہے۔ عالم مغرب کی آن لائن لائبریریوں کی رکنیت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت دن رات مہیا کی گئی ہے۔ اس شعبہ کے انچارج ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ محمد فاروق رانا ہیں، جب کہ محمد ضیاء الحق رازی اور اجمل علی مجددی خصوصی معاونت کرتے ہیں۔ منہاج انٹرنیٹ بیورو (MIB) کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبد الستار (منہاجین) مسلسل اپنی تکنیکی معاونت فراہم کرتے ہیں۔

یہ شعبہ منہاج انٹرنیٹ بیورو کے تعاون سے انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ Research.com.pk کے انتظام کا بھی ذمہ دار ہے۔ اس ویب سائٹ پر انسٹی ٹیوٹ، اس کے ذیلی شعبہ جات اور اسٹاف کا تعارف، انسٹی ٹیوٹ کے اغراض و مقاصد بالتفصیل شائع کیے گئے ہیں۔ کتب کی فارمیٹنگ کا طریق کار اور انسٹی ٹیوٹ کا اسلوب تحقیق شائع کیا گیا ہے۔ جب کہ بقیہ مواد کی تفصیلات اس ویب سائٹ کو وزٹ کرکے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ آن لائن مطالعہ کے لیے حضرت شیخ الاسلام کی اردو، عربی اور انگریزی تصانیف مختلف صورتوں (تصویری روپ، یونی کوڈ، پی۔ ڈی۔ ایف) میں الگ ویب سائٹ MinhajBooks.com پر شائع کی گئی ہیں۔

حضرت شیخ الاسلام کی پاکستان میں عدم موجودگی کے دوران میں یہ شعبہ انہیں تحقیقی کام کے بارے میں اپ ڈیٹ رکھتا ہے اور ان کی طرف سے موصول ہونے والے مواد اور ہدایات کو ریسرچ اسکالرز تک پہنچاتا ہے۔ گویا یہ شعبہ حضرت شیخ الاسلام اور ریسرچ اسکالرز کے مابین ایک پل کا کام بھی سرانجام دیتا ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

6۔ شعبہ کمپوزنگ

FMRi کا اپنا کمپوزنگ سیکشن ہے۔ اس کا بنیادی مقصد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پراجیکٹس یعنی حضرت شیخ الاسلام کے تقریری و تحریری مسودات کو بیک وقت تینوں زبانوں (اردو، عربی، انگریزی) میں کمپوز کر کے کتابی شکل میں قابل اشاعت بنانا ہے۔ یہاں موجود کمپیوٹر نیٹ ورک کی مدد سے تحقیق و تخریج سے لے کر کمپوزنگ تک کے تمام مراحل ایک ہی چھت تلے سرعت رفتار سے مکمل کیے جاتے ہیں۔ اس شعبہ میں مسودات کی کمپوزنگ اور فارمیٹ کی تیاری برائے طباعت کی جاتی ہے۔ کام زیادہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں دو شفٹوں میں کام کیا جاتا ہے۔ کام کو معیاری سطح پر سرانجام دینے کے لیے ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کی خاطر محمد فاروق رانا اور عبد الستار (منہاجین) نے اردو، انگریزی اور عربی کمپوزنگ پیٹرن (composing pattern) وضع کیے ہیں۔ اس شعبے کی سربراہی محمد یامین (منہاجین) کے سپرد ہے، جب کہ عبد الخالق بلتستانی، حامد سمیع، محمد نواز قادری اور کاشف علی سعید پر مشتمل مستعد سٹاف ان کی معاونت کر رہا ہے۔ قبل ازیں اس شعبے میں سلیم حسن، غلام نبی قادری، حافظ محمد طاہر علوی، مقصود احمد ڈوگر، محمد افتخار اور ظہیر احمد سیال اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

5۔ شعبہ نقل نویسی

حضرت شیخ الاسلام کے کم و بیش پانچ ہزار خطابات اور لیکچرز اسلام کے ہر موضوع جیسے قرآن و حدیث، سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فقہ و اصول فقہ، روحانیات، تصوف، عقائد، اخلاقیات، فلسفہ، فکریات، الٰہیات، سیاست (قومی و بین الاقوامی)، عمرانیات، معاشیات، ثقافت، میڈیکل سائنسز، حیاتیات، فلکیات، امبریالوجی اور پیراسائیکالوجی وغیرہ پر موجود ہیں، جوکہ ملک پاکستان اور بیرونی دنیا میں وقتاً فوقتاً دیے جاتے ہیں۔ یہ لیکچرز دنیا بھر میں منہاج القرآن کی لائبریریوں میں سمعی و بصری شکل میں موجود ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے ناقل علامہ حافظ حکیم محمد یونس مجددی کی سربراہی میں شعبہ نقل نویسی اس علمی ذخیرے کو تحریری قالب میں ڈھالنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ فوری حوالہ کے لیے لیکچرز کے اہم نکات و اقتباسات اخذ کیے جاتے ہیں۔ یہ شعبہ لیکچرز کو ترتیب و تدوین کے لیے تیار کرتا ہے، بعد ازاں شعبہ تحقیق و تدوین اپنے موضوعات کی تیاری میں ان نقل شدہ خطابات کو استعمال میں لاتا ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

7۔ شعبہ خطاطی

موجودہ شعبہ کمپوزنگ کے فعال ہونے سے قبل جملہ کتب کی کتابت ہاتھ سے ہی کی جاتی تھی، ادارے نے کئی خوش نویس ماہرین کی کل وقتی اور جز وقتی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ ان حضرات میں محترم محمد اخلاق چشتی، محمد یوسف نظامی، سلام شاد، شاہد محمود، علامہ حافظ سراج سعیدی، سید قمر الاسلام ضیغم جیسے نام ور خطاط شامل ہیں۔ اب اس شعبہ کے ذمہ حضرت شیخ الاسلام کی کتب کے ٹائٹل لکھنا، بوقت ضرورت مواد کی کتابت کرنا اور طباعت کے لیے بھجوانے سے قبل کتب و مجلہ جات کی پیسٹنگ کرنا ہے۔ علاوہ ازیں یہ شعبہ تحریک منہاج القرآن کی طرف سے جاری کردہ کتبہ جات / اشتہارات کی لکھائی اور تنظیماتی ڈھانچے کی جدول سازی بھی کرتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن، COSIS، منہاج کالج برائے خواتین اور تحفیظ القرآن انسٹی ٹیوٹ سے موصولہ اسناد (certificates) اور دستاویزات کی لکھائی اسی شعبہ کے ذمہ ہے۔ آج کل اس شعبہ کے انچارج جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے فاضل نام ور خطاط ابو اویس محمد اکرم قادری ہیں جو گزشتہ اٹھارہ سال سے اس شعبے میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے مختلف آیات قرآنی اور اشعار کی خطاطی پر مشتمل بے شمار شاہکار بھی تخلیق کیے ہیں۔

ابو اویس محمد اکرم قادری کے فن پارے ملاحظہ کیجیے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

8۔ شعبہ مسودات و مقالہ جات

یہ شعبہ انسٹی ٹیوٹ کے ریکارڈ کا انتظام و انصرام کرنے پر مامور ہے، یہاں حضرت شیخ الاسلام کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب، حضرت شیخ الاسلام کے قلمی مسودات و نقل شدہ خطابات، ریسرچ اسکالرز کے لکھے ہوئے مسودات اور منہاج یونی ورسٹی کے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک اسٹڈیز کے طلباء کے مقالہ جات کا ریکارڈ تیار کیا جاتا ہے۔ 1992ء میں پہلے batch کی فراغت سے تاحال فارغ التحصیل ہونے والی تمام کلاسوں کے طلباءکے مقالہ جات کی کاپیاں اس شعبہ میں موجود ہیں۔

یہ شعبہ COSIS کے طلباءکی مقالہ جات کے موضوعات کے چناؤ سے لے کر ان کی تکمیل تک کے ہر ہر مرحلہ پر ان کی نگرانی کرتا ہے اور انہیں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ 1999ء تک یہ ذمہ داری محمد افضل قادری نے بحسن و خوبی نبھائی ہے، وہ تمام مقالہ جات کے ریکارڈ کے بھی نگران تھے۔ حضرت شیخ الاسلام کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب اور قلمی مسودات و نقل شدہ خطابات، ریسرچ اسکالرز کے لکھے ہوئے مسودات کے ریکارڈ کا انتظام و انصرام محمد علی قادری کرتے رہے ہیں۔ بعد ازاں قاری خالد محمود سعیدی بحیثیت ریسرچ کوارڈینیٹر مقالہ جات و مسودات کا تمام ریکارڈ محفوظ کرنے پر مامور رہے ہیں۔ جب کہ آج کل انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری انتظامیہ اس شعبہ کی نگران ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

9۔ شعبہ ادبیات

یہ شعبہ انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے تحقیقی کام کی ادبی حوالے سے نوک پلک درست کرتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتب کی عبارت آرائی اور لغوی درستگی اسی شعبہ کی ذمہ داری ہے۔ شعبہ ادبیات میں نام ور نعت گو شاعر ریاض حسین چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد معروف نعت گو شاعر و ادیب ضیاء نیر بطور انچارج شعبہ ذمے داری سر انجام دے رہے ہیں، جب کہ محمد وسیم الشحمی بھی اس شعبے میں اپنے جوہر دکھا رہے ہیں۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

10۔ دار الافتاء

عامۃ الناس کو دین کے بارے میں بنیادی معلومات اور روز مرہ زندگی میں پیش آمدہ مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں فراہم کرنے کے لیے نظامت تحقیق و تبلیغات کے زیر اہتمام دار الافتاء کا اہم شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ اس کے سربراہ صدر دار الافتاء مفتی عبد القیوم خان ہزاروی ہیں۔ مفتی صاحب ایک منجھے ہوئے تجربہ کار مدرس، متکلم اور فقیہ کی حیثیت سے وطن عزیز کی نام ور شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی وسیع المشربی، اجتہادی بصیرت اور بیان مسائل میں جرات مندانہ اظہار انہیں دیگر علماء سے ممتاز کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے فتاویٰ کو بعد ازاں کتابی شکل دی جاتی ہے اور حسب ضرورت و اہمیت ماہنامہ منہاج القرآن میں بھی شامل اشاعت کیے جاتے ہیں۔ اب تک ان فتاوی جات کی پانچ جلدیں ”منہاج الفتاویٰ“ کے نام سے چھپ کر داد تحسین حاصل کرچکی ہیں، جب کہ چھٹی جلد زیر طباعت ہے۔ شعبہ ہٰذا میں اندرون و بیرون ملک سے سائلین خطوط، ٹیلیفون اور ای میلز کے ذریعے اپنے مسائل کا حل معلوم کرتے ہیں۔ ان کے معاون کے طور پر اب تک جن حضرات نے کام کیا ان میں علامہ عمر مرتضیٰ، محمد تاج الدین کالامی اور حافظ محمد صابر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس وقت محمد طائف بطور معاون خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

11۔ شعبہ تحقیقی تربیت

فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں جدید اسلوب تحقیق اور عصری تقاضوں کے مطابق اسلامی ورثہ کو نسل نو کی طرف منتقل کرنے کے لیے سنجیدہ طبع اور تحقیق کے شائق افراد کی تربیت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اس شعبہ میں زیادہ تر کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک اسٹڈیز کی منتہی کلاسوں کے طلبا آتے ہیں، جنہیں جدید خطوط پر تحیقیق و تدوین کی تربیت دی جاتی ہے۔ بعد ازاں یہ زیر تربیت اسکالرز فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہی مستقل بنیادوں پر خدمات سرانجام دیتے ہیں یا حسب توفیق کسی اور مقام پر خدمت دین میں مصروف رہتے ہیں۔

سائیڈ بار لنک

مطبوعات FMRi

بحمد اﷲ تعالیٰ تمام شعبہ جات کے باہمی اشتراک اور تعاون سے اس وقت تک FMRi کے زیراہتمام قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی مختلف موضوعات پر تین سو چالیس کتب تحقیق و تدوین کے مراحل سے گزر کر اردو، عربی اور انگریزی زبان میں منظر عام پر آچکی ہیں، جب کہ اردو کتب کے عربی، انگریزی و دیگر زبانوں میں تراجم کا کام بھی اس کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔ علاوہ ازیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تحریکی نیٹ ورک سے وابستہ کارکنان اپنی مقامی زبانوں میں بھی یہ کتب شائع کرانے میں مصروف ہیں۔ ذیل میں تاحال شائع ہونے والی کتب کی پیش رفت اس طرح درج کی جاتی ہے کہ ہر پانچ سال بعد کتنی کتب زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی تھیں: موضوعات 1985ء 1990ء 1995ء 2000ء 2005ء 2006ء تا حال کل قرآنیات 6 5 10 1 2 1 25 الحدیث 1 11 27 39 ایمانیات 5 5 10 اعتقادیات 1 1 11 1 13 27 سیرت و فضائل نبوی 2 11 12 8 5 15 53 ختم نبوت 4 2 1 7 عبادات 7 7 فقہیات 4 2 1 6 روحانیات 8 14 22 اوراد و وظائف 4 5 9 تعلیمات 2 1 1 4 اقتصادیات 1 1 2 4 8 جہادیات 2 1 3 6 فکریات 3 4 7 6 20 انقلابیات 5 3 1 1 10 سیاسیات 1 3 4 قانونیات 1 1 2 4 شخصیات 2 2 3 5 3 15 اسلام اور سائنس 1 2 2 5 عصریات 1 3 4 8 تعلیمات اسلام سیریز 4 1 5 عربی کتب 2 5 2 2 11 انگریزی کتب 13 8 1 2 10 3 37 ٹوٹل 43 66 63 46 47 77 341

یوں تو ہر کتاب فن تحریر کا کامل نمونہ اور دل کش اسلوب بیان کی حامل ہے، جس میں علوم و معارف کا بحر بے کراں پنہاں ہے، اور ہر کتاب اس قدر امتیازی خصوصیات کی حامل ہے کہ ان خصوصیات پر کئی کتب احاطہ تحریر میں لائی جاسکتی ہیں؛ لیکن اختصار کی غرض سے یہاں چند اہم کتب کے تعارف اور ان کے امتیازی خصائص کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

1۔ عرفان القرآن

بحمد اﷲ تعالیٰ ہمارے عظیم قائد، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے قرآن حکیم کا اردو ترجمہ ”عرفان القرآن“ کے نام سے شروع کیا، جس کے 22 پارے 2005ء تک شائع ہو چکے تھے۔ مؤرخہ 20 جولائی 2005ء کوکینیڈا میں قیام کے دوران میں حضرت شیخ الاسلام نے بقیہ آٹھ پاروں کا ترجمہ بھی مکمل کر دیا۔ مدت مدید سے منتظر اس عظیم ترجمہ قرآن حکیم کی مکمل طباعت رمضان المبارک 1426ھ میں ہوئی۔

”عرفان القران“ اپنی نوعیت کا ایک منفرد ترجمہ ہے جو کئی جہات سے دیگر تراجم قرآن کے مقابلہ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس کی درج ذیل خصوصیات اسے دیگر تراجم پر فوقیت دیتی ہیں:

  • ہر ذہنی سطح کے لیے یکساں قابل فہم اور منفرد اسلوب بیان کا حامل ہے، جس میں بامحاورہ زبان کی سلاست اور روانی ہے۔
  • ترجمہ ہونے کے باوجود تفسیری شان کا حامل ہے اور آیات کے مفاہیم کی وضاحت جاننے کے لیے قاری کو تفسیری حوالوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
  • یہ نہ صرف فہم قرآن میں معاون بنتا ہے بلکہ قاری کے ایقان میں اضافہ کا سامان بھی ہے۔
  • یہ تاثیر آمیز بھی ہے اور عمل انگیز بھی۔
  • حبی کیفیت سے سرشار ادب الوہیت اور ادب بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا شاہکار ہے جس میں حفظ آداب و مراتب کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
  • یہ اعتقادی صحت و ایمانی معارف کا مرقع ہے۔
  • تجدیدی اہمیت کا حامل دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید ترین اردو ترجمہ ہے، جس میں جدید سائنسی تحقیقات کو مد نظر رکھا گیا ہے۔
  • یہ علمی ثقاہت و فکری معنویت سے لبریز ایسا شاہکار ہے، جس میں عقلی تفکر و عملیت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔
  • روحانی حلاوت و قلبی تذکر کا مظہر ہے۔
  • اس میں نہ صرف قرآنی جغرافیہ کا بیان ہے بلکہ سابقہ اقوام کا تاریخی پس منظر بھی مذکور ہیں۔

مغربی دنیا کو قرآن حکیم کے حقیقی پیغام کے ابلاغ کے لیے ضروری ہے کہ قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا جائے۔ الحمد للہ! یہ امر نہایت مسرت افزا ہے کہ اس کا انگریزی ترجمہ قرآن بھی مکمل ہوچکا ہے اور اس وقت زیر طباعت ہے۔

عرفان القرآن کے آن لائن مطالعہ کے لیے عرفان القرآن ڈاٹ کوم ملاحظہ کریں۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

2۔ تفسیر منہاج القرآن

قرآن حکیم کی تفسیر جو عصری مسائل اور ضروریات کی تکمیل کر سکے جدید دور کی اہم ترین دینی ضرورت ہے۔ اس کی تحریر کا آغاز بھی ہوچکا ہے اور ان شاء اللہ العزیز جلد مکمل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے طفیل حضرت شیخ الاسلام مد ظلہ کو اس کی تکمیل کے لیے صحت وسلامتی فرمائے طاقت کی خصوصی نوازش سے نواز دے تاکہ وہ امت کو یہ قیمتی اثاثہ بھی دے سکیں۔ حضرت شیخ الاسلام کی تاحال سورۃ فاتحہ کی ابتدائی چار آیات کی تفسیر اور سورۃ البقرہ کے تفسیری نکات شائع ہوئے ہیں۔ یہ تفسیر درج خصوصیات کی حامل ہے:

  • قرآن مجید کے تراجم، حواشی اور تفاسیر کی تاریخ میں ایک منفرد اور نادر الوجود باب کا اضافہ ہے۔
  • یہ تفسیر جدت نظم، ندرت اسلوب، انداز اور مطالب و مضامین کے تنوع کے اعتبارسے قدیم و جدید تمام تفسیری لٹریچر کی تاریخ میں ایک نئے فن کا آغاز ہے۔
  • روایت و درایت کی جامع ہے۔
  • اجتہاد اور فکری عملیت کا گراں قدر ذخیرہ ہے۔
  • لغوی و نحوی، ادبی و علمی اور اعتقادی و تفسیری پہلوؤں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
  • ہزار ہا قرآنی موضوعات اور مطالب و مضامین ایک خاص نظم کے ساتھ عنوانات کی صورت میں پہلی بار قارئین کے سامنے آئے ہیں۔
  • قرآن مجید کا ایک عدیم المثال مختصر انسائیکلوپیڈیا ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

3۔ جامع السنۃ فیما یحتاج الیہ آخر الامۃ

آج زندگی نئے ادوار میں داخل ہو کر نئے تقاضوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ہر دور کی طرح آج کی حشر سامانیوں کا مقابلہ بھی اہل علم اور رجال دین کا فرض ہے۔ آج جس طرح قرآن کی تشریحات، اطلاقات اور مفاہیم کی تعبیر نو وقت کا تقاضا ہے اسی طرح احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اسلام کا دوسرا بڑا ماخذ اور ذریعہ عمل (source of inspiration) ہے اس کی حقانیت اور حجیت مسلم کرنے کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔

قرآن حکیم کی طرح حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تمام علوم و معارف کا سرچشمہ ہے۔ ہر دور کے انسان نے اس سرچشمہ صافی سے راہنمائی حاصل کی۔ آج علوم معاشرت (social sciences)، علوم طبعی (natural sciences)، علوم الاقتصاد (economics)، علوم طب (medical sciences) اور دیگر کئی علوم کی نئی نئی جہات سامنے آرہی ہیں۔ نئی تہذیب اور ثقافت جنم لے رہی ہے۔ مسلم تاریخ ایک نئے موڑ پر آپہنچی ہے جہاں اسے نئے مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں۔ ان مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں وہی نور، وہی یقین اور وہی وثوق اور عرفان درکار ہے جو ہر دور میں اہل ایمان کا طرہ امتیاز رہا ہے اور اس کا حصول قرآن و سنت جیسے یقینی علم کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست، معیشت، معاشرت، تربیت، تجارت اور تدریس و تعلیم جیسے بنیادی موضوعات پر نئے سرے سے حدیث نبوی کے محققہ مجموعے مرتب کیے جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ آج کل ہمارے مذہبی، تعلیمی اداروں اور خصوصا جامعات میں اس نوعیت کے منتخبات پر کام ہورہا ہے، مگر امتحانی ضرورت اور مخصوص تحقیقی نقطہ نظر سے ہٹ کر عامۃ الناس کی ضرورت اور افادیت کو سامنے رکھا جانا زیادہ ضروری ہے۔

متون حدیث کی ترتیب نو کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ احادیث کے مفاہیم و معانی اور تشریح کو دور جدید کے تناظر میں رکھ کر بیان کیا جائے کیوں کہ پرانی شروحات پرانے پس منظر میں لکھی گئیں، اب وہ حالات نہیں اس لیے پرانا اسلوب اپنے اندر وہ افادیت نہیں رکھتا۔

عام مسلمانوں میں کچھ غلط فہمیاں دور زوال کا تحفہ ہیں اور کچھ تنازعات کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ بندی کار فرما ہے۔ خصوصا عقائد میں ایسے اختلافات جو انسان کو مرنے مارنے پر ابھارتے ہیں، جن کی وجہ سے اسلامی جمعیت منتشر بھی ہو رہی ہے۔ اور باطل استعمار کو اس اختلاف و انتشار سے فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق سے واضح ہوجاتا ہے کہ عصر حاضر میں خدمت حدیث کا کتنا وسیع اسکوپ موجود ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ الاسلام مجد الدین والملۃ ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی جیسی دانا و بینا ہستی کی نظروں سے یہ میادین علم و فکر اوجھل نہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت مرحمت فرمائی ہے کہ وہ محض علمی ذخیرے جمع نہیں کرتے بلکہ امت مسلمہ کا ایک قابل ذکر حصہ خصوصا نئی نسل ان سے مانوس بھی ہے اور ان کے اشارہ ابرو پر جان بھی چھڑکتی ہے۔ ان کے مواعظ حسنہ اور علمی و تحقیقی نشریات سے ایک جہاں مستفیض ہورہا ہے۔ یوں تو انہوں نے تفسیر، سیرت، تصوف، سائنس، معاشیات، سیاسیات، عمرانیات، اور فکریات پر بے مثال ذخیرہ سمعی، بصری اور کتابی شکل میں قوم کو دیا ہے اور یہ مقدس مشن اب بھی جاری ہے، لیکن احادیث نبوی کی خدمت کے محاذ پر جتنی عرق ریزی اور جانفشانی سے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ یہ توفیق ہمارے دور میں عرب و عجم کے کسی شخص کے حصے میں نہیں آئی۔ بلاشبہ ان کی مجتہدانہ شان اور منصب اس بات کا متقاضی بھی تھا کہ وہ اس بنیادی دینی ضرورت کی طرف متوجہ ہوتے۔ ان میں سے ایک انتہائی اہم مجموعہ جامع السنۃ فیما یحتاج الیہ آخر الامۃ ہے جو تقریبا ڈیڑھ درجن سے زائد جلدوں پر مشتمل ہوگا اور جس میں تقریبا پچیس سے تیس ہزار کے لگ بھگ احادیث نئی ترتیب، نئے ابواب اور مروجہ تخریج کے ساتھ جمع کی جائیں گی۔ اس ذخیرہ حدیث کی ایک جلد کتاب المناقب شائع ہوچکی ہے۔ بقیہ جلدوں میں سے چند ایک ذیل میں درج کی جاتی ہیں:

1۔ کتاب الایمان (الجزء الاول: ایمان باللہ و الرسالت)

2۔ کتاب الایمان (الجزء الثانی: ایمان بالآخرت، ایمان بالملائکۃ، ایمان بالقدر)

3۔ کتاب العلم والسنۃ

4۔ کتاب الصلاۃ

5۔ کتاب الصوم و الزکوۃ و الحج

6۔ کتاب الزھد و الرقائق و الاخلاق

7۔ کتاب الآداب و الاعمال الصالحۃ

8۔ کتاب الاحکام الشخصیۃ و الاقتصادیۃ و السیاسیۃ

9۔ کتاب الاحکام الاداریۃ و الدستوریۃ و الدولیۃ

10۔ کتاب المناقب

11۔ مناقب الحرمین الشریفین

سائیڈ بار ذیلی لنک

4۔ المنہاج السوی من الحدیث النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

گزشتہ ادوار میں متعدد علماے اسلام اور ائمہ کرام نے مختلف موضوعات پر احادیث مبارکہ کی جمع و ترتیب کا کام سرانجام دیا جو جزواً ایمانیات، عبادات، احکامات الٰہیہ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناقب و فضائل کے بیان سے متعلق تھا۔ اس ضمن میں خطیب تبریزی کی ”مشکوٰۃ المصابیح“، امام منذری کی ”الترغیب والترہیب من الحدیث الشریف“، امام نووی کی ”ریاض الصالحین“ اور امام دمیاطی کی ”المتجر الرابح فی ثواب العمل الصالح“ کا نام سرفہرست ہے جو صدیوں قبل منظر عام پر آئیں۔ دور حاضر میں یہ منفرد اعزاز حضرت شیخ الاسلام کو حاصل ہوا جنہوں نے عصری تقاضوں کے مطابق عقائد و اعمال، احکام دین، عبادات و مناسک، آداب و مناقب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اخلاص و خشیت سے متعلق اور متفرق موضوعات پر ”المنہاج السوی من الحدیث النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ کے عنوان سے احادیث کا ایک جامع مجموعہ مرتب کیا، جوکہ FMRi کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس کی نمایاں خصوصیات حسب ذیل ہیں:

  • گیارہ سو احادیث پر مشتمل کم و بیش ایک ہزار صفحات پر محیط کتاب ہے۔
  • اردو جاننے والے خواتین و حضرات کے لیے اس کا سلیس اردو ترجمہ اور احادیث کی تخریج بھی کر دی گئی ہے۔
  • حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کے وسیع ذخیرے سے ماخوذ جدید موضوعات پر مشتمل نہایت خوبصورت مجموعہ ہر طبقہ زندگی کے لیے یکساں مفید ہے۔
  • پونے تین سو مستند کتب حدیث سے استفادہ کیا گیا ہے۔
  • یہ کتاب عقائد صحیح کی بنیاد فراہم کرتی ہے نیک اعمال پر ابھارتی ہے اور عملی زندگی میں بہترین راہنمائی فراہم کرتی ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

5۔ کتب احادیث

FMRi کے زیر اہتمام مرتب کی جانے والی کتب احادیث و اربعینات میں سے ہر ایک میں مستند احادیث کا بیش بہا خزانہ موجود ہے، جن کا اردو ترجمہ عام قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے۔ یہ کتب حوالہ جات کی کثرت کے باعث محققین کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ تا حال مطبوعہ کتب میں سے چند درج ذیل ہیں:

1۔ الاربعين فی فضائل النبی الامين صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم

2۔ البدر التمام فی الصلوٰة علیٰ صاحب الدنو والمقام صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم

3۔ بشری للمؤمنين فی شفاعۃ سيد المرسلين صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم

4۔ القول الوثيق فی مناقب الصديق رضی اللہ عنہ

5۔ القول الصواب فی مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

6۔ روض الجنان فی مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

7۔ کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب کرم اﷲ وجھہ

8۔ السيف الجلی علیٰ منکر ولايت علی رضی اللہ عنہ

9۔ الدرة البيضاء فی مناقب فاطمۃ الزھراء سلام اﷲ عليھا

10۔ مرج البحرين فی مناقب الحسين رضی اﷲ عنھما

11۔ القول المعتبر فی الامام المنتظر علیہ السلام

12۔ الکنز الثمين فی فضيلۃ الذکر والذاکرين

سائیڈ بار ذیلی لنک

6۔ سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عصر حاضر کی عظیم اجتہادی کاوش سیرۃ الرسول A کے موضوع پر اردو زبان میں لکھی گئی سب سے بڑی تصنیف ہے۔ اس معرکہ آراء کتاب کی دس جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں جو کہ درج ذیل امتیازی خصوصیات کی حامل ہیں:

  • ”سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبی ہوئی ایسی تحریر ہے، جو دلوں میں اﷲ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اور تعظیم پیدا کرتی ہے۔
  • یہ آقاے دوجہان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق غلامی کو پھر سے بحال کرنے کا نظام العمل ہے۔
  • غیر مسلم مفکرین کے اعتراضات کا علمی اور فکری سطح پر مدلل جواب اور اسلام کے ثقافتی، نظریاتی اور فکری پس منظر کا حقیقی ابلاغ ہے۔
  • دور حاضر میں معاشرتی و قومی سطح پر مسائل کا حل ہے۔
  • عام فہم علمی دلائل کا خزینہ ہے، جو قاری کے علمی و فکری الجھاؤ کو دور کرتی ہے۔
  • جدید ذہن کے سوالات کے جامع اور مدلل جوابات مہیا کرتی ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

7۔ مقدمہ سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیرت نگاری کی تاریخ میں کسی بھی مصنف نے مقدمہ تصنیف نہیں کیا تھا، یہ امتیاز مفکر اسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو حاصل ہے کہ آپ نے تاریخ سیرت نگاری اور علمی دنیا میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ آپ نے ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل ”مقدمہ سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ کی دو ضخیم جلدیں تصنیف کی ہیں۔ اس طرح آپ نے سیرت کے موضوع کا مخاطب صرف اہل اسلام کو نہیں بلکہ اہل عالم کو قرار دیا ہے، کیوں کہ سیرت کے عمومی بیان سے صرف اہل ایمان ہی رہنمائی لے سکتے ہیں۔ آپ نے واضح کیا ہے کہ سیرت کے بیان کا مقصود ایک ایسی دنیا کی تشکیل ہے جہاں انسان مثالی معاشرے میں رہ سکے کیوں کہ سیرت مقدسہ اپنی ظاہری و باطنی وسعتوں کے لحاظ سے محض شخصی سیرت نہیں بلکہ ایک عالم گیر اور بین الاقوامی سیرت ہے جو کسی شخص واحد کا دستور زندگی نہیں بلکہ جہانوں کے لیے ایک مکمل دستور حیات ہے۔ جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جائے گا انسانی زندگی کی استواری و ہم واری کے لیے سیرت کی ضرورت و اہمیت شدید سے شدید تر ہو جائے گی۔

”مقدمہ سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ میں سیرت کے جن پہلؤوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1۔ دینی پہلو

2۔ آئینی و دستوری پہلو

3۔ ریاستی پہلو

4۔ علمی و سائنسی پہلو

5۔ ثقافتی پہلو

6۔ نظریاتی پہلو

7۔ تاریخی پہلو

8۔ اقتصادی پہلو

9۔ عصری و بین الاقوامی پہلو

سائیڈ بار ذیلی لنک

8۔ اسلامی فلسفہ زندگی

تحریک کے ابتدائی دور میں منظر عام پر آنے والی حضرت شیخ الاسلام مدظلہ کی ان چند کتب میں سے سرفہرست ہے جنہوں نے علمی، فکری اور دینی حلقوں میں ہمہ گیر شہرت حاصل کی۔ یہ کتاب ان خصوصیات کی حامل ہے۔

  • اس کتاب میں انسانی زندگی کے حقیقی مقصد کو اجاگر کیا گیا ہے۔
  • جملہ مشمولات براہ راست قرآن و سنت کی نصوص پر مبنی ہیں۔
  • اس کتاب میں زوال و انحطاط سے نجات کی قرآنی تدابیر بیان کی گئی ہیں۔
  • اس کا تعلق براہ راست معاشرے کے ہر فرد اور اس کی عملی زندگی کے ساتھ ہے۔
  • معاشرتی بگاڑ کی موثر اصلاح اور تبدیلی احوال کے مسئلے کا فیصلہ کن حل تجویز کرتی ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

9۔ قرآنی فلسفہ انقلاب

یہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے جسے براہ راست قرآن حکیم سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھے بغیر قرآن حکیم کے فلسفہ انقلاب کے مبادیات کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تصنیف کے مطالعہ سے قرآنی معاشرہ کا پس منظر اور پیش منظر قاری کے ذہن پر نقش ہوجاتا ہے۔ اس کتاب میں قرآنی فلسفہء انقلاب، تاریخ زوال امت، مقصد بعثت انبیاء، دعوت اور اس کی اہمیت، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں مصطفوی انقلاب کا منہاج اور دیگر اہم موضوعات پر قرآنی آیات کی روشنی میں مفصل بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں اس حقیقت کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ جب سے ملت اسلامیہ کے ہمہ گیر زوال کا دور شروع ہوا ہے، طاغوتی و استعماری طاقتوں نے اسلام کے بنیادی تصورات میں درج ذیل سات اقسام کے تغیرات پیدا کیے ہیں:

1۔ سیاسی فکر میں تغیر

2۔ معاشی و اقتصادی فکر میں تغیر

3۔ فقہی و قانونی فکر میں تغیر

4۔ عمرانی و سماجی فکر میں میں تغیر

5۔ تہذیبی و ثقافتی فکر میں میں تغیر

6۔ دینی و مذہبی فکر میں میں تغیر

7۔ تعلیمی و تربیتی فکر میں میں تغیر

ان تغیرات کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے، اس حوالہ سے نصوص قرآنی اور احادیث مبارک سے رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ مطالعہ قرآن کے انقلابی اسلوب بیان پر مشتمل یہ کتاب اس صدی کی اہم دستاویزات میں شامل ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

10۔ اسلام میں انسانی حقوق

انسانی حقوق کے حوالے سے لکھی جانے والی معرکہ آراء تصنیف ہے جسے اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اس کتاب میں معاشرے میں بسنے والے مختلف افراد کے انفرادی و اجتماعی حقوق کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب عالم میں انسانی حقوق کا موازنہ کیا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق دور جدید کی اصلاح نہیں بلکہ اس کا تصور اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل دے دیا تھا۔

اس کتاب میں اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور، اسلامی اور مغربی تصور حقوق کا موازنہ، انسانی حقوق کا تقابلی پہلو، بنیادی انسانی حقوق (انفرادی و اجتماعی)، خواتین کے حقوق، مختلف طبقات معاشرہ کے حقوق، غیر مسلموں کے حقوق، انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (خطبہ حجۃ الوداع) جیسے اہم اور تحقیقی موضوعات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور علمی مباحث کو جملہ قارئین کے لیے سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ میثاق مدینہ، خطبہ فتح مکہ، اور خطبہ حجۃ الوداع میں انسانی حقوق کے حوالے سے بیان کی جانے والی شقوں کو اصل متن کے ساتھ classify کیا گیا ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

11۔ میثاق مدینہ

یہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے جس میں میثاق مدینہ بمع اردو و انگریزی ترجمہ بھی موجود ہے۔ اس میں دلائل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے کہ:

  • میثاق مدینہ کے ذریعے پہلی اسلامی ریاست میں مسلم شہریوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے جملہ حقوق کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا۔
  • اس میں خواتین کے حقوق کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔
  • موجودہ دور کی قانونی و دستوری میدان میں ترقی کے باوجود میثاق مدینہ جملہ آئینی و دستوری معیارات کے تناظر میں دور جدید کے کسی بھی مثالی آئین سے زیادہ جامع اور مکمل آئین ہے۔
  • میثاق مدینہ کو دیگر دساتیر عالم پر یہ برتری بھی حاصل ہے کہ اپنے محتویات کی جامعیت کے ساتھ ساتھ اس کے تسلسل کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔
  • اس کتاب میں میثاق مدینہ سے قبل کے حالات اور اس معاہدے کے نتائج کو مفصل انداز سے بیان کیا گیا ہے، اور اس عظیم الشان دستور کے حوالہ سے مستشرقین کی آراء کو بھی قارئین تک پہنچانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

12۔ اسلام اور جدید سائنس

یہ دور جدید کی منفرد کتاب ہے جس میں قرآنی آیات میں جابجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق کو بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام ہر دور کا دین ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کتاب میں ان امور پر تفصیلی بحث کی گئی ہے کہ سائنسی شعور کے فروغ میں اسلام کا کیا کردار ہے؟ کس طرح قرآنی تعلیمات میں سائنسی علوم کی ترغیب دی گئی ہے؟ کیا اسلام اور سائنس میں عدم مطابقت ہے؟ تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ کیا ہے؟

سائیڈ بار ذیلی لنک

13۔ امام ابو حنیفہ: امام الائمہ فی الحدیث

اصحاب علم و فن کے ہاں امام اعظم امام ابو حنیفہ جیسے اکابر ائمہ کا شمار بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں ہوتا ہے۔ جس طرح قرآن، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک زندہ معجزہ اور خصوصیت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مطہرہ کو محفوظ و مامون بنانے کے لیے حدیث کا شاندار ذخیرہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے، اسی طرح ائمہ مجتہدین اور بالخصوص امام اعظم کا وجود بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ختم نبوت کا زندہ معجزہ ہے۔ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ اسلامی فقہ کی تدوین اول امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمائی بلکہ خود امام شافعی جیسے عظیم مجتہد، محدث نے فرمایا: ”قیامت تک جو شخص بھی دین کی سمجھ حاصل کرنا چاہے گا وہ ابوحنیفہ کے فیضان علم کا محتاج ہوگا۔“ ان پاکان امت کی ہر ادا نرالی اور ہر پہلو اتنا شاندار ہے کہ عظمتیں بھی یہاں رشک کررہی ہیں۔

کہتے ہیں شخصیت جتنی عظیم ہوتی ہے اس کی مخالفت بھی اس قدر شدید ہوتی ہے اور اس کی آزمائش بھی اتنی ہی سخت ہوتی ہے۔ امام ابو حنیفہ کو بھی مخالفت و عداوت اور آزمائش کی سخت ترین بھٹی سے گزرنا پڑا۔ صاحبان عزیمت کی طرح امام صاحب نے بیک وقت دو سطحوں پر صبر و برداشت کی بھاری سلوں کو اپنے سینہ مبارک پر اٹھایا۔ مخالفت کی ایک سطح ”بادشاہت“ کا روایتی حربہ تھا۔ چونکہ امام صاحب کی زندگی میں بنو امیہ کا خاتمہ اور بنو عباس کا آغاز ہوا۔ اس لئے بنو امیہ کے آخری بادشاہ مروان بن محمد اور بنو عباس کے ابوجعفر منصورکے حکم پر باری باری آپ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ بالآخر اس ظلم کی بدترین علامت بادشاہت کے ہاتھوں جیل میں زبردستی زہر پلوانے پر آپ نے جام شہادت نوش کیا۔ بقول شخصے:

جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی

کٹی ہے بر سر میداں مگر جھکی تو نہیں

آپ سے کوئی اخلاقی جرم صادر نہیں ہوا تھا، نہ آپ نے کسی کا جانی مالی نقصان کیا تھا، آپ کا جرم صرف اور صرف یہ تھا کہ آپ نے مفتی اعظم اور وزیر خزانہ جیسا اعلیٰ حکومتی عہدہ قبول نہ کر کے بادشاہت کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔ یہ تو آپ پر روا رکھا جانے والا جسمانی ظلم تھا جو مزعومہ سیاسی مصلحتوں نے جاری رکھا اور آپ کے وصال کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ لیکن ظلم، ناشکری اور تعصب و عناد کی ایک دوسری صورت بھی تھی جو اس وقت آپ کے معاصر حاسد علماء نے شروع کی اور پھر نسل در نسل متعصب ذہنیت رکھنے والے مذہبی طبقات میں بھی منتقل ہوتی رہی۔ صدیاں گزرنے کے بعد اب بھی مخصوص ”مذہبی“ پس منظر رکھنے والے لوگ آپ کے خلاف حسد، بغض اور مخالفت کا ابلیسی مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گذشتہ کئی صدیوں سے آپ کے خلاف جو پروپیگنڈہ سب سے زیادہ ہورہا ہے وہ آپ کی علم حدیث سے دوری، لاعلمی اور ناقدری کا الزام ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آج بھی پورے عالم اسلام کا اسی (۸۰) فیصد حصہ امام اعظم کے فقہی اصولوں کا مقلد ہے لیکن پھر بھی آپ کو حدیث سے لاعلم کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ نظام قدرت ہے کہ ان مخالفانہ رویوں اور مسلسل متعصبانہ کاوشوں کے باوجود اب بھی ”امام اعظم“ ابوحنیفہ ہی ہیں اور ان شاء اﷲ رہتی دنیا تک ”امام اعظم“ کا اعزاز آپ ہی کے سر سجا رہے گا۔

قرآن و سنت کے صحیح پیغام اور بزرگان دین بالخصوص ائمہ فقہ و حدیث کی ترجمان تحریک منہاج القرآن کے بانی شیخ الاسلام، محقق عصر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے دیگر علمی محاذوں پر داد شجاعت دینے کے ساتھ ساتھ اس اہم معاملے پر بھی توجہ مرکوز کی۔ امام اعظم کی فقہی خدمات سے ہٹ کر صرف علم حدیث پر تفردات و امتیازات کو اکٹھا کیا اور ان تحقیقات کو کتابی شکل میں لانے سے پہلے علماء و مشائخ کی ایک عظیم الشان کانفرنس برطانیہ میں اور دوسری پاکستان میں منعقد کی۔ حسب روایت حضرت شیخ الاسلام کے ان کانفرنسز کے موقع پر ہونے والے خصوصی خطابات کو کتاب شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ امام صاحب کی خدمات فقہ پر بے شمار متقدم و متاخر علماء نے مستقل کتب تصنیف کیں۔ اسی طرح آپ کی علم حدیث میں خدمات کے اعتراف پر بھی ہر دور کے علماء نے قابل قدر علمی کاوشیں مرتب کیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امام صاحب کی خدمات پر احناف سے زیادہ مالکی، شافعی اور حنبلی علماء نے لکھا ہے۔ ان اجل ائمہ میں امام ابو عبد اﷲ احمد بن علی صیمری (متوفی ۴۳۶ھ)، قاضی ابو عمر یوسف بن عبد البر مالکی (۴۶۲ھ)، حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی شافعی (۵۰۵ھ)، امام فخر الدین رازی شافعی (۶۰۶ھ)، امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی (۶۷۶ھ)، حافظ جمال الدین یوسف بن عبد الرحمن مزی شافعی (۷۴۲ھ)، امام شمس الدین محمد بن احمد ذہبی شافعی (۷۴۸ھ)، مجد الدین فیروز آبادی شافعی (۸۱۷ھ)، حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی (۸۵۲ھ)، علامہ یوسف بن عبد الہادی حنبلی (۹۰۹ھ)، امام جلال الدین سیوطی شافعی (۹۱۱ھ)، حافظ محمد بن یوسف صالحی دمشقی شافعی (۹۴۲ھ)، قاضی حسین بن محمد دیار بکری مالکی (۹۶۶ھ)، امام احمد بن حجر ہیتمی مکی شافعی (۹۷۳ھ)، امام عبد الوہاب شعرانی شافعی (۹۷۳ھ) جیسے جلیل القدر لوگوں کے نام شامل ہیں۔ علاوہ ازیں گذشتہ دو تین صدیوں میں بھی عرب و عجم میں امام صاحب پر برابر کام ہوتا رہا۔ لیکن آپ کے علم حدیث پر ایک ایسی ضخیم تحقیقی کتاب کی ضرورت تھی جس میں امام صاحب کی فقہی خدمات کی طرح علم حدیث میں نمایاں کارناموں کا بھرپور احاطہ ہو سکے۔ یہ کام احناف کے ذمے ایک تاریخی قرض تھا اور قدرت نے حضرت شیخ الاسلام کو اس سعادت سے سرفراز کر دیا۔ آپ نے اس کتاب میں موضوع سے متعلق جن علمی مباحث پر منفرد انداز سے گفتگو کی اور اپنے نتائج علمی کو تاریخی حوالوں سے مزین فرمایا ان میں علم الحدیث اور فقہ الحدیث میں فرق، امام اعظم کے حق میں بشارت نبوی کی تحقیق اور امام اعظم کے اخذ علم حدیث کے مراکز شامل ہیں۔ اس کتاب میں مستند تاریخی حوالوں سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ امام ابو حنیفہ اکابر صحابہ، ائمہ اہل بیت نبوی اور اکابر تابعین کے علم حدیث کے وارث ہیں، اور امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابو داؤد، امام نسائی اور امام ابن ماجہ سمیت متعدد ائمہ حدیث کے شیخ الشیوخ ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے تلامذہ کی مرویات کو ایک طرف کر دیا جائے تو صحاح ستہ میں بچتا ہی کچھ نہیں۔ کتاب ہٰذا کے آخر میں ثبوت مقدمہ کے لئے 96 احادیث (احادیات، ثنائیات، ثلاثیات) کو درج کیا گیا ہے جو امام صاحب سے مروی ہیں۔ کتاب کے متنوع موضوعات، ان کی حسن ترتیب اور مستند علمی سرچشموں سے مواد کی فراہمی اس کتاب کی ایسی خصوصیات ہیں جو اسے بلاشبہ تمام معاصر کتب پر فوقیت دے رہی ہیں۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

14۔ کتاب التوحید

عقیدہء توحید و رسالت اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہیں جن پرایمان و اسلام کی پوری عمارت کا دار و مدار ہے۔ یہ دونوں دراصل عین یک دگر ہیں۔ فساد اور بگاڑ اس وقت پیدا ہوا جب توحید اور رسالت میں مغایرت پیدا کر دی گئی۔ یہ مغایرت تنقیص رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتج ہوئی۔ شرک اور بدعت کے تصور کو اتنا اچھالا گیا کہ ہر دوسرا شخص بدعتی اور مشرک قرار پانے لگا۔ داعیان اسلام کی قوتیں جب ان منفی پہلؤوں پر مرتکز ہوئیں تو اس کے دو نقصانات ہوئے: ایک یہ کہ اسلام کی تعلیمات کے فروغ کا دائرہ گیا اور دوسرا یہ کہ باہمی منافرت اور تضادات کے نتیجے میں مسلمان باہم دست و گریباں ہوگئی۔

دوسرا بنیادی نکتہ جو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ توحید محض الفاظ و معانی کا گورکھ دھندا یا قیل و قال کا معاملہ نہیں بلکہ یہ تو عقیدے کے ساتھ ایک کیفیت اور حال ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ یہ تو ایک لذت آشنائی ہے جو انسان کو دو عالم کے خوف و غم سے بے نیاز کر کے بندگی کے اطوار سکھاتی ہے۔ حال میں ڈھلی ہوئی یہی توحید دراصل اولیاء اللہ کا مشرب ہے جس کے باعث وہ استغناء کے بلند مرتبے پر فائز ہو جاتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔ دور زوال میں توحید جب حال کی اس خاص کیفیت سے محروم ہو کر قیل و قال کا موضوع بن گئی تو ”موحدین“ کی طبعیت میں ترشی، کبر و نخوت اور سخت گیری کا غلبہ ہوگیا جس کے مظاہر دنیا بھر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی رجحانات ہر ملک میں کم و بیش یکساں طور پر اسلام کا چہرہ، محبت و مودت، مروت و احسان، تحمل و بردباری اور برداشت کی بجائے جارحیت، کرختگی اور غیر لچک دار رویوں سے مسخ کر رہے ہیں۔ پھر پورے عالم اسلام میں شرک و بدعت کا غلغلہ اور رد عمل میں ہونے والے مناقشات بذات خود مسلمانوں کے داخلی انتشار اور عدم وحدت کی علامت بن چکا ہے۔ حالاں کہ عالم کفر ادیان و مذاہب، رنگ و نسل اور تاریخ و جغرافیہ کی تقسیم مٹا کر اہل اسلام کے خلاف صف آراء ہو چکا ہے۔

اس صورت حال کے پیش نظر ضروری تھا کہ ان اعتقادی موضوعات پر خالص علمی پیرائے اور معتدل طرز فکر کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی تاکہ حقیقت حال سمجھنے میں عوام و خواص کو مدد ملتی۔ چنانچہ ان اعتقادی فتنوں کی بیخ کنی کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی مدلل اور گرجدار آواز ابھری جس نے تلخیوں کے موسم ناروا میں شرق تا غرب محبت و مودت کے گلزار آباد کر دیے۔ مضبوط دلائل کے ساتھ شرک اور بدعت کے ”طوفان“ کو نہ صرف روک دیا بلکہ تنقیص رسالت کے بدترین فتنے کو اپنی موت آپ مارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کتاب فی الحقیقت اس صدی میں حضرت شیخ الاسلام کا وہ نمایاں تجدیدی کارنامہ ہے جس کے مثبت اثرات آئندہ صدیوں تک مترتب ہوتے رہیں گی۔

”کتاب التوحید“ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی کے خطبات و دروس کا مرتبہ مجموعہ ہے جو آپ نے دراسات القرآن کے عنوان سے منہاج یونیورسٹی کے طلباء کو دیے۔ اولاً یہ ”عقیدہء توحید اور حقیقت شرک“ میں شامل ہوئے۔ یہ کتاب جون 1999ء میں پہلی بار طبع ہوئی اور تقریباً ہر سال اس کا نظرثانی شدہ ایڈیشن چھپتا رہا۔ بعد ازاں منہاج یونیورسٹی کے شعبہ ICIS کے طلباء و طالبات (کے سیشن 2004-05ء) کو دیے گئے انگریزی لیکچرز بھی اس موضوع میں توسیع کا سبب بنے۔ یوں جب ان خطبات و دراسات کو از سر نو مرتب کیا گیا تو کتاب کی ضخامت میں اضافہ ہوگیا اور اسے دو جلدوں میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دلیل اور تحمل سے حقائق کو سمجھایا گیا ہے۔ اسلوب بیان کی ندرت، دلائل کی صحت اور موضوعات کی تقسیم میں ابلاغ اور تسہیل کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ اہل اسلام کو اعتقادی مسائل کے حل میں انتہاء پسندی کی بجائے احتیاط، تدبر، میانہ روی اور تحمل کی راہ دکھائی گئی ہے۔ ان شاء اللہ اس کے مطالعہ سے عرب و عجم میں اعتقادی مخاصمت کی شدت میں کمی آئے گی اور توحید کا صحیح تصور سمجھنے میں مدد ملے گی۔ بالخصوص پاک و ہند میں سواد اعظم کے دو گروہوں کے باہمی اختلافات کی خلیج کو ختم کیے جانے کی طرف پیش رفت ہو سکے گی۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

15۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کائنات پر اﷲ رب العزت کا احسان عظیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ ہر سال 12 ربیع الاول کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم میلاد مذہبی عقیدت و احترام اور جوش و خروش سے منا کر اپنے ایمان کی تازگی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ مگر بعض فتنہ پرداز اور مغرب زدہ ذہنیت کے حامل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ربط رسالت کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے موقع پر اہل اسلام جس قدر جذبوں کا اظہار کریں کم ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ الاسلام نے آغاز دعوت میں ہی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع کو خصوصی اہمیت دی، ابتدائی کتاب آپ کے چار خطبات جمعہ کا مرتبہ مجموعہ تھی جسے ڈاکٹر علی اکبر قادری نے مرتب کیا۔ اس کتاب کے ریکارڈ ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر اس میں خاطر خواہ اضافے ہوتے رہے ہیں اور اب یہ اس موضوع پر ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں ان فسادی ذہنیت کے حامل لوگوں کے پراپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دیا گیا ہے، اور میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت کو دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ولادت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اظہار مسرت کی حقیقت، قرآن و حدیث سے استدلال، ائمہ و محدثین کی نظر میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تصور بدعت، جشن میلاد النبی کے تقاضے اور دیگر اہم موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور اس میں پیدا کیے جانے والے تمام تر شبہات اور اشکالات کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

16۔ کتاب البدعۃ

ہمارے ہاں عام طور پر ایک خاص نقطہءنظر اور مذہبی پس منظر رکھنے والے طبقے کی طرف سے”شرک“ اور ”بدعت“ کی دو اصطلاحات کو بہت زیادہ، بے محل اور غلط طریقےسےاستعمال کیا جاتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے ناجائز، غیر مستحسن، غیر ثابت، مکروہ اور حرام، ہر قسم کےامور پر لفظ شرک اور بدعت کو منطبق کر کے امت کی بھاری اکثریت کو مشرک، بدعتی اور گمراہ قرار دے دیا جاتا ہے اور وہ آیات مقدسہ اور احادیث مبارکہ جو کفار و مشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں انہیں بڑی بے باکی سےامت مسلمہ پر چسپاں کر دیا جاتا ہے جو کہ ایک نہایت ہی ظالمانہ اور جاہلانہ طرز عمل ہے۔

”کتاب البدعۃ“ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے تصور بدعت پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب کتاب و سنت، آثار صحابہ اور اقوال ائمہ و محدثین کی روشنی میں ایسےمحققانہ اور مجتہدانہ انداز میں دیا ہے کہ طویل مدت سےتصور بدعت پر پڑی ہوئی ابہام و تشکیک کی گرد ہمیشہ کے لیے چھٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ”کتاب البدعۃ“ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کےان خطبات و دروس کی محققہ و مرتبہ صورت ہے جو آپ نے مختلف علمی و فکری مجالس میں ارشاد فرمائے۔

اس کتاب میں قرآن و حدیث، آثار صحابہ اور اکابر ائمہ و محدثین کے دلائل کی روشنی میں بدعت کے صحیح تصو کو واضح کیا گیا ہے اور مستند دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا ہے کہ ہر بدعت ناجائز اور حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہ بدعت ناجائز ہوتی ہے جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اور وہ شریعت کے کسی حکم کے واضح طور پر مخالف اور متضاد ہو۔ لیکن اس کےبرعکس جو نیا کام احکام شریعت کےخلاف نہ ہو بلکہ ایسےامور میں داخل ہو جو اصلًا حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرےمیں آتے ہیں تو ایسےجملہ نئے کام محض لغوی اعتبار سے ”بدعت“ کہلائیں گے کیونکہ ”بدعت“ کا لغوی معنی ہی ”نیا کام“ ہے، ورنہ وہ شرعًا نہ تو بدعت ہوں گے اور نہ ہی مذموم اور نہ باعث ضلالت ہوں گے، وہ مبنی بر خیر ”امور حسنہ“ تصور ہوں گے۔

سائیڈ بار ذیلی لنک

17۔ عقائد

عقائد کے باب میں ”کتاب التوحید“ اور ”کتاب البدعۃ“ کے ساتھ ساتھ ”حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“، ”عقیدہء علم غیب“، ”عقیدہء ختم نبوت اور قادیانیت“، ”عقیدہء توسل“، ”عقیدہء شفاعت“، ”مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت“، ”شہر مدینہ اور زیارت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ اور ”ایصال ثواب کی شرعی حیثیت“ جیسے تحقیقی اور حساس نوعیت کے موضوعات پر معرکہ آراء کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔ یہ کتب درج ذیل خوبیوں کی جامع ہیں:

  • علمی مباحث کو آسان پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
  • لغو اعترضات کا بطلان کیا گیا ہے۔
  • کتب عقائد کا انداز بیاں مناظرانہ کی بجائے علمی اور محققانہ ہے۔
  • آیات قرآنی، احادیث مبارکہ اور آثار صحابہ کو اپنے جاندار اور درست مؤقف کی تائید میں پیش کر کے بے بنیاد اعتراضات کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
  • افراط و تفریط کے موسم ناروا میں اعتدال و توازن کی بہترین مثال ہیں۔