عرفان القرآن وکیپیڈیا

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
Irfan-ul-quran 16.gif

قرآن حکیم اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، جو اس نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہمیں عطا فرمائی۔ اسلام چونکہ ایک مکمل دین ہے، جو بلاتمیز عرب و عجم تمام انسانیت کو اللہ رب العزت پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، چنانچہ غیرعرب اقوام کو قرآنی فہمی میں آسانی کیلئے مختلف ادوار میں مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کئے جاتے رہے۔ اردو تراجم میں شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر، سرسید احمد خان، ڈپٹی نذیر احمد، اشرف علی تھانوی اور امام احمد رضا خان کے تراجم تاریخی اہمیت رکھتے ہیں، جبکہ عہد جدید میں پیر محمد کرم شاہ الازھری اور غلام رسول سعیدی کے تراجم کو مقبولیت ملی۔

اکیسویں صدی کے عام اردو دان طبقے کیلئے قدیم تراجم کو جدید اردو زبان کی سلاست سے عاری ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر سمجھنا انتہائی دشوار ہے۔ اسی طرح مترجمین کی معاصر سائنسی تحقیقات سے ناآشنائی کی وجہ سے جدید دور کے تراجم بھی نئی نسل کے ذہنوں میں خاصے ابہام چھوڑ جاتے ہیں۔ اردو زبان میں قرآن حکیم کا کوئی ایسا ترجمہ نہیں کیا گیا جو سلیس، جامع اور مفصل ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کے جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عصر حاضر کی ارتقائی علمی سطحوں کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو۔ ایسے میں عرفان القرآن عام قاری کو تفاسیر سے بےنیاز کر دینے والا ترجمہ ہے، جو ہر ذہنی سطح کیلئے یکساں طور پر قابل فہم ہے اور جدید اردو زبان کی سلاست اور سائنسی مقامات کے ترجمہ کے حوالے سے اہل علم میں خاص شہرت رکھتا ہے۔[1] عرفان القرآن قرآن حکیم کا ایسا ترجمہ ہے جو اردو بولنے والی دنیا میں ہر خاص و عام اور مکاتب فکر میں یکساں مقبول ہے۔[2][3] اس کی پہلی مکمل طباعت رمضان المبارک 1426ھ میں ہوئی۔[4]

  1. مشاہیر کے تبصرے
  2. محاسن عرفان القرآن

خصوصیات

عرفان القران اپنی نوعیت کا ایک منفرد اردو ترجمہ ہے، جو کئی جہات سے دیگر اردو تراجم قرآن کے مقابلہ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس کی درج ذیل خصوصیات اسے دیگر تراجم سے ممتاز کرتی ہیں:

  • ہر ذہنی سطح کے لیے یکساں قابل فہم اور منفرد اسلوب بیان کا حامل ہے، جس میں بامحاورہ زبان کی سلاست اور روانی ہے۔
  • ترجمہ ہونے کے باوجود تفسیری شان کا حامل ہے اور آیات کے مفاہیم کی وضاحت جاننے کے لیے قاری کو تفسیری حوالوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
  • یہ نہ صرف فہم قرآن میں معاون بنتا ہے بلکہ قاری کے ایقان میں اضافہ کا سامان بھی ہے۔
  • یہ تاثیر آمیز بھی ہے اور عمل انگیز بھی۔
  • حبی کیفیت سے سرشار ادب الوہیت اور ادب بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا شاہکار ہے جس میں حفظ آداب و مراتب کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
  • یہ اعتقادی صحت و ایمانی معارف کا مرقع ہے۔
  • تجدیدی اہمیت کا حامل دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید ترین اردو ترجمہ ہے، جس میں جدید سائنسی تحقیقات کو مد نظر رکھا گیا ہے۔
  • یہ علمی ثقاہت و فکری معنویت سے لبریز ایسا شاہکار ہے، جس میں عقلی تفکر و عملیت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔
  • روحانی حلاوت و قلبی تذکر کا مظہر ہے۔
  • اس میں نہ صرف قرآنی جغرافیہ کا بیان ہے بلکہ سابقہ اقوام کا تاریخی پس منظر بھی مذکور ہیں۔

مثالیں

عرفان القرآن کی گوناگوں خوبیوں کی چند مثالیں کچھ یوں ہیں:

ادب الوہیت اور ادب بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرآن حکیم کی تلاوت کا پہلا مقصد اﷲ رب العزت اور نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ادب اور محبت پر مبنی تعلق کا قیام اور استحکام ہے۔ عرفان القرآن میں اس پہلو کو نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔ قاری اسے پڑھتے ہوئے ادب و محبت کی ایسی کیفیات سے سرشار ہو جاتا ہے کہ بارگاہِ اُلوہیت اور بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اس کے رگ و پے میں اثر پذیر ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل آیت مبارکہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًاo

’’فرما دیجئے: میں تو صرف (بخلقت ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے، ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلام الٰہی اتر سکے)، وہ یہ کہ تمہارا معبود ، معبود یکتا ہی ہے، پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرےo‘‘[5]

تفسیری تقاضوں اور ہر ذہنی سطح کے ساتھ ہم آہنگی

عرفان القرآن میں آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے ان کے تفسیری پہلو کو بطورِ خاص پیش نظر رکھا گیا ہے۔ عرفان القرآن ایسی تفسیری شان کا حامل ہے کہ آیات کے مفاہیم کو ہر ذہنی سطح کے قاری کے لئے یکساں طور پرآسان بنادیاگیا ہے۔ مثلاً:

الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰo

’’(وہ) نہایت رحمت والا (ہے) جو عرش (یعنی جملہ نظام ہائے کائنات کے اقتدار) پر (اپنی شان کے مطابق) متمکن ہوگیاo‘‘[6]

سلاست، روانی اور بامحاورہ زبان

عرفان القرآن ادبی خصوصیات کے حوالے سے بھی نمایاں اور امتیازی مقام کا حامل ہے۔ اپنے اندازِ بیان کی سلاست، روانی اور زبان کے بامحاورہ ہونے کے سبب سے مشکل ترین مفاہیم کو بھی قاری کے لیے قابل فہم بنادیتا ہے۔ مثلاً:

إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيرًاo قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰo

’’بیشک تو ہمیں (سب حالات کے تناظر میں) خوب دیکھنے والا ہےo (اﷲ نے) ارشاد فرمایا: اے موسیٰ! تمہاری ہر مانگ تمہیں عطا کر دیo‘‘[7]

سائنسی تحقیق اور نظری جدت

دور جدید کی سائنسی تحقیقات اور علمی ترقی نے یہ رحجان پیدا کردیا ہے کہ آج کا ذہن ہر بات کو سائنسی اور علمی بنیاد پر پرکھنا چاہتا ہے۔ عرفان القرآن میں دورِ جدید کے اس تقاضے کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے جدید سائنسی تحقیقات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍo

’’اے لوگو! اگر تمہیں (مرنے کے بعد) جی اٹھنے میں شک ہے تو (اپنی تخلیق و ارتقاء پر غور کرو کہ) ہم نے تمہاری تخلیق (کی کیمیائی ابتداء) مٹی سے کی، پھر (حیاتیاتی ابتداء) ایک تولیدی قطرہ سے، پھر (رِحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلق وجود سے، پھر ایک (ایسے) لوتھڑے سے جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، جس میں بعض اعضاء کی ابتدائی تخلیق نمایاں ہو چکی ہے اور بعض (اعضاء) کی تخلیق ابھی عمل میں نہیں آئی تاکہ ہم تمہارے لئے (اپنی قدرت اور اپنے کلام کی حقانیت) ظاہر کر دیں، اور ہم جسے چاہتے ہیں رحموں میں مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر ہم تمہیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں، پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، اور تم میں سے وہ بھی ہیں جو (جلد) وفات پا جاتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نہایت ناکارہ عمر تک لوٹائے جاتے ہیں تاکہ وہ (شخص یہ منظر بھی دیکھ لے کہ) سب کچھ جان لینے کے بعد (اب پھر) کچھ (بھی) نہیں جانتا، اور تو زمین کو بالکل خشک (مُردہ) دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو اس میں تازگی و شادابی کی جنبش آجاتی ہے اور وہ پھولنے بڑھنے لگتی ہے اور خوش نما نباتات میں سے ہر نوع کے جوڑے اگاتی ہےo‘‘[8]

روحانی حلاوت کا مظہر

عرفان القرآن میں آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے اس امر کا بطورِ خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ قاری ان روحانی حلاوتوں اور کیفیات سے بھی مستفید ہو جو آیات میں مذکور انبیاء و صالحین کے تذکار میں موجود ہیں۔ مثلاً:

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَo

’’تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں یحیٰی (علیہ السلام) عطا فرمایا اور ان کی خاطر ان کی زوجہ کو (بھی) درست (قابلِ اولاد) بنا دیا۔ بیشک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیّت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھےo‘‘[9]

قرآنی جغرافیہ وسابقہ اقوام کا پس منظر

عرفان القرآن کا یہ امتیازی پہلو ہے کہ جہاں بھی کسی سابقہ قوم کا تذکرہ ہوا ہے تفسیری انداز میں اس قوم کی جغرافیائی و تاریخی تفصیل کو بھی بیان کردیا گیا ہے، جس سے قاری نہ صرف اس آیت کے مفہوم سے آشنا ہوتا ہے بلکہ اس میں مذکورہ قوم کے بارے میں بھی تفاصیل جان لیتا ہے اور اس کے لئے اسے کسی تفسیری حوالے کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مثلاً:

وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَo

’’اور ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو اور لوط (علیہ السلام) کو (جو آپ کے بھتیجے یعنی آپ کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے) بچا کر (عراق سے) اس سرزمینِ (شام) کی طرف لے گئے جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیںo‘‘[10]

مشاہیر کے تبصرے

عرفان القرآن کی تقریب رونمائی مؤرخہ 14 ربیع الاول 1427ھ، بمطابق 13 اپریل 2006ء، تحریک منہاج القرآن اور جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کی میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ترجمہ قرآن عرفان القرآن کی تقریب رونمائی ایوان اقبال لاہور میں منعقد ہوئی، جس میں مقامی علماء و مشائخ اور دانشوروں کے علاوہ عرب ممالک کے شیوخ نے بھی شرکت کی۔[11]

  • حضرت میاں میر مسجد کے خطیب مفتی محمد اقبال کھرل نے کہا کہ دور حاضر کی علمی شخصیات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ترجمہء قرآن کر کے قرآن کا عرفان زمانے میں پھیلانے کی سعی کی ہے۔ اس وقت عالم اسلام میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جو امت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر رہے ہیں اور قرآن کا عرفان بھی دے رہے ہیں۔[12]
  • آستانہء عالیہ چشتیہ آباد کامونکی کے پیر ڈاکٹر جمیل الرحمن چشتی نے کہا کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا ترجمہء قرآن عرفان القرآن قاری کو قرآن کی حقیقی روح تک پہنچاتا ہے۔ عرفان القرآن کا اُسلوب اور ترجمے کا منفرد انداز دیگر تراجم سے عرفان القرآن کو ممتاز کرتا ہے۔[13]
  • مرکزی جماعت اہل حدیث پاکستان کے مرکزی امیر علامہ زبیر احمد ظہیر نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ترجمہ کے دوران ذرّہ برابر بھی ڈنڈی نہیں ماری اور مسلک اور عقیدہ سے بالا ہو کر وہ لکھا جو قرآن انسانیت کو سکھا رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے فرقہ بندی کی دیواروں کو توڑ کر اُمتِ مسلمہ کے لیے ترجمہ لکھا ہے، میں انہیں خصوصی مبارک باد دیتا ہوں۔[14]
  • معروف اسکالر ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے کہا کہ بر صغیر پاک و ہند میں ہونے والے تراجم قرآن درخت ہیں اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ترجمہء قرآن عرفان القرآن پھل ہے۔ یہ ترجمہ اپنی معنویت کے اعتبار سے تفسیر ہے۔ شیخ الاسلام کا ترجمہء قرآن عصرِ حاضر کا بہت عظیم علمی کارنامہ ہے، جس سے صدیوں تک امت فیض حاصل کرتی رہے گی۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کو محور و مرکز بنایا ہے اور کہیں بھی ادب کا دامن چھوٹتا نظر نہیں آتا۔[15]
  • کوٹ مٹھن شریف کے پیر معین الدین کوریجہ نے کہا کہ عرفان القرآن قیامت تک پڑھا جاتا رہے گا۔ جدید ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا جواب بھی عرفان القرآن میں ہے اور فرقہ واریت کے عفریت کا علاج بھی عرفان القرآن کے مطالعے میں ہے۔ ہمارا معاشرہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اسلام کا پیغامِ اَمن اور انسانیت وقت کا اہم تقاضا ہے اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پوری دنیا میں اَمن کے سفیر کے طور پر مانے جاتے ہیں۔[16]
  • سابق وزیر مذہبی امور پنجاب سعید الحسن گیلانی نے کہا کہ قرآن پڑھنے کا ذوق زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عرفان القرآن ایک ایسا نادر ترجمہ ہے جو مسلمانوں میں قرآن کی تلاوت کرنے کا ذوق پیدا کرے گا، جس کے بعد قاری فہمِ قرآن تک پہنچے گا۔[17]
  • پاکستان کالج آف لاء کے پرنسپل ڈاکٹر ہمایوں احسان نے کہا کہ قرآن حکیم کا ترجمہ کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اتنا نایاب، آسان فہم اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید ترین ترجمہ کر کے امت پر احسان کیا۔ انہیں اس کا انگریزی ورژن بھی لکھنا چاہیے۔ اس پر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے انہیں بتایا کہ عرفان القرآن کا انگریزی ترجمہ بھی قریباً مکمل ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ کتابوں کے تراجم شروع ہو جائیں تو قوموں کا عامیانہ پن ختم ہو جاتا ہے۔ عرفان القرآن ایک ایسی نادر شے ہے جسے پڑھ کر امت مسلمہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔[18]
  • شیخ الحدیث مولانا محمد معراج الاسلام نے کہا کہ کئی تراجمِ قرآنِ حکیم میں ادب و احترم کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ عرفان القرآن ایک ایسا بیش قیمت ترجمہ ہے جسے پڑھ کر شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے موجود اَوہام کا خاتمہ ہوتا ہے۔[19]
  • شیعہ عالم دین سید علی غضنفر کراروی نے کہا کہ ہرکسی نے اپنے عقیدے کے مطابق تراجم لکھے، مگر عرفان القرآن میں منشاء اِلٰہی و رسول کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری امت کو جوڑنے کے لیے محبت اور یگانگت کی بات کرتے ہیں۔ ان کا ترجمہء قرآن فرقہ واریت کی آگ بجھا نے کا ساماں پیدا کرے گا۔[20]
  • سابق وزیر سیاحت و ثقافت پنجاب میاں محمد اسلم اقبال نے کہ قرآ ن سے جو رشتہ ٹوٹتا جا رہا ہے وہ عرفان القرآن پڑھنے سے جڑے گا، اللہ ہماری نیتوں کو درست کرے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علمی کارنامے اہل پاکستان کا فخر ہیں، خصوصاً ترجمہء قرآن عرفان القرآن اُمت کے امراض کی دوا بن سکتا ہے۔ قرآن کے نور کو عام آدمی کے فہم تک پہنچانے میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کوشش تاریخی نوعیت کی ہے۔[21]
  • جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کے شیخ الحدیث مولانا عبد التواب صدیقی نے خطاب کے دوران میں کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ قرآن حکیم کے ساتھ اپنا تعلق پھر سے بحال کرے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی یہ کاوش واقعی لائق صد تحسین ہے، جو کہ ایک مینارہء نور کی حیثیت رکھتی ہے۔[22]

تنقید

تحریک منہاج القرآن کی طرف سے قرآن مجید کے دیگر اردو تراجم کے ساتھ عرفان القرآن کے تقابلی جائزہ پر مبنی کتابچہ شائع کیا گيا، جس میں کئی معروف تراجم شامل تھے۔ اس کے ردعمل میں ماہنامہ معارف رضا اور جہاں رضا میں کنزالایمان ترجمہ قرآن سے عرفان القرآن کا تقابلی جائزہ پیش کر کے عرفان القرآن پر اشکالات پیش کیے گئے تھے۔[24]

انگلش ترجمہ

مغربی دنیا کو قرآن حکیم کے حقیقی پیغام کے ابلاغ کے لیے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے ’’دی گلوریئس قرآن‘‘ کے نام سے قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا جا چکا ہے۔

حوالہ جات

  1. عرفان القرآن کی اہل علم میں پذیرائی
  2. تبصرہ: سید علی غضنفر کراروی، شیعہ عالم دین
  3. تبصرہ: مرکزی امیر علامہ زبیر احمد ظہیر، امیر مرکزی جماعت اہل حدیث پاکستان
  4. یونیکوڈ اردو ترجمہ عرفان القرآن کی ویب سائٹ
  5. القرآن، الکہف، 18 : 110
  6. القرآن، طہٰ، 20 : 5
  7. القرآن، طہٰ،20 : 35، 36
  8. القرآن، الحج، 22 : 5
  9. القرآن، الانبیاء، 21 : 90
  10. القرآن، الانبیاء، 21: 71
  11. عرفان القرآن کی تقریب رونمائی، ایوان اقبال لاہور
  12. تبصرہ: مفتی محمد اقبال کھرل، خطیب میاں میر مسجد لاہور
  13. تبصرہ: پیر ڈاکٹر جمیل الرحمن چشتی، آستانہء عالیہ چشتیہ آباد کامونکی
  14. تبصرہ: مرکزی امیر علامہ زبیر احمد ظہیر، امیر مرکزی جماعت اہل حدیث پاکستان
  15. تبصرہ: ڈاکٹر طاہر حمید تنولی، ریسرچ اسکالر ایوان اقبال لاہور
  16. تبصرہ: پیر معین الدین کوریجہ، کوٹ مٹھن شریف
  17. تبصرہ: سعید الحسن گیلانی، سابق وزیر مذہبی امور پنجاب
  18. تبصرہ: ڈاکٹر ہمایوں احسان، پرنسپل پاکستان لاء کالج
  19. تبصرہ: شیخ الحدیث مولانا معراج الاسلام
  20. تبصرہ: سید علی غضنفر کراروی، شیعہ عالم دین
  21. تبصرہ: میاں محمد اسلم اقبال، سابق وزیر سیاحت و ثقافت پنجاب
  22. تبصرہ: شیخ الحدیث مولانا عبدالتواب صدیقی، جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
  23. تبصرہ: الاستاذ الفقیہ المحقق الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی، دمشق شام
  24. ماہنامہ معارف رضا (مئی جون 2009ء)، کراچی، مضمون نگار:ڈاکٹر مجید اللہ قادری (پروفیسر جامعہ کراچی)، صفحہ 56 تا 67