سید محمد بن علوی المالکی المکی

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search

محدث حرم ِکعبہ فضیلۃ الشیخ الدکتور السید محمدالحسن بن علوی بن عباس المالکی المکی ۲۰ ویں صدی میں عالمِ اسلام کی ممتاز ترین مشہور ومعروف علمی شخصیت تھے جن کے اباوا جدا پانچ پشتوں تک حرمِ کعبہ میں مالکی مذہب کے امام رہ چکے ہیں- آپ کے دادا سید عباس المالکی  سلطنتِ عثمانیہ میں حرمِ مکہ کے مفتی ، خطیب اور قاضی تھےجو سعودی عرب بننے کے بعد بھی اِس ذمہ داری پر فائز تھے – سعودی عرب کے سابق فرمانروا مرحوم شاہ عبدالعزیز بن سعود بھی آپکی عزت و تعظیم بجا لاتا تھا - آپ کے والدِ گرامی سید علوی بن عباس  بھی عالمِ عرب کے کبائر علما میں شمار ہوتے تھے جو مسلسل ۴۰ برس تک حرم ِ کعبہ میں درس و تدیس میں مشغول رہے- سید عباس ایک علمی شخصیت کے مالک تو تھےہی مگر ان کی وجہ شہرت ان کی خوبصورت آواز تھی جس کی وجہ سے وہ سعودی عرب میں چوٹی کے نعت خوانوں میں سرِ فہرست متصور ہوتے تھے-

السید محمدالحسن بن علوی بن عباس المالکی ۱۹۴۶ ء کو مکہ الکرمہ میں پیدا ہوئے- ابتدائی تعلیم اپنے والدِ گرامی سے حاصل کی اورمزید علم کے حصول کیلئے عالمِ اسلام کی سب سے قدیم یونیورشٹی الجامعہ الاظہر مصر تشریف لے گئے اورعلمِ حدیث میں پی ایچ ڈی کا امتحان پاس کیا- آپ کو جامعہ الاظہر میں سعودی عرب کے سب سے کم عمر) ۲۵ سال ( میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے- جامعہ اظہر سے واپسی پر آپ نے ام القری یونیورسٹی مکہ المکرمہ میں درس وتدریس کا آغاز کیا- ۱۹۷۱ میں آپ کے والد کی وفات کے بعد آپ نے ان کے علمی منصب کو سنبھالا جو کئی سالوں سے آپ کے خاندان کے سپرد تھا- اسکے بعد عالمِ اسلام کے دوسرے اکابر علماء سےبھی شرفِ تلمذ حاصل کرنے کے لیے شام ، مصر، پاک و ہند، ترکی اور افریقہ تک کے ممالک کے سفر کیے اور علم الحدیث، علم التفسیر، علم التصوف والمعرفعہ، علم الفقہ، علم اللغہ والادب، علم الصرف نحو والبلاغہ اور دیگر کئی اسلامی علوم و فنون اور منقولات و معقولات کا درس اور اسانید واجازات ایسے جید شیوخ اور کبائر علماء سے حاصل کیں جنھیں گذشتہ صدی میں اسلامی علوم کامنبع وسرچشمہ اور عظیم سند و حجت تسلیم کیا جاتا ہے - جن کبائر علما و مشائخ سے آپ نے اجازات اور اسناد حاصل کیں ان میں چند مشہور علماء کے نام درج ذیل ہیں- مکہ المکرمہ سے آپ کے والد سید علوی بن عباس المالکی المکی اورشیخ السید محمد امین قطبی ، مدینہ طیبہ سے الشیخ سید ضیاء الدین القادری المدنی اور الشیخ محمد مصطفی العلوی الشنقیطی، یمن اور حضر موت سے الحبیب محمد بن سلیم بن حفیظ، الحبیب احمد المشہور الحدداور الحبیب عبدالقادر السقاف، مصر سے الشیخ سید محمد مکی الکتانی، الشیخ السید محمد صالح الفرفور اور الشیخ ابو لیسر ابن عابدین، شام سے محد ثِ شام الشیخ السید محمد الحافظ تجانی، افریقہ سے الشیخ السید عبداللہ بن صدیق الغماری، شاہِ لیبیا الشیخ الشریف ادریس السنوسی، سوڈان سے الشیخ مدثر ابراہیم، پاک و ہند سے الشیخ مصطفی رضا خان فاضلِ بریلوی، مولانا محمد زکریا کاندھلوی، شیخ ابوالحسن علی الندوی - السید محمدالحسن بن علوی بن عباس المالکی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ معاصر علماء میں سب سے زیادہ احادیث کی اسناد آپ کے پاس تھیں جو آپ نے دور دراز ممالک کے سفر کر کے حاصل کیں – اس کے علاوہ ایک خاص اعزاز جو آپ کو حاصل تھا وہ یہ کہ عصرِ حاضر تک سلسلہ اسناد حدیث میں سب سے چھوٹی سند آپ کے پاس تھی جس میں آپ کے اور آقا کریم ﷺ کے درمیان سلسلہ سند میں سب سے کم راوی شمار ہوتے ہیں- آپ شیخ الاسلام سے بہت محبت اور شفقت فرماتے تھے جس کا اظہار وہ اکثر شیخ الاسلام کی حرمین شریفین کی حاضری کے موقع پرنجی محافل اور مجالس میں اپنے خلفاء وتلامذہ کے سامنے کرتے تھے- السید محمد بن علوی بن عباس المالکی نے شیخ الاسلام کو ۱۹۹۱ء میں اپنی تمام اجازات اور اسانید عطا فرمائیں اور اس کو آپ نے ایک رسالہ کی صورت میں قلمبند کیا جسکا نام آپ نے “النورالباھرفی اجازۃ العلامہ الشیخ محمد الطاہر” رکھا-

السید محمدالحسن بن علوی بن عباس المالکی لگ بھگ ۱۰۰ کے قریب علمی اور تحقیقی کتب کے مصنف بھی تھے جو آج بھی متلاشیانِ دینِ حق کی علمی پیاس بجھا رہی ہیں- ان میں حدیث، تفسیر ، سیرہ، تصوف، فقہ، اصول اور تاریخ اور عصری موضوعات شامل ہیں- آپ نے دنیا کے بہت سے ممالک میں عصرِ حاضر کی ضروریات کو پورا کرنے کیے لیے انسٹیوٹ اور ادارے قائم کیے- اس کے علاوہ سینکڑوں غیر مسلموں نے اپکی تبلیغ سے متاثر ہو کر آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا- آخر کار یہ علمی و دینی شخصیت سن ۲۰۰۴ میں ۱۵ رمضا ن المبارک بروز شبِ جمعہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی- اللہ آپکے مرقد پر کروڑوں رحمتوں کی بارش برسائے- آپ کی وفات سے امتِ مسلمہ ایک جلیل القدر عالمِ ربانی سے محروم ہو گئی- شیخ الاسلام نے آپکی وفات کو عالمِ اسلام کے لیے ایک عظیم سانحہ سے تعبیر کیا-

20 نومبر 1995ء کو مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن پر منعقدہ عالمی علماء و مشائخ کنونشن سے خطبہ صدارت دیتے ہوئے محدث حرم کعبہ فضیلۃ الشیخ الدکتور السید محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : “تحریک منہا ج القران کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا لیکن آج یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو محسوس ہوا کہ حقیقت کے مقابلے میں کم سنا تھا۔ یہ مبارک اور خوشنما ثمرات یقینا ایک ستھری، زرخیز زمین اور پاکیزہ بیج کا نتیجہ ہیں۔ شیخ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاف نیت اور پاکیزہ حسن کو لے کر نکلے ہیں۔ ان کے ارادے بلند اور جذبے جواں ہیں، اس لئے کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔ یہ اس برکت کا حصہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر زمانے میں جاری رکھتا ہے۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر برکت کا تسلسل ہے، جس میں کبھی اِنقطاع نہیں آتا۔ جب بھی باطل کی طرف سے فتنہ و فساد آیا، حق کی طرف سے اُسے ختم کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لئے بھی کوئی شخصیت نمودار ہوجاتی رہی۔ شیخ محمد طاہرالقادری پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا لطف و کرم اور نظر عنایت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی جملہ نعمتوں کے قاسم و مختار ہیں۔ یہ تقسیم قیامت تک جاری رہے گی اور حضور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض جاری و ساری رہے گا۔ اس عالمی اجتماع میں شیخ محمد طاہرالقادری نے آپ کو بہت کار آمد نسخہ بتا دیا ہے، یعنی تہجد، جہاد اور اجتہاد کو یکجا کر لو تو تمہارا مقابلہ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ کاش یہ تینوں صفات آج پھر ہمارے علماء و مشائخ میں پیدا ہو جائیں۔”