تزکیۂ نفس

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search

تزکیۂ نفس اسلامی تصوف کی ایک اصطلاح ہے، جس سے مراد نفس کو آلائشوں سے پاک صاف کرنا۔

تزکیہ کا لفظی معنی

تزکیہ کا لفظی معنی ہے پاک صاف کرنا، نشوونما دینا۔ اسی سے لفظ زکوٰۃ نکلا ہے۔

قرآنِ مجید میں تزکیۂ نفس کا مفہوم

قرآنِ مجید میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (القرآن، الاعلی، 87 : 14)

’’بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔‘‘

لہٰذا تزکیہ نفس سے مراد ہے کہ نفس انسانی میں موجود شر کے فطری غلبہ کو دور کرنا اور اسے گناہوں کی ان آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کرنا جو روحانی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ ان تمام بدی کی خواہشات پر غلبہ پا لینے کا عمل تزکیۂ نفس کہلاتا ہے۔

ایک مثال

اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کیاری میں پودینہ بوئے پھر اس کے بعد وہاں غیر ضروری گھاس اگ آئے جو پودینہ کی نشوونما میں رکاوٹ بن رہی ہو تو اسے اکھاڑ کر پھینک دیاجاتا ہے تاکہ زمین کی ساری تخلیقی قوت اس گھاس پھونس پر صرف ہونے کی بجائے صرف پودینے کی نشونما پر صرف ہو۔ صفائی کے اس عمل کا نام تزکیہ ہے۔

تزکیۂ نفس اصل کامیابی ہے

تزکیہ کے اسی عمل کو قرآن مجید نے فلاح (کامیابی) قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَاO وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (القرآن، الشمس، 91 : 9، 10)

’’یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے (اپنے) نفس کو پاک کرلیا اور نامراد ہوا جس نے اسے خاک میں ملادیا۔‘‘

تزکیۂ نفس کی ضرورت

تزکیۂ نفس کی ضروت کو سمجھنے کے لیے پہلے فطرت انسان کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔

انسان کا وجود جسم اور روح دونوں کا مرکب ہے۔ جسم اور روح دونوں کے الگ الگ تقاضے ہیں اور یہ تقاضے ان کی فطری اور طبعی صلاحیتوں کے مطابق ہیں۔ انسانی جسم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور مٹی میں پستی و گھٹیا پن، ضلالت، گمراہی، حیوانیت و بہیمیت، شیطانیت اور سرکشی جیسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے نفس انسانی فطری طور پر برائیوں کی طرف رغبت دلاتا رہتا ہے۔ گویا گناہوں کی آلودگیاں اور حق سے انحراف نفس انسانی کی فطرت میں شامل ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ. (القرآن، يوسف، 12 : 53)

’’بیشک نفس تو برائیوں کا ہی حکم دیتا ہے۔‘‘

دوسری طرف اﷲ تعالیٰ نے روح کی صورت میں انسان کے اندر ایک لطیف و نورانی ملکہ بھی ودیعت کر دیا ہے جس کے تقاضے بدی و نیکی کی تمیز، حق پرستی، صداقت و امانت اور نفس کی تہذیب و تطہیر سے پورے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (القرآن، الشمس، 91 : 8)

’’پس (اﷲ تعالیٰ) نے نفس انسانی کے اندر برائی اور اچھائی دونوں کا شعور ودیعت کر دیا ہے۔‘‘

اور ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ (القرآن، البلد، 90 : 10)

’’اور ہم نے (انسان کو نیکی اور بدی کے) دونوں راستے دکھا دیئے ہیں۔‘‘

گویا انسان کے اندر برائی اور اچھائی، بدی و نیکی، خیر و شر دونوں طرح کے میلانات ازل سے ودیعت کر دیئے گئے۔

ان دونوں کے درمیان تضاد، تصادم اور ٹکراؤ کی کيفیت قائم رہتی ہے اور جب تک یہ کشمکش قائم رہے انسان کی زندگی عجیب قسم کے تضادات اور بگاڑ کا شکار رہتی ہے۔ اسی بگاڑ سے بے راہ روی، ظلم و استحصال، فسق و فجور جنم لیتے ہیں انسانی شخصیت اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے بے سکون و بے اطمینان رہتی ہے۔ تزکیۂ نفس دراصل اس کشمکش سے نجات کا ذریعہ ہے۔

جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (القرآن، النازعات، 79 : 40)

’’اور وہ نفس کو ہر بری خواہش سے روکتا ہے۔‘‘

اس آیہ کریمہ سے پتا چلا کہ روح میں موجود خیرکے تقاضوں کو نفس کے برے اور شر کے تقاضوں پر غالب کرلینے سے یہ تصادم ختم ہوجاتا ہے۔ نیکی بدی پر غالب آجاتی ہے اور جب حیوانی، شہوانی، نفسانی قوتیں کمزور ہونے لگیں تو نتیجتاً روح اور اس میں پوشیدہ نیکی کی قوتیں نشونما پا کر طاقتور، اور مضبوط ہوجاتی ہیں اور انسانی کی ساری قوتیں نیکی کے فروغ پر صرف ہونے لگتی ہیں۔

پس جب کوئی برائی نفس انسانی میں فروغ نہ پاسکے، کوئی شے صراط مستقیم سے اس کو بہکانہ سکے اور مادی زندگی کی آلائشیں اس کو اس راہ حق سے ہٹا نہ سکیں تو ایک طرف اسے بارگاہ خداوندی میں ایسا سجدہ عبادت نصیب ہو جاتا ہے جس کی کيفیت فان لم تکن تراہ فانہ یراک کی مصداق ہے۔ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا بصورت دیگر خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔

اور دوسری طرف اس کی شخصیت روحانی و اخلاقی کمال کی بلندیوں کو بھی پالے تو اس عمل کا نام تزکیہ نفس ہے جس کے حصول کے بغیر عبادت بے معنی و بے لذت ہے نیکی کے فروغ و تقویٰ اور معرفت ربانی کے لیے پہلا زینہ اور سب سے پہلا عمل تزکیہ نفس ہے۔

مزید پڑھیئے