اسلام اور جدید سائنس

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
Islam-aur-science.jpg

سانچہ:Infobox Book ڈاکٹر طاہرالقادری کی کتاب اسلام اور جدید سائنس اپنے موضوع کا جامع احاطہ کرتے ہوئے متعدد سائنسی موضوعات کو قرآنی تعلیمات کے تقابل کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ [1] کتاب میں قرآن مجید اور سائنسی کتب کے اقتباسات اور حوالہ جات بھی دیئے گئے ہیں۔ مصنف نے حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ سائنسی علوم کے فروغ میں اسلامی تعلیمات اور مسلمان سائنسدانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ سائنس اور قرآن میں نہ صرف مطابقت ہے بلکہ قرآن جابجا اپنے قاری کو سائنسی علوم حاصل کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں قرآنی آیات میں جابجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق کو بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام ہر دور کا دین ہے، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے اور موضوع کو مزید منظم کرنے کیلئے ہر حصہ میں متعدد ابواب اور فصلیں قائم کی گئی ہیں۔ یوں کل 21 ابواب ہیں، جو مزید 143 فصول میں منقسم ہیں۔

فہرست

حصہ اول : سائنسی شعورکے فروغ میں اسلام کاکردار

پہلا حصہ چار ابواب پر مشتمل ہے:

باب اول : قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب

پہلے باب میں قرآنی تعلیمات میں سائنسی علوم کی ترغیب کا احاطہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں موجود ان آیات کو جمع کر دیا گیا ہے جہاں حصولِ علم کی ترغیب کے علاوہ کائنات میں غوروفکر کی ترغیب کا بیان بھی موجود ہے۔

باب دوم : اسلام اور سائنس میں عدمِ مغایرت

اس باب میں مذہب اور سائنس کے دائرہ کار کا تعین پیش کیا گیا ہے۔ یہاں مذہب اور سائنس میں تضاد کے حوالے سے پائے جانے والے مغالطے کے دو بڑے اسباب کا ذکر بھی موجود ہے۔

باب سوم : قرون وسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ

تیسرے باب میں عالمِ اسلام میں تہذیب و ثقافت کے فروغ پر سیرحاصل بحث موجود ہے۔ یہاں قرون وسطی میں سائنسی علوم کے فروغ پر بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ جدید علوم کی ابتدا یا تو مسلمان سائنس دانوں نے کی یا پھر انہوں نے ان علوم کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ اس دور کے مسلمان سائنسدانوں کے ہاتھوں ہونے والا سائنسی ارتقاء، لکھی جانے والی کتب اور ایجادات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں تاریخی حوالہ جات کے ساتھ مختلف علوم پر مسلمان سائنسدانوں کی تحقیقات بھی پیش کی گئی ہیں، ان علوم میں علمِ ہیئت و فلکیات (Astronomy)، حساب، الجبراء، جیومیٹری (Math, Algebra, Geometry)، طبیعیات، میکانیات، حرکیات (Physics, Mechanics, Dynamics)، علمِ بصریات (Optics)، علم نباتات (Botany)، علم طب (Medical Sciences)، علم ادویہ سازی (Pharmacology)، علم جراحت (Surgery)، علمِ امراضِ چشم (Ophthalmology)، بیہوش کرنے کا نظام (Anaesthesia)، علم کیمیا (Chemistry)، فنونِ لطیفہ (Fine Arts)، علمِ فقہ و قانون (Law & Jurisprudence)، علمِ تاریخ و عمرانیات (Historiography & Sociology) اور علمِ جغرافیہ و مواصلات (Geography & Communication) شامل ہیں۔ اس باب کے آخر میں ’’اسلامی سائنس اور مستشرقین کے اعترافات‘‘ بھی پیش کئے گئے ہیں۔

باب چہارم : اسلامی سپین میں تہذیب و سائنس کا ارتقاء

چوتھے باب میں سپین میں مسلمانوں کے 500 سالہ دور میں چندعظیم سائنسدانوں کا ذکر موجود ہے۔ اسلامی سپین کے علمی و فنی ارتقاء کےضمن میں علم الطب، علم الہیئت اور علم النباتات سمیت چند اہم علوم کا ذکر بھی موجود ہے۔ اسلامی سپین کا تہذیبی و ثقافتی ارتقاء کے ضمن میں صنعت و ٹیکنالوجی کا اِرتقاء، کاغذ سازی، ٹیکسٹائل انجینئرنگ،گھڑیاں، حرکی توانائی، کیمیکل ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی، ہوائی جہاز اور سول انجینئرنگ کا ذکر موجود ہے۔ اس باب کے آخر میں اسلامی سپین میں ہونے والی سائنسی ترقی کے حوالے سے غیرمسلم محققین کے اعترافات بھی شامل کئے گئے ہیں۔

حصہ دوم : قرآنی و سائنسی علوم کا دائرہ کار

دوسرے حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے:

باب اول : قرآنی علوم کی وسعت

پہلے باب میں قرآنی و سائنسی علوم کے دائرہ کار کو موضوع بحث بنایاگیا ہے۔ ایسے سائنسی حقائق جو آج کے دور میں سال ہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد منظر عام پر آئے ہیں ان کو قرآن نے کس قدر واضح طریقے سے چودہ سو سال پہلے بیان کر دیا۔ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد قرآن کی جامعیت اور حقانیت مزید آشکار ہوتی ہے۔ یہاں جامعیتِ قرآن کی مختلف شہادتیں بھی پیش کی گئی ہیں۔

باب دوم : سائنسی طریق کار اور تصورِ اقدام و خطاء

دوسرے باب میں سائنسی طریق کار میں تصور اِقدام و خطاء پر بحث کی گئی ہے۔ اس ضمن میں نظام شمسی پر تحقیقات کا تفصیلی بیان موجود ہے، جہاں بنی نوع انسان کے اولیں نظریہ کے بعد مختلف سائنسدانوں فیثا غورث، بطلیموس، زرقالی، کوپرنیکس، ٹیکو براہی، گیلیلیو، کیپلر، نیوٹن اور آئن سٹائن سمیت دس ایسے نظریات پیش کئے گئے ہیں، جو سائنسی تحقیقات کے ساتھ مختلف ادوار میں بدلتے رہے۔ چنانچہ سائنسی تحقیقات کی بنیاد ہی اقدام و خطاء پر ہے۔

باب سوم : سائنسی علوم کی اقسام اور ان کا محدود دائرہ کار

تیسرے باب میں سائنسی علوم کے محدود دائرۂ کار کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں سائنسی علوم کی تینوں اہم اقسام، مادی علوم، حیاتیاتی علوم اور نفسیاتی علوم کے دائرہ کار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس باب مین یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ محدود دائرہ کار کے حامل سائنسی علوم قرآن کی جامعیت کا احاطہ نہیں کر سکتے، جبکہ ان کی بنیاد ہی اقدام وخطاء پر ہے۔

حصہ سوم : اسلام اور کائنات

تیسرا حصہ دس ابواب پر مشتمل ہے:

باب اوّل : اجرامِ فلکی کی بابت اسلامی تعلیمات

پہلے باب میں اجرام فلکی کے ضمن میں ستارے، سیاہ شگاف، دمدار تارے، سورج، گردشِ آفتاب، شمسی تقویم، سیارے، زمین، چاند، قمری تقویم اور تسخیرِ ماہتاب کو زیربحث لایا گیا ہے۔

باب دوم : تخلیقِ کائنات کا قرآنی نظریہ

دوسرے باب میں عظیم دھماکے کا نظریہ، ابتدائی دھماکے کا قرآنی نظریہ، کائنات میں نئے مادے کا ظہور، عظیم دھماکے کا پیش منظر اور قرآن اور نظریۂ اضافیت پر بحث شامل ہے۔

باب سوم : قرآنی لفظِ ’’سماء‘‘ کے مفاہیم اور سات آسمانوں کی حقیقت

تیسرے باب میں قرآنی لفظ سماء کے مختلف معانی پیش کئے گئے ہیں۔ یہاں سات آسمانوں کی سائنسی تعبیر کے ضمن میں تین وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔

باب چہارم : مکان ۔ زمان (Space-time) کا قرآنی نظریہ

چوتھے باب میں روشنی کی رفتار کے عدمِ حصول کے ساتھ ساتھ اضافیتِ زمان و مکاں کے ضمن میں قرآن مجید سے بعض ایسی مثالیں پیش کی گئی ہیں جن میں صراحتاً زمان و مکان کی اضافیت کا ذکر ہے۔

باب پنجم : ارتقائے کائنات کے چھ ادوار

پانچویں باب میں قرآن مجید کا تصورِ یوم، تخلیقِ کائنات میں موجود آٹھ قرآنی اصول، قرآنی چھ ایام کا مفہوم، تخلیق کے دو مراحل جیسے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔

باب ششم : کرۂ ارضی پر ارتقائے حیات

چھٹے باب میں زمین کی تخلیق اور اس کے فطری ارتقاء، مرحلۂ ماقبلِ عہدِ حجری، مرحلۂ حیاتِ قدیم، مرحلۂ حیاتِ وسطیٰ، مرحلۂ حیاتِ جدید اور زمینی زندگی کا پانی سے آغاز جیسے موضوعات لائے گئے ہیں۔

باب ہفتم : ڈاروِن کا مفروضۂ ارتقائے حیات (Darwinism)

ساتویں باب میں ڈارون کے مفروضۂ ارتقائے حیات کو بےنقاب کیا گیا ہے۔ اس فصل میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ڈارونی ارتقاء کا افسانہ غیرسائنسی بنیادوں پر قائم ہے۔ نظریۂ ارتقاء کے کھوکھلے پن کو ثابت کرنے کیلئے خلیوں کی من گھڑت اقسام، ارتقاء کے عمل کے سست رو ہونے کے ساتھ ساتھ جینیاتی عمل کا ہمیشہ تخریبی ہونا اور اپنڈکس کا غیرضروری نہ ہونا وغیرہ واضح کیا گیا ہے۔ نیز اس فصل میں بقائے اصلح کی حقیقت کو بےنقاب کرتے ہوئے اندھی مچھلی، اندھے سانپ اور آسٹریلوی خارپشت جیسی اصناف کے تنوع سے ڈارونزم کو بےبنیاد ثابت کیا گیا ہے۔ دیگر سائنسی علوم طبیعیات، ریاضی اور حیاتیات کی مثالوں سے بھی ڈارونزم کا غیرسائنسی بنیادوں پہ استوار ہونا ثابت کیا گیا ہے۔

باب ہشتم : پھیلتی ہوئی کائنات (Expanding universe) کا قرآنی نظریہ

آٹھویں باب میں وسعت پذیر کائنات کا قرآنی نظریہ بیان کیا گیا ہے۔ نیز اس فصل میں تخلیق کائنات کے ضمن میں عظیم دھماکے کا نظریہ (big bang) کا بیان ہے۔ اسی طرح یہ فصل مادے کا عدم سے وجود میں ظہور اور کُنْ فَیَکُوْنَ، عظیم دھماکے کے بعد کیا ہوا جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔

باب نہم : سیاہ شگاف (Black Hole) کانظریہ اور قرآنی صداقت

نویں باب میں سیاہ شگاف (black hole) کے نظریہ کے ضمن میں کائنات کے ثِقلی تصادم کا ذکر ہے۔ یہاں سیاہ شگاف کا تعارف، ان کا معرض وجود میں آنا، ان کی تعداد اور جسامت، سیاہ شگاف کا ایک ناقابل دید تنگ گزرگاہ ہونا، سیاہ شگاف سے روشنی کا بھی فرار نہ ہو سکنا اور بیرونی نظارے سے مکمل طور پر پوشیدہ ہونے پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ نیز اس فصل میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ اپنی طبعی عمر گزارنے کے بعد زمین آخرکار سورج سے جا ٹکرائے گی۔

باب دہم : کائنات کا تجاذبی انہدام اور انعقادِ قیامت

دسویں باب میں کائنات کے تجاذبی انہدام کا قریبی جائزہ لیا گیا ہے۔ کائنات کے تجاذبی انہدام کے قرآنی نظریہ کے ساتھ ساتھ یہاں قرآنی الفاظ میں کائنات کے لپیٹے جانے کی سائنسی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ عظیم آخری تباہی اور نئی کائنات کا ظہور کے بیان میں سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا گیا ہے کہ کائنات قرآنی بیان کے مطابق ایک بار پھر دوبارہ گیسی حالت اِختیار کر لے گی اور تمام کائنات عظیم ناقابل دید سیاہ شگاف بن جائے گی۔

حصہ چہارم : اسلام اور انسانی زندگی

چوتھا حصہ چار ابواب پر مشتمل ہے:

باب اول : انسانی زِندگی کا کیمیائی ارتقاء

پہلے باب میں کیمیائی ارتقاء کے سات مراحل یعنی تراب، ماء، طین، طینِ لازب، صلصال من حماء مسنون، صلصال کالفخار اور سلالہ من طین شامل ہیں۔ اس باب میں تخلیقِ آدم علیہ السلام اور تشکیلِ بشریت کے ساتھ ساتھ بشریتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوہری حالت پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔

باب دوم : انسانی زِندگی کا حیاتیاتی ارتقاء

دوسرے باب میں رحم مادر میں خلیاتی تقسیم، نطفہ امشاج، منی یُمنٰی، ماءِ دافق، ماءِ مہین، انڈے کی رحمِ مادر میں نتقلی، علقہ کی ابتداء، جنین کی بطنِ مادر میں تین پردوں میں تشکیل کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں یہاں دورانِ حمل ربوبیت کے چار مظاہر یعنی تغذیہ، حفاظت، نقل و حرکت، تکیفِ حرارت کا ذکر بھی شامل ہے۔

باب سوم : انسانی زِندگی کا شعوری ارتقاء

تیسرے باب میں ہدایت کی مختلف اقسام، ہدایتِ فطری، ہدایتِ حسّی، ہدایتِ عقلی، ہدایتِ قلبی اور ہدایتِ ربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز اس باب میں انسانی ذرائع علم، حواس خمسہ ظاہری، حواس خمسہ باطنی اور انسانی قلب کے لطائف خمسہ کا محدود دائرہ کار بیان کرنے کے بعد انسانی علوم کی بےبسی اور علمِ نبوت کی ضرورت جیسے موضوعات سے مذہب کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

باب چہارم : اسلام اور طبِ جدید

چوتھے باب میں صحت و صفائی اور حفظ ماتقدم کے اسلامی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ یہاں نماز کے طبی فوائد سے روشناس کرایاگیا ہے۔ طب نبوی سے ثابت شدہ مجوزہ اور ممنوعہ غذاؤں کی اہمیت جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ثابت کی گئی ہے۔ اس باب کے آخر میں جینیاتی انجینئرنگ پر بھی بحث شامل کی گئی ہے۔

حوالہ جات

مزید دیکھیئے